حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؓ کی حسین یادیں
رسالہ ’’نورالدین‘‘ جرمنی کے ’’سیدنا طاہرؒ نمبر‘‘ میں میاں محموداحمد صاحب سابق صدر خدام الاحمدیہ جرمنی بیان کرتے ہیں کہ ایک اجتماع میں حضورؓ نے فرمایا کہ میں جب خدام الاحمدیہ میں تھا تو مجھے بھی اس وقت سب سے زیادہ فکر اس چیز کا تھا اور میں نے اپنے سارے دَور میں سب سے زیادہ زور اسی بات کے اوپر رکھا ہے کہ میں خدام کو نماز سکھا سکوں ، نماز باترجمہ سکھا سکوں اور پنجوقتہ نماز پر ان کو راغب کرسکوں۔
حضور کی انکساری کا یہ واقعہ قابل ذکر ہے کہ ایک اجتماع کے موقعہ پر مکرم مجاہد احمد صاحب نے نظم پڑھی جس سے مجمع میں سکوت طاری ہو گیا۔ حضور ؒ نے فرمایا کہ میری درخواست ہے کہ وہ خادم دوبارہ آئے اور پوری نظم دوبارہ پڑھے۔ وہ نظم یہ تھی۔
وہ دیکھتا ہے غیروں سے کیوں دل لگاتے ہو
جو کچھ بتوں میں پاتے ہو اس میں وہ کیا نہیں
اب میں نے اعلان اس طرح کیا کہ حضور انورؒ کا ارشاد ہے کہ مجاہد دوبارہ اسٹیج پر آئے اور نظم پڑھے۔ اس پر حضور انورؒ نے فرمایا: میرا ارشاد نہیں، درخواست ہے۔ چنانچہ میں نے یہ اعلان کیا کہ حضور انورؒ کا ارشاد ہے کہ میری طرف سے درخواست کی جائے کہ مجاہد دوبارہ اسٹیج پر آئے اور نظم پڑھے۔ اس پر سب مسکرانے لگے۔
ٰایک مرتبہ حضورؒ مسجد نور میں قیام فرما تھے تو رات دو یا تین بجے کسی کا فون آیا جو کسی ٹیکنیکل خرابی کی وجہ سے دفتر کی بجائے حضورؒ کے کمرہ میں چلا گیا۔ حضورؒ نے فون اٹھایا اور کہا السلام علیکم! دوسری طرف سے کسی نے پنجابی میں اپنا نام بتایا اور پوچھا کہ میںنے ملاقات کے لیے درخواست دی تھی، آپ کون بول رہے ہیں۔ حضورؒ نے فرمایا میں طاہر احمد بات کر رہا ہوں۔ وہ بولا کہ کبھی کوئی اٹھاتا ہے تو کبھی کوئی اٹھاتا ہے، وہ دوسرا آدمی کدھر ہے۔ حضورؒ نے فرمایا کہ اب رات ہو گئی ہے، سب سو گئے ہیں آپ صبح فون کرلیں۔ اس نے پنجابی میں ہی کہا کہ اب بتا دیجئے گا بھول نہ جائیے گا۔ ہماری ملاقات ہی نہیں ہوتی جبکہ باقی سب ملاقات کر جاتے ہیں۔ اگلے دن حضورؒ نے بڑی شفقت اور محبت سے عملے کو اس واقعہ سے آگاہ کیا اور سمجھایا کہ لوگوں کی پریشانی کا خیال رکھا کریں۔
خاکسار کی شادی کے پانچ ماہ گزرنے کے باوجود اولاد کی اُمید نہ تھی۔ حضورانورؒ سے ملاقات کے دورا ن درخواست دعا کی گئی تو حضورؒ نے جواب میں فرمایا کہ شادی کو کونسا پانچ سال گزرے ہیں اللہ تعالیٰ فضل فرمائے گا۔ اس کے بعد خاکسار کے لیے حضورؒ نے شادی کا تحفہ بھی بجھوایا۔ ہم اولاد کے لیے دعائیہ خط لکھتے رہے۔ پیارے حضورؒکی دعاؤں کے نتیجے میں خدا تعالیٰ نے ہمیں آٹھ سال بعد اولاد سے نوازا،جس کا نام حضورؒنے یاور احمد عطا فرمایا۔
ایک مرتبہ نیشنل اجتماع کے موقع پرآخری دن طلباء کے ساتھ مجلس سوال و جواب کے دوران اس قدر شدید بارش ہوئی کہ اس سے قبل اور بعد میں بھی ایسی بارش کم ہی دیکھی ہے۔ گرائونڈز میں پانی کھڑا ہو گیا۔ حضورؒ کی گاڑی کے ٹائر بھی پانی میں ڈوب گئے تھے۔ کبڈی، والی بال اور فٹ بال کے فائنلز ہونا ابھی باقی تھے جو ناممکن نظر آتے تھے۔ حضور ؒ بار بار پوچھتے کہ کیا پروگرام ہے۔ ہم جواب دیتے کہ میچز کا ہونا مشکل ہے۔ پوچھا کہ اب فٹ بال کا کس طرح فیصلہ کریں گے تو میں نے حضورؒ سے عرض کی کہ جرمن قانون کے مطابق میچ اس وقت تک کھیلا جا سکتا ہے جب تک فٹ بال پانی پر تیرنا نہ شروع کر دے۔ اس پر حضورؒ نے دعا کرنی شروع کی۔ اس وقت ایک خاص جلال آپؒ کے چہرے سے ٹپک رہاتھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کچھ دیر کے بعد بارش تھم گئی اور حضورؒ فٹ بال کا میچ دیکھنے کے لیے تشریف لے گئے۔ آپ ؒ کے چہرے پر بہت زیادہ نور اورجلال تھا۔ حیرانگی کی بات ہے کہ جب حضورؒ گراؤنڈ میں تشریف لائے تو پانی کا نام و نشان تک نہیں تھا۔ حضورؒ کے بیٹھنے کے لیے کرسی پیش کی گئی مگر حضورؒ نے کھڑا ہونا پسند فرمایا۔ حضورؒ نے میرا ہاتھ پکڑ کر بڑے جلال سے فرمایا کہ صدر صاحب میں نے آپ سے کہا تھا نا کہ مقابلے ضرور ہوں گے۔
اسی طرح 1998ء میں نیشنل اجتماع سے قبل اس قدر گہرے بادل چھا گئے کہ شدید بارش کا خطرہ پیدا ہو گیا۔ فوراً حضور اقدسؒ کی خدمت میں دعا کے لئے تحریر کیا گیا۔ اس خط کے بعد ہم نے خلیفہ وقت کی قبولیت دعا کا یہ نشان بھی دیکھا کہ اجتماع کے تینوں دن بارش نہیں ہوئی۔ مگر آخری دعا کے ختم ہوتے ہی ایسی شدید بارش ہوئی کہ جل تھل ہوگیا۔