حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے ’’سیدنا طاہرؒ نمبر‘‘ میں حضورؒ کے معالج اور معروف احمدی کارڈیالوجسٹ، مکرم ڈاکٹر مسعودالحسن نوری صاحب کا ایک انٹرویو (مرتبہ: مکرم محمد محمود طاہر صاحب) شامل اشاعت ہے جس میں انہوں نے حضورؒ کی بیماری اور وفات کے بعد کی روداد مختصراً بیان کی ہے۔
محترم ڈاکٹر صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے انتھک محنت اور زمانہ بھر کے زخم اپنے سینہ میں لئے ہوئے ستر سال کی عمر میں قدم رکھا تو آپؒ کو ہائی بلڈپریشر، ذیابیطس اور خون میں کولیسٹرول کی زیادتی ہوگئی تھی جس کی وجہ Stress اور Strain بھی تھا۔ ان علامات کی موجودگی میں اس عمر میں دل کا عارضہ بھی لاحق ہوجاتا ہے لیکن اس کے باوجود حضورؒ انتہائی تن دہی کے ساتھ خدمات دینیہ بجالاتے رہے۔ 1999ء میں بیماری کا آغاز ہوا جس کی شدت 2002ء میں پیدا ہوئی۔ چنانچہ 2002ء میں جب آپؒ کی اینجوپلاسٹی ہوئی تو ڈاکٹر سٹیفن جیکنز نے اس شبہ کا اظہار کیا کہ حضورؒ کو ایک عرصہ قبل ہلکا سا دل کا حملہ ہوچکا ہے جس پر آپؒ نے بتایا کہ 1998ء میں دورہ امریکہ کے دوران سینہ میں درد ہوئی تھی۔
حضورؒ بیماری کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے اور شدید بیماری میں بھی کبھی بے صبری کا کلمہ استعمال نہیں کیا اور نہ ہی اپنی شدید تکلیف کا اظہار کیا۔ بیماری کو عام تقدیر کے طور پر لیا اور اس کے مطابق تدبیر کرتے ہوئے جماعتی کام معمول کے مطابق چلاتے رہے۔ 2002ء میں جب جلسہ کے دنوں میں طبیعت زیادہ خراب ہوئی تو مختلف ٹسٹوں میں یہ بات سامنے آئی کہ حضورؒ کو دل کی تکلیف بھی ہے۔ اس پر ڈاکٹر جیکنز (جو ڈاکٹر نوری صاحب کے استاد بھی ہیں اور حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی بیماری کے دوران پاکستان تشریف لاکر حضورؒ کا معائنہ کرنے والوں میں شامل تھے) نے حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی رہائش گاہ میں تشریف لاکر حضورؒ کا معائنہ کیا اور بتایا کہ حضورؒ کو اینجوگرافی کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لئے لندن کے بہترین ہسپتال سینٹ تھامس ہسپتال کا انتخاب کیا گیا جو دریائے ٹیمز کے کنارے سنٹرل لندن میں واقع ہے۔ اس کی بارھویں منزل پر کمرہ نمبر 8 حضورؒ کے لئے بُک ہوا جس کا باہر کا منظر بہت خوبصورت تھا۔ہسپتال کے سٹاف کو جب معلوم ہوا کہ ایک عالمی جماعت کے سربراہ آرہے ہیں تو انہوں نے انتہائی محبت اور احترام سے استقبال کیا اور خصوصی خیال رکھا۔ ڈاکٹر جیکنز نے اینجوگرافی کی جو نصف گھنٹہ میں مکمل ہوئی پھر ڈیڑھ گھنٹہ اینجوپلاسٹی میں لگا۔ یہ مرحلہ بہت کامیاب رہا۔ حضورؒ 14؍اکتوبر 2002ء کا ایک دن ہسپتال میں گزار کر اگلے روز واپس گھر تشریف لے آئے۔ حضورؒ ہسپتال میں بار بار یہی فرماتے کہ کتنی دیر میںمسجد جاکر نمازیں پڑھاسکوں گا۔ بیماری کی کمزوری اور آپریشن کے بعد آرام کی ضرورت تھی لیکن حضورؒ کی لذت نماز میں ہی تھی۔ گھر واپس آنے سے قبل حضورؒ نے ڈاکٹر جیکنز سے خوشی کا اظہار فرمایا کہ یہ سارا عمل بہت آرام سے ہوا ہے۔
اینجوپلاسٹی کے بعد حضورؒ کے دل کی حالت خدا کے فضل سے تسلّی بخش ہوگئی لیکن ہائی بلڈپریشر، شوگر اور ہائی کولیسٹرول سے صرف دل ہی متأثر نہیں تھا بلکہ خون کی ایک بڑی نالی جو دماغ اور سر کی طرف جاتی تھی، اس میں بھی رکاوٹ تھی جس کی وجہ سے خاص کر ٹانگوں میں کمزوری پیدا ہورہی تھی اس کے آپریشن کے لئے لندن برج ہسپتال کا انتخاب کیا گیا لیکن علاج کے لئے بنیادی ٹیم وہی تھی جو پہلے ہسپتال میں تھی۔ لندن برج ہسپتال کا Intensive Care Unit لندن کا بہترین یونٹ سمجھا جاتا ہے۔ ڈاکٹر پیٹر ٹیلر ویسکولر کو اس آپریشن کے لئے منتخب کیا گیا۔ 29؍اکتوبر 2002ء کو حضورؒ آپریشن کے لئے ہسپتال میں داخل ہوئے، اگلے روز آپریشن ہوا اور 7؍نومبر کو حضور گھر تشریف لے آئے اور اُسی روز سے ڈاک بھی ملاحظہ فرمانی شروع کردی۔ 11؍نومبر سے فزیو تھراپسٹ نے گھر پر علاج شروع کیا اور 5؍دسمبر 2002ء کو رمضان کی اختتامی دعا کے لئے حضورؒ مسجد فضل لندن میں تشریف لائے۔
ڈاکٹر پیٹر ٹیلر نے مذکورہ آپریشن سے پہلے وضاحت کے ساتھ حضور ؒ کو بتایا تھا کہ اس آپریشن کے نتیجہ میں پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں اور یہ کہ آپریشن نہ ہونے سے تکلیف بڑھ سکتی ہے لیکن آپریشن ہونے سے صحت میں بہتری کے امکانات نہیں ہیں بلکہ صرف صحت میں مزید انحطاط رُک جائے گا۔ حضورؒ کے سامنے جب ڈاکٹرز کے پینل نے ساری باتیں پیش کیں تو حضورؒ نے آپریشن پر آمادگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ جو تدبیر ہے وہ پورے طور پر ہونی چاہئے، باقی سب تو خدا کے ہاتھ میں ہے۔
حضورؒ کو احباب جماعت سے بے حد محبت تھی۔ چنانچہ جب آپریشن سے کچھ دیر قبل حضورؒ کو بتایا گیا کہ جماعت دعائیں بھی کر رہی ہے تو یہ سنتے ہی حضورؒ کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی اور اتنے آنسو بہے کہ ہچکی بندھ گئی۔ حضورؒ نے پوچھا کہ احباب کو کس طرح پتہ چلا کہ آپریشن ہونے والا ہے۔ عرض کیا گیا کہ MTA پر اعلان ہورہے ہیں۔ حضورؒ کو اس بات کا بے انتہا دکھ تھا کہ احباب جماعت کو میری وجہ سے اس قدر تکلیف ہورہی ہے۔ اس بات کا دکھ نہیں تھا کہ آپریشن کس قدر پیچیدہ ہے اور اس کا نتیجہ کیا نکلے گا۔
ڈاکٹر نوری صاحب نے مزید بیان کیا کہ اسی طرح کا ایک واقعہ ستمبر 1999ء میں ہوا جب حضورؒ کو پہلی بار دل کی تکلیف ہوئی تو ڈاکٹرز نے مشورہ دیا کہ حضورؒ دن کے کسی حصہ میں سیر کے لئے باہر جایا کریں۔ چنانچہ حضورؒ نے رچمنڈ پارک میں جانا شروع کردیا جو مسجد سے بیس منٹ کے فاصلہ پر تھا اور اس کا انتخاب اس لئے کیا گیا کہ وقت کا ضیاع نہ ہو۔ ایک روز سیر سے واپسی پر کار میں مَیں نے دیکھا کہ حضورؒ گہری سوچ میں ہیں۔ قریباً پندرہ منٹ بعد حضورؒ نے سامنے کی طرف دیکھا اور تھوڑا سا مسکرائے اور فرمایا: اللہ تعالیٰ نے یہ عجیب جماعت پیدا کی ہے اور روئے زمین پر ایسی جماعت دیکھنے میں نہیں آتی۔ حضورؒ سوچ رہے تھے کہ حضورؒ کی بیماری میں اتنے خطوط اور پیغامات موصول ہوئے ہیں اور اتنے صدقات دیئے جارہے ہیں جبکہ اس زمانہ میں یہ نظارہ کسی دوسری شخصیت کے لئے نہیں دیکھا جاسکتا۔ یہ بات کہتے ہوئے حضورؒ آبدیدہ ہوگئے۔ مَیں نے عرض کیا: حضور! آپ جیسا شخص بھی روئے زمین پر اس زمانہ میں کوئی نہیںہے۔ اس پر عاجزی و انکساری میں آپؒ نے اپنا چہرہ دوسری طرف موڑ لیا اور سر سے نفی کا اظہار بھی فرمایا۔
آپریشن کے بعد حضور ایک ہفتہ کے قریب ہسپتال میں رہے۔ آپ کو آپریشن کے دوران قے آئی تھی جو سانس کی نالی میں چلی گئی جس سے نمونیہ کی کیفیت پیدا ہوگئی۔ اس کے بعد حضورؒ کو مصنوعی سانس کی مشین پر رکھا گیا۔ عام طور پر اتنی بیماریوں کے مریض کی کیفیت اگر ایسی ہوجائے تو اس کے بچنے کی امید نہیں ہوتی لیکن اللہ تعالیٰ نے خاص فضل کیا اور حضورؒ کو صحت ہوئی اور ایک طرح سے نئی فعال زندگی عطا فرمائی گئی۔ چوٹی کے ڈاکٹر جو علاج کر رہے تھے، وہ بحالی صحت کے اس عمل کو طبی معجزہ قرار دیتے تھے۔ چنانچہ ڈاکٹر نک لیوسیف (نیوروفزیشن) نے اپنی رپورٹ میں خوشی کا اظہارکرتے ہوئے حضورؒ کے پیچیدہ آپریشن کے بعد شفاء کو معجزہ قرار دیا۔ ڈاکٹر جیکنز نے کہا: ہماری زندگی میں یہ معجزہ رونما ہوا ہے۔
ہسپتال میں حضورؒ کا زیادہ وقت دعاؤں میں گزرتا تھا اور کوئی موقعہ ایسا نہیں ہوتا تھا جب آپؒ کے ہونٹ دعائیں کرتے ہوئے ہلتے دکھائی نہ دیتے ہوں۔ آپؒ جس طرح دوسروں سے ملتے تھے اس سے اندازہ نہیں کیا جاسکتا تھا کہ آپ اس قدر پیچیدہ بیماری سے گزر رہے ہیں۔ ہسپتال کے ڈاکٹر اور سٹاف آپؒ کو His Holinessکہہ کر پکارتے۔ پہلے آپؒ کو ’’گڈمارننگ حضور‘‘ کہتے اور پھر بیٹھنے کی اجازت طلب کرتے۔ کئی لوگ اس قدر احترام کرتے کہ جب کمرہ سے باہر نکلتے تو حضورؒ کی طرف پشت نہیں کرتے تھے، خصوصاً ڈاکٹر جیکنز کا یہ طریق تھا۔ سپیشلسٹ کنسلٹنٹ عموماً گھر پر مریض کو دیکھنے نہیں جاتے لیکن حضورؒ کے معائنہ کے لئے وہ سب حضورؒ کے فلیٹ پر تشریف لاتے رہے اور صرف اُن معائنوں کے لئے حضورؒ کو ہسپتال جانا پڑتا تھا جن کے لئے خاص آلات استعمال ہوتے ہیں۔
ایک انگریز خاتون ڈاکٹر (جو آپریشن سے پہلے انستھیزیا دیتی ہیں) انہوں نے حضورؒ سے کہا کہ وہ رومن کیتھولک ہیں اور اُن کا تأثر ہے کہ جو محبت اور خلوص حضورؒ کی جماعت کا انہوں نے مشاہدہ کیا ہے وہ کسی اور مذہبی فرقہ حتیٰ کہ پوپ کے ماننے والوں میں بھی دکھائی نہیں دیتا۔ وہ ہاتھ باندھ کر حضورؒ کے سامنے ایسے کھڑی ہوتی تھیں کہ شبہ پڑتا تھا کہ یہ احمدی ہیں۔
مکرم ڈاکٹر نوری صاحب نے بتایا کہ حضورؒ کو وفات سے پہلے چند دن سے فلو کی شکایت تھی۔ اس تناظر میں مَیں بعد مشورہ و ہدایت 17؍اپریل 2003ء کو لندن روانہ ہوا۔ لندن پہنچ کر حضورؒ کے فلیٹ پر حاضر ہوا تو حضورؒ آرام کرسی پر الفضل کا مطالعہ فرما رہے ہیں۔ مَیں نے جب معائنہ کیا تو سوائے کمزوری کے کوئی ایسی علامت نہیں دیکھی کہ آئندہ 36 گھنٹوں میں رونما ہونے والے عظیم سانحہ کا انداز ہوتا۔ مَیں نے ڈاکٹر جینکنز سے بھی مشورہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ پانچ روز قبل انہوں نے حضورؒ سے ایک ملاقات کی ہے جو بہت بھرپور تھی اور ایک عرصہ بعد وہ حضورؒ کی ملاقات سے بہت لطف اندوز ہوئے اور اس ملاقات میں عراق اور دیگر عالمی مسائل اور جماعت کے حوالہ سے بھی حضورؒ نے اُنہیں بہت سی باتیں بتائی تھیں۔
18؍اپریل 2003ء کی صبح حضورؒ نے قرآن کریم کا دَور مکمل کیا۔ جمعہ کے بعد مَیں نے حضورؒ کا معائنہ کیا۔ حضورؒ بہت خوش و خرم تھے اور اپنی بیماری کا احساس بھی نہ تھا۔ شام کو بھی حضور مجلس عرفان سے بہت خوش تھے جس کا اظہار حضورؒ نے گھر جاکر بھی کیا۔ مغرب و عشاء کی نمازیں ٹانگوں میں کمزوری کی وجہ سے کرسی پر بیٹھ کر پڑھائیں۔ رات کو صاحبزادی فائزہ لقمان صاحبہ سے فرمایا کہ آج تو مجھے کھانے میں بھی بہت مزہ آیا۔
19؍اپریل کو گیارہ بجے مَیں نے حضورؒ کی خدمت میں معائنہ کے لئے حاضر ہونا تھا۔ اُس دن حضورؒ حسب معمول نماز کے لئے بیدار ہوئے، فجر کی نماز بیڈروم میں ہی ادا کی اور پھر پون گھنٹہ کے قریب تلاوت قرآن کریم فرمائی اور اس کے نئے دَور کا آغاز کیا۔ مکرم مرزا لقمان احمد صاحب جو کچھ عرصہ سے حضورؒ کے کمرہ میں ہی حضورؒ کے قدموں کی طرف سویا کرتے تھے اور جب حضورؒ نماز کے لئے بیدار ہوتے تو میاں لقمان صاحب دوسرے کمرہ میں چلے جاتے۔ وہ بتاتے ہیں کہ چند دنوں سے حضورؒ کی آواز کھانسی کی وجہ سے اچھی نہ تھی لیکن 19؍اپریل کو بڑی خوش الحانی سے صاف آواز کے ساتھ تلاوت کی۔ چھ بجے کے قریب حضورؒ دوبارہ آرام کے لئے لیٹ گئے۔ ساڑھے نو بجے کے قریب حضورؒ ناشتہ کے لئے اٹھاکرتے تھے۔ بی بی فائزہ حضورؒ کا ناشتہ تیار کرتی تھیں۔ ناشتہ کے بعد حضورؒ جماعتی کاموں میں مصروف ہوجاتے تھے۔
میاں لقمان صاحب ساڑھے نو کے کچھ بعد حضورؒ کے پاس آئے اور سلام کیا لیکن جواب نہ ملا۔ انہوں نے قریب آکر دیکھا تو حضورؒ سانس بھی نہیں لے رہے تھے۔ انہوں نے مجھے فون کیا۔ مَیں تیار ہی بیٹھا تھا، بھاگتا ہوا حضورؒ کے فلیٹ پر پہنچا۔ حضورؒ اپنی دائیں کروٹ لیٹے ہوئے تھے اور آپؒ کے دونوں ہاتھ سینے پر تھے جیسے نماز کے لئے باندھتے ہیں۔ سانس نہیں آرہا تھا لیکن ایسا معلوم ہوتا تھا کہ حضورؒ سوئے ہوئے ہیں۔ نبض بھی نہیں تھی، دل کی دھڑکن بھی نہیں سنی گئی۔ حضورؒ کی وفات ہوچکی تھی۔ حضورؒ نے سفید شلوار قمیص زیب تن کیا ہوا تھا اور دلائی کاندھوں تک آئی ہوئی تھی۔ چہرہ بہت پُرسکون اور نورانی تھا۔ جسم ابھی تک گرم تھا اور اندازاً نصف گھنٹہ قبل حضورؒ کی وفات ہوئی تھی۔ حضورؒ کے تکیے کے نیچے حضورؒ کی ’’الیس اللہ بکافٍ عبدہ‘‘ کی انگوٹھی پڑی تھی جسے میاں لقمان صاحب نے اٹھاکر جیب میں ڈال لیا اور جیب کو اوپر سے سی لیا۔ یہ انگوٹھی بعد میں حضرت مرزا عبدالحق صاحب نے حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کو پہنائی۔
حضورؒ اس دنیا سے رخصت ہوئے تو سنت کے تمام طریقوں پر عمل کیا ہوا تھا۔ مکمل وضو، نماز فجر کی ادائیگی، تلاوت قرآن کریم، دائیں طرف لیٹے ہوئے اور سفید لباس میں ملبوس تھے۔ بی بی فائزہ صاحبہ کو خبر ملی تو قریب آکر سورۃ یٰسین کی تلاوت کرنے لگیں۔ بعد میں مکرم ناظر صاحب اعلیٰ صدر انجمن احمدیہ کو اطلاع دی گئی اور اُن کی زیر ہدایت باقی امور سرانجام پاتے رہے۔
18؍اپریل کو بروز جمعہ حضورؒ نے اپنی داڑھی کا خط بنوایا جو میاں لقمان صاحب نے کیا۔ اس کے اترے ہوئے کچھ بالوں کے بارہ میں حضورؒ نے فرمایا کہ یہ ڈاکٹر نوری صاحب کو دیدیں، وہ مجھ سے بہت تعلق رکھتے ہیں۔
وفات کے بعد جسد اطہر کو اسی کمرہ میں رکھ کر برف اور ایئرکنڈیشنر کا انتظام کردیا گیا۔ جسد اطہر کی Embalming کروائی گئی۔ ڈیڑھ گھنٹے کے اس عمل میں خون کی نالی میں خاص دوائی دی جاتی ہے جس سے جسم محفوظ رہتا ہے۔ اس کے بعد غسل کا مرحلہ شروع ہوا جو رات بارہ بجے مکمل ہوا۔ دو تابوت خریدے گئے تھا۔ ایک عارضی تھا جس میں جسد اطہر کو دیدار کے لئے رکھا گیا اور اس کے اوپر شیشہ لگا ہوا تھا۔ دوسرا تابوت ایلومینئم کا تھا جس میں آپ کی امانتاً تدفین ہوئی۔ اس تابوت کو سیل کیا جاسکتا تھا۔ 20؍اپریل کی صبح محمود ہال میں دیدار کروایا جانے لگا اور چھ چھ گھنٹے کے بعد مطلوبہ خنکی پہنچانے کیلئے کمرہ بند کردیا جاتا۔