حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؓ کی حسین یادیں
رسالہ ’’نورالدین‘‘ جرمنی کے ’’سیدنا طاہرؒ نمبر‘‘ میں مکرم منور احمد صاحب۔ سابق نا ظم اعلیٰ اجتماع بیان کرتے ہیں کہ جرمنی میں حضرت صا حبؒ سے خاکسار کی پہلی ملاقات نور مسجد میں گروپ کی شکل میں ہوئی۔
ہمیں حضورؒ کی خطبات کیسٹ بار بار سننے کا اتنا مزہ آتا تھا کہ ہمیں ایسے معلوم ہوتا تھا کہ ہم کسی اور ہی دنیا میں ہیں۔ بہت سارے ہمارے غیراحمدی احباب بھی سنتے تھے اور حیران تھے کہ بڑی پرُکشش آواز ہے۔ میرا ایک جاننے والا کریمینل پولیس کا چیف تھا۔ اس وقت اجتماعات وغیرہ ناصرباغ میں ہوتے تھے اور چھٹی کا بہت مسئلہ تھا۔ میں نے اُسے کہا کہ مجھے ناصر باغ جانے کی اجازت نہیں ملتی۔ اس کی کوششوں سے پھر اجازت بھی ملنا شروع ہوگئی۔ میں جب اس کے پاس گیا تو حضور ؒ کی تصو یر بھی ساتھ لے گیا۔ جب اس نے تصویر کو ہاتھ میں پکڑ کر دیکھنا شروع کیا تو میں اس وقت کی صورت حال بیان نہیں کر سکتا، وہ کہنے لگا کہ کس ملک سے ان کا تعلق ہے؟ میں نے کہا کہ پاکستان سے۔ تو وہ کہنے لگا کہ یہ تو مجھے پاکستان سے نہیں لگتے۔ یہ تو یوں لگتا ہے جیسے آسمان سے فرشتہ آیا ہے۔
کولون مشن کے افتتاح کے موقع پر میں نے وہاں کے برگا ماسٹر جو چرچ کا پادری بھی تھا، اُس کو بھی دعوت دی۔ مکرم ہیوبش صاحب اُس روز ترجمہ کرنے میں مشکل محسوس کررہے تھے جسے حضورؒ نے بھی محسوس کیا۔ سامنے ایک رپورٹر بیٹھا تھا۔ اُس نے اپنا ہاتھ کھڑا کیا اور کہا کہ اگر آپ مجھے اجازت دیں تو میں ٹرانسلیشن کرتا ہوں۔ تو حضورؒ نے فرمایا کہ آجائیں۔ وہ جا کر آپؒ کے ساتھ بیٹھ گیا اور ٹرانسلیشن کرتا رہا۔ جب پروگرام ختم ہوا توحضرت صاحبؒ نے اس کا شکریہ ادا کیا اور پوچھا کہ تمہیں کیسا محسوس ہورہا تھا، وہ کہنے لگا کہ میرا تو یہ حال تھا جیسے Football کے گراؤنڈ کے اندر کوئی ریفری بھاگتا ہے تا کہیں کوئی لمحہ اس سے رہ نہ جائے اور وہ کہیں کوئی غلط فیصلہ نہ دیدے، تو یہ میری حالت تھی۔ جب محفل ختم ہوئی اور کھانا ہوا۔ کھانے کے بعد جب ہم گھر جانے لگے تو وہ برگاماسٹر مجھے کہنے لگا کہ میں نے اپنی زندگی میں ایسا شخص نہیں دیکھا اور حیران ہوکر کہتا رہا کہ ایسا ذہین آدمی میں نے دنیا میں نہیں دیکھا اور مجھ سے پوچھتا رہا کہ یہ کہاں سے آئے ہیں اور ان کی تعلیم کیا ہے وغیرہ۔
ہم نے حضورانورؒ سے یہی سیکھا کہ جماعتی کام تقوی سے اور عاجزی سے کرنا ہے اور امانت سمجھ کر کام کرنا ہے اس امانت کو ایمان داری سے ادا کرنا ہے۔ ہم سے حضورؒ پوچھتے تھے کہ آپ نے سٹیج کے لیے کتنی جگہ چھوڑی ہوئی ہے، Tentمیں کتنے لوگوں کی جگہ ہے وغیرہ۔ حضورؒ ہمیں سمجھا تے تھے کہ کیسے کیا کرنا چاہئے۔ ہم نے حضرت صا حبؒ کے سمجھانے سے یہ اندازہ لگا یا کہ1مربع میڑ کی جگہ میں اڑہائی آ دمی بیٹھ سکتے ہیں۔ حضورؒ سب کچھ چیک کرتے تھے لنگرخانے میں نمک مرچ چیک کرکے بتاتے تھے کہ کھانا کیسا بنا ہے۔ معائنے کے دوران حضورؒ دفاتر کے بارے میں بھی پوچھتے کہ کون کونسے دفاترکہاں کہاں ہوں گے۔
مجھے وہ واقعہ نہیں بھولتا جب ایک مرتبہ اجتماع کی تیاری کے دوران بجٹ کم ہوگیا اور 3مرتبہ بجٹ بڑھانے کے لئے میٹنگ ہوئی اور بجٹ بڑھایا گیا۔ تو حضرت صاحبؒ کی طرف سے فوراً ہدایت آ گئی۔ آپؒ نے فرما یا کہ اگر گنجائش نہیں تو ضروری نہیں کہ آپ ہر سال اجتماع کریں۔ اگلے سال ہم نے حضرت صاحبؒ کی خدمت میں عرض کی کہ ہم بجٹ کے اندر رہ کر اجتماع کریں گے تو حضرت صا حبؒ نے ازراہ شفقت اجازت دیدی اور حضورؒ کی دعاؤں کی بدولت اللہ نے فضل کیا اور 60000 مارک کی ہم نے بچت کی۔
ایک بات کی شرمندگی رہے گی کہ ہم نے حضورؒ کے آرام کا اتنا خیال نہیں رکھا کیونکہ اتنی میٹنگز ہوتی تھیں بوسنین، عرب، پا کستا نیوں کے ساتھ اور بغیر کسی وقفہ کے دوسری میٹنگ شروع ہو تی تھی۔ لیکن ہم نے دیکھا ہے کہ ہر میٹنگ میں حضورؒ Fresh ہی ہوتے تھے۔
حضورؒ کی قبولیت دعا کا یہ واقعہ ہے کہ جب بھی ہم حضورؒ سے درخواست کرتے کہ حضورؒ موسم خراب ہے آپؒ دعا کریں تو آپؒ فرماتے کہ یہ اللہ کے کام ہیں اگر بارش ہوئی بھی تو رحمت ہی ہوگی۔ اور اکثر ایسا ہوا کہ بادل ہوتے تھے مگر جیسے ہی حضرت صاحبؒ کی خدمت میں دعا کے لئے خط لکھا تو دیکھتے ہی دیکھتے وہ غائب ہو جایا کرتے تھے۔ اور ایک مرتبہ حضورؒ خطاب فرما رہے تھے اور اتنی بارش ہوئی کہ خیمہ ٹوٹ گیا مگر حضورؒ کا خطاب جاری رہا۔
حضورؒ سے یہی سیکھا ہے کہ خدمتِ دین کو فضل الٰہی جان کر انجام دو۔ ہمیشہ اعلیٰ عہدیدار کی اطاعت کرنی ہے اور خوشامد نہیں کرنی۔ مشورہ ایمان داری سے دینا ہے۔ جماعت کا پیسہ ایمان داری سے اپنا سمجھ کر خرچ کرنا ہے۔ اسی طرح ہم نے حضورؒ سے ہی عبادت کرنے کے اعلیٰ معیار سیکھے۔
میرا ایک بیٹا نوروز احمد چار پانچ سال کی عمر میں فوت ہوگیا تھا۔ وہ دل کا مریض تھا، چونکہ ہم اسائلم پر تھے اس لئے صحیح علاج نہ ہوسکا۔ جب اُسے ہسپتال لے گئے تو میں نے حضرت صاحبؒ کو فون کیا اور ساری صورتحال بتائی تو حضورؒ نے فرمایا کہ آپ صبر کریں اور میں بھی دعا کرتا ہوں۔ جب حضرت صاحبؒ کو دوبارہ فون کیا تو فرما یا کہ آپ صبر کریں اوراللہ کی تقدیر میں راضی رہیں اور اپنی اہلیہ کو میرا سلام کہیں۔ میں نے کہا کہ حضورؒ آپ ہی تو کہتے ہیں کہ دعا سے سب کچھ ہو جاتا ہے۔ تو حضورؒ نے بڑے جلالی رنگ میں فرمایا کہ خدا کی تقدیر اٹل ہوتی ہے کبھی کوئی مرا ہوا واپس نہیں آتا اور ڈاکٹرز سے کہیں کہ مصنوعی مشینیں اتاردیں۔ ہم نے ڈاکٹرز سے کہا لیکن وہ نہ ما نے مگر اگلے دن بچے کی طبعی وفات بھی ثابت ہوگئی۔ حضر ت صا حبؒ کی خدمت میں دعا کے لئے لکھا تو آپؒ نے خود تشحیذالاذہان میں مغفرت کا اعلان شائع کروایا۔ بہرحال ہمیں صبر کی توفیق بھی ملی اور میری اہلیہ بھی درودشریف پڑھتی رہیں اور بالکل کوئی آنسو نہیں بہایا۔ کچھ عرصہ کے بعد ہمارے ہاں بچے کی امید ہوئی تو ہم نے حضورؒ کی خدمت میں دعائیہ خط لکھا تو بہت محبت کے جواب آئے اور فرمایا کہ بچے کا نام نوروز احمد ہی رکھیں۔ دو بارہ خط لکھنے پر بھی یہی نام آیا۔ ڈا کٹرز نے پہلے بیٹی بتائی تھی مگر بیٹا ہی ہوا۔ ڈاکٹرز نے کہا کہ ہم چیک اپ کریں گے مگر میری اہلیہ نے چیک اپ نہیں کروایا اور کہا کہ مجھے میرے اللہ پر یقین ہے کہ وہ مجھے تندرست بچہ ہی دے گا۔ تو یہ ہمارے لئے حضورؒ کی دعاؤں کا بہت بڑا نشان تھا۔