حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کی اتباع سنت نبوی ﷺ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 24مئی 2012ء میں مکرم غلام مصباح بلوچ صاحب کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے جس میں حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی اتباع سنت نبویؐ کے حوالہ سے چند پاکیزہ روایات بیان کی گئی ہیں ۔
سورۃ النور میں درج آیت استخلاف کے سیاق و سباق کے مطالعہ سے اطاعت رسولؐ کی بہت بھاری تلقین ہمیں ملتی ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور فرمانبرداری کو ہی فلاح اور نجات کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ چنانچہ پہلی آیت میں فرمایا اگر تم اس رسولؐ کی اطاعت کروگے تو ہدایت پاؤگے اور دوسری آیت میں فرمایا کہ رسولؐ کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ اور آیت استخلاف کو ان دونوں آیات کے درمیان لاکر یہ سمجھا دیا کہ خلافت کے قیام اور اس کے استحکام کا اطاعت کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے۔
اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جس وجود کو خلافت کا تاج پہنایا وہ وجود بھی اطاعت رسولؐ میں سرشار تھا۔ سیدنا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ (جو ابن ابی قحافہ کی کنیت رکھتے تھے) کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں ہمیشہ یہی فرمایا کرتے تھے کہ ابن ابی قحافہ کی کیا مجال کہ وہ کام کرے جو خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ کیا ہو یا ابن ابی قحافہ کی کیا حیثیت کہ وہ کام نہ کرے جس کے کرنے کا ارشاد رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہو۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے ملنے والی بشارت کے مطابق آخری زمانہ میں ایک مرتبہ پھر اللہ تعالیٰ نے منہاج نبوت پر خلافت کو قائم فرمایا تو حضرت مسیح موعودؑ کی وفات کے بعد اُس کی پیاری جماعت میں جس وجود کو ’’خلیفۃ المسیح الاول‘‘ کے درجے سے سرفراز فرمایا وہ وجود بھی عشق الٰہی، عشق رسولؐ اور عشق مسیح محمدیؐ میں فنا تھا۔ چنانچہ سیدنا حضرت مولانا حکیم مولوی نورالدین صاحب بھیرویؓ کی سیرت کے درخشاں ابواب بھی اطاعتِ الٰہی، اطاعتِ رسولؐ اور اطاعتِ مسیح موعودؑ ہیں ۔ یہ آپؓ کی کامل اطاعت، فرمانبرداری اور تابعداری تھی جسے پسند کرتے ہوئے خدائے بزرگ و برتر نے آپؓ کو مُطیع سے مُطاع بنا دیا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بے انتہا محبت تھی۔ اس عشق و محبت میں کبھی آپ ان الفاظ میں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہیں : ’’قربانت شَوَم یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ‘‘ ۔ اور کبھی ان الفاظ میں مخاطب کرتے ہیں :
’’بِأَبِی أنْتَ وَ أُمِّی یَا رَسُولَ اللہ! رُوْحِی فِدَاکَ‘‘۔
یہ عشق رسولؐ کا ہی نتیجہ تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع اور پیروی ہر لحظہ آپ کے پیش نظر رہتی۔ آپؓ خود فرماتے ہیں : ’’مجھے رسومات اور بدعات سے نفرت ہے اور سنّت سے محبت ہے‘‘۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ اُس عظیم محسن انسانیت کے احسانوں کا بدلہ اس رنگ میں چکانا چاہتے تھے کہ رسول ؐاللہ کی سنت کو اپنی روزمرہ کی زندگی میں رواج دیا جائے۔ آپ جماعت کو وعظ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ایک طرف جناب الٰہی ہیں ، ایک طرف محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ہیں ۔ محمدؐ رسول اللہ کی دعائیں اپنے حق میں سنو، آپؐ کا چال و چلن سنو، پھر یہ کہ آپ نے ہمارے لئے کیا کیا، اپنے تئیں جان جوکھوں میں ڈالا۔ ایسے مخلص مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری اپنے دوست کی فرمانبرداری کے برابر بھی نہ کرو تو کس قدر افسوس کی بات ہے۔
٭ کسی بھی کام کے کرنے یا نہ کرنے کے متعلق آپ اگر سنت نبویؐ میں کوئی تعلیم پاتے تو اس کے مطابق ہی عمل کرتے۔ آپ کی اتباع سنت نبویؐ کا ہی یہ جوش تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کلمات طیبات جاننے کے لیے عمر بھر علم حدیث سیکھنے اور سکھانے میں مصروف رہے اور اس شوق کی خاطر دور دراز کے سفر بھی اختیار کیے۔ علم حدیث سیکھنے کے لئے آپ پہلے بھوپال گئے۔ پھر حرمین شریفین تشریف لے گئے جہاں نامی گرامی شیوخ الحدیث سے صحاح ستہ اور دیگر کتب احادیث کا علم حاصل کیا۔ آپ کو کلمات طیبات سیکھنے اور یاد کرنے کا شوق تھا کہ رؤیا میں بھی آپ کی راہنمائی ہادی عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ کی گئی اور آپ کو اس سے یہ تفہیم ہوئی کہ حدیث پر عمل کرنا ہی حدیثوں کو یاد کرنے کا حقیقی ذریعہ ہے۔
اس حوالہ سے چند واقعات ملاحظہ فرمائیں :
٭ 12؍اگست 1905ء کو آپ کے بیٹے عبدالقیوم صاحب کی وفات ہوئی، بچے کی تدفین سے قبل آپ نے کفن سے منہ کھول کر بوسہ دیا اور آپ کی آنکھیں پُر آب ہوگئیں ۔ تدفین کے بعد آپ نے فرمایا:
’’مَیں نے بچہ کا منہ اس واسطے نہیں کھولا تھا کہ مجھ کو کچھ گھبراہٹ تھی بلکہ اس واسطے کہ سنّت پوری ہو۔ آنحضرتؐ کا بیٹا ابراہیم جب فوت ہوا تھا تو آنحضرتؐ نے اس کا منہ چوما تھا اور آپؐ کے آنسو بہہ نکلے اور آپؐ نے اللہ تعالیٰ کی مدح کی اور فرمایا کہ جدائی تو تھوڑی دیر کے لئے بھی پسند نہیں ہوتی پر ہم خدا کے فعلوں پر راضی ہیں ۔ اسی سنّت کو پورا کرنے کے واسطے میں نے بھی اس کا منہ کھولا اور چوما۔ یہ خدا کا فضل ہے اور خوشی کا مقام ہے کہ کسی سنّت کے پورا کرنے کا موقعہ عطا ہو‘‘۔
٭ نماز عید کی ادائیگی کے بعد گھر واپس آنے کے متعلق کتب حدیث میں یہ روایت بیان ہوئی ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم عید کے دن جب واپس گھر تشریف لاتے تو جس راستے سے مسجد میں جاتے اُس راستے کی بجائے دوسرا راستہ اختیار کرکے گھر واپس آتے۔
27؍اکتوبر 1908ء کو قادیان میں عید کا دن تھا جس کا ذکر کرتے ہوئے ایڈیٹر اخبار الحکم حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کے متعلق بیان کرتے ہیں : ’’نماز سے فارغ ہوکر آپ مسنون طریق پر جس راستہ سے گئے تھے اس کو چھوڑ کر دوسرے راستہ سے تشریف لائے …‘‘۔
٭ جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکّہ کے موقع پر مکّہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو اس کا ذکر روایات میں یوں آیا ہے: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکّہ کے موقع پر مکّہ کی بالائی بستی ’’کداء‘‘ سے مکّہ مکرمہ میں داخل ہوئے۔
جب حضرت مولانا نورالدین صاحب بھیروی دوسری مرتبہ مکّہ معظمہ تشریف لے گئے تو اس وقت مکّہ کے قریب پہنچنے پر ایک حیرت انگیز اور محبت میں ڈوبا ہوا واقعہ پیش آیا جواوپر ذکر کردہ سنت کو پورا کرنے کا والہانہ عملی نمونہ تھا۔ یہ عملی نمونہ آپ کے اپنے الفاظ میں درج ہے:
’’جب مکّہ معظمہ کے قریب پہنچے تو مَیں نے ایک حدیث میں پڑھا تھا کہ حضرت نبی کریمؐ کداء کی طرف سے مکہ میں داخل ہوئے تھے لیکن آدمیوں کی بار برداریاں اور سواریاں اس راستہ نہیں جاتی تھیں ، اس واسطے میں ذی طوی سے ذرا آگے بڑھ کر اونٹ سے کود پڑا اور کداء کے راستہ سے مکہ میں داخل ہوا۔ مجھے افسوس ہوا کہ اس رستہ سے بہت ہی تھوڑے لوگ گئے حالانکہ کوئی حرج نہ تھا، صرف ہمت، قوت اور معلومات کافی تھی‘‘۔
٭ حدیث میں آیا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابو شعیب نامی ایک انصاری صحابی نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سمیت پانچ افراد کو ایک دعوت پر مدعو کیا۔ جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مدعو ساتھیوں کے ساتھ تشریف لا رہے تھے تو راستہ میں ایک شخص آپؐ کے ساتھ ہو لیا۔ آپؐ نے وہاں پہنچ کر دعوت کرنے والے صحابی سے فرمایا کہ یہ شخص مدعو نہیں ، ہمارے ساتھ آگیا ہے اگر تم چاہو تو اسے اجازت دے دو اور اگر تم چاہو کہ یہ لَوٹ جائے تو یہ لَوٹ جائے گا۔ اس پر دعوت کرنے والے نے کہا کہ نہیں ، بلکہ میں اس کو بھی اجازت دیتا ہوں ۔
جون 1912ء میں لاہور کے ایک احمدی دوست جناب شیخ رحمت اللہ صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح الاول اور چند دیگر مخصوص احباب کو لاہور مدعو کیا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الاول 15جون 1912ء کو لاہور روانہ ہوئے، روانگی سے قبل حضور نے اپنے ساتھ مدعو احباب کے علاوہ دیگر افراد کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
’’کوئی شخص لاہور میرے ساتھ نہ جاوے وَاِلَّا میں وہاں پہنچ کر اپنے سید و مولیٰ آقا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چل کر وہاں اس کا اعلان کروں گا کہ یہ لوگ میرے ساتھ نہیں آئے‘‘۔
٭ مَردوں کے علاوہ عورتوں کی تعلیم و تربیت کے لئے بھی آپ خواتین میں درس دیا کرتے تھے، ایک مرتبہ آپ نے درس کے دوران فرمایا:
’’مَیں تم سے کسی لفظ کے معنی پوچھتا ہوں تو یہ مت سمجھو ہماری ہتک ہوتی ہے۔ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی عادت تھی، صحابہ کرام سے کبھی خوب سمجھانے کے لئے کچھ پوچھا کرتے‘‘۔
٭ حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی اتباع سنت نبویؐ کا رنگ دن رات، صبح و شام آپ کی زندگی میں عیاں تھا۔ حضرت استانی سکینۃ النساء بیگم صاحبہ زوجہ حضرت قاضی ظہورالدین اکمل صاحبؓ اپنے ایک مضمون میں حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے متعلق اپنا یہ مشاہدہ بیان کرتی ہیں کہ:
’’مختصر بات یہ کہ ان کے قول فعل، اُٹھنے بیٹھنے، سونے، کھانے پینے سے شان رسولؐ یاد آتی ہے۔ عادات حضور کی صحابہ کرام سے ملتی ہیں ۔ اگر واقف حدیث انسان حضور کی طرز زندگی دیکھے تو عجیب لطف و سرور سے بھرپور ہوجاوے‘‘۔
٭ دراصل حضورؓ کی فطرت میں یہ بات داخل تھی کہ جو آپؓ کے بتائے ہوئے کاموں کی ادائیگی کرتا طبعاً آپؓ اس کے لئے اپنے دل میں محبت اور میلان کی کیفیت پاتے، چنانچہ آپؓ فرماتے ہیں :
’’محبت کا اصول یہ ہے کہ
جُبِلَتِ الْقُلُوْبُ عَلیٰ حُبِّ مَنْ اَحْسَنَ اِلَیْھَا۔
میری فطرت میں یہ بات ہے کہ جو کام کسی کو بتاؤں اور وہ نہ کرے تو میری اس کے ساتھ محبت نہیں رہ سکتی۔ خدا کی محبت کا بھی یہی حال ہے وہ اپنی فرمانبرداری کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے۔‘‘
دوسروں سے محبت کرنے کا معیار آپ کے دل میں یہ ہو کہ اگر وہ آپ کا بتایا ہوا کام نہ کریں تو آپ کی ان کے ساتھ محبت نہ رہے تو پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جس ذات بابرکت کی محبت کے آپ خواہاں ہو بلکہ جس کی محبت ہی آپ کی زندگی کا مطمح نظر ہو، اُس کی بتائی ہوئی راہوں پر آپ عمل پیرا نہ ہوں ۔
پس آپ نے اپنے عمل سے ساری زندگی اس کا ثبوت دیا اور جو عہد آپ نے باندھا اُسے پورا کر دکھایا۔ جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو خلافت کی قمیص پہنائی تو اب آپ بھی اپنی جماعت میں اطاعت و فرمانبرداری کا وہی معیار دیکھنا چاہتے تھے۔ آپ فرماتے ہیں : ’’ہمارے ساتھ بھی بعض لوگوں نے عقد باندھا ہے کہ جو بھلی بات کہو گے مان لیں گے، ہم نے تمہیں کئی بھلی باتیں بتائیں ، ان پر عمل چاہیے۔‘‘
٭ حضورؓ افراد جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’کسی قوم کے لیڈر نے اپنی اُمت کے واسطے ایسی نیکیوں کا سامان نہیں کیا جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے۔ میرے دل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا بڑا بڑا جوش آتا ہے کہ آپ کے ہم پر کس قدر احسانات ہیں ۔ ہر کام میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو استخارہ کرنا سکھایا ہے، یہ کتنا بڑا کرم اور غریب نوازی ہے۔ مصیبت کے وقت اِنَّا لِلّٰہ سکھلایا ہے جس سے تمام مصیبتوں کے پہاڑ اُڑ جاتے ہیں ۔ ہر نصیحت کے وقت شکر کرنا سکھلایا ہے۔ کتاب وہ دی ہے کہ کسی کی طاقت نہیں کہ ایسی کتاب پیش کر سکے۔ کتنے بڑے احسان ہیں ، مسلمانوں کو چاہئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھا کریں ۔‘‘