حضرت خلیفۃ المسیح الخامس کا دورہ غانا

روزنامہ ’الفضل‘ ربوہ30؍اپریل 2005ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے 2004ء میں کئے جانے والے دورہ غانا کے چند روح پرور واقعات اور ایمان افروز جھلکیاں مکرم مولانا عبد الوہاب بن آدم صاحب امیر و مبلغ انچارج غانا کے قلم سے شامل اشاعت ہیں۔
آپ بیان کرتے ہیں کہ ہمارے علم میں جب دورہ کا پروگرام آیا تو حضور پرنُور کو ٹھہرانے کے لئے ابتداء ً خیال پیدا ہوا کہ سرکاری گیسٹ ہاؤسز میں ٹھہرائیں۔ حکومت بھی بخوشی اس کے لئے تیار تھی۔ لیکن اس تجویز پر حضور انور نے فرمایا نہیں میں مشن ہاؤسز میں قیام کروں گا۔ اس ارشاد کے کئی فوائد بعد میںسامنے آئے۔ چنانچہ جماعت کو وقار عمل اور دیگر مالی قربانیاں کرنے کی توفیق ملی۔ جہاں مرمت کی ضرورت تھی، وہ کی گئی، مشن ہاؤسز کو روغن کیا گیا اور ہر جماعت نے اپنے اپنے مشن ہاؤسز کو اپنی بساط کے مطابق خوب سجایا۔
پھر حضور انور کے مقام اور آپ کے آرام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ہماری تجویز تھی کہ آپ کیلئے ہوائی جہاز کا انتظام کیا جائے تاکہ دشوار گزار راہوں پر لمبے لمبے سفر کرنے کی دقت نہ ہو۔ اس تجویز پر بھی فرمایا: نہیں! میں بذریعہ روڈ سفر کروں گا۔ چنانچہ اس ارشاد کے نتیجہ میں بھی قربانی و اخلاص کی کئی مثالیں سامنے آئیں۔ ایک دوست نے حضور انور کی خاطر ایک نئی گاڑی خریدی۔ بعض مخلص احباب نے اپنی گاڑیاں ڈرائیوروں اور پٹرول سمیت حضور انور کے وفد کے لیے پیش کردیں۔
پھر حضور انور ایدہ اللہ کے دورہ کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ جماعت کے ہسپتالوں، سکولوں، اور مشن ہاؤسز کے زیر تعمیر حصے مکمل ہوئے۔ اکرا میں نیشنل ہیڈکوارٹرز میں تعمیر و مرمت اور تزئین ہوئی۔ ٹمالے کی زیر تعمیر مسجد کی تکمیل ہوئی۔ احمدیہ ہسپتال ڈابو آسی اور ویسٹرن ریجن کی مسجد بھی مکمل ہوئی۔ جن مساجد کا افتتاح ہونا تھا وہ مکمل ہوئیں اور زیر تعمیر مشن ہاؤسز اپنی تکمیل کو پہنچے۔ اس کے لئے جماعت نے مالی قربانی بھی کی۔ ایک دوست نے دو سو ملین سی ڈیز جیسی خطیر رقم بھی پیش کی۔
حضور انور کے دورہ سے ملک بھر میں جماعت کا خوب چرچا ہوا۔ حضور جہاں بھی تشریف لے گئے، احمدیوں کے علاوہ سرکاری افسران اور علاقوں کے چیف صاحبان نے بھی حضور کا والہانہ خیرمقدم کیا۔ اخبارات، ریڈیو اور ٹی وی نے بھرپور کوریج دی۔ اکرا مرکز میں حضور انور کے اعزاز میں دیئے گئے استقبالیہ میں نائب صدر مملکت غانا Alhaj Aliu Mahamaسمیت بعض سفراء اور دیگر معزز شخصیات نے شرکت کی۔ نائب صدر نے اصرار کرکے خطاب کیا جس میں جماعت کی تعریف کی اور حضور کو غانین عوام کی طرف سے خوش آمدید کہا حالانکہ عام طور پر استقبالیہ میں ایسی تقاریر نہیں ہوتیں۔ یہ نائب صدر ایک بار پہلے بھی حضور انور سے ملاقات کے لئے مشن ہاؤس تشریف لاچکے تھے۔
حضور انور سے ملاقات کا شرف حاصل کرنے والوں میں حزب اختلاف کے لیڈر اور سابق نائب صدر مملکت غانا Prof. Evans Arthur Mills بھی شامل تھے۔ اسی طرح جلسہ سالانہ پر تشریف لانے والے غانا یونیورسٹی کے وائس چانسلر، کیتھولک کارڈینل، سفراء کی کثیر تعداد اور چیفس صاحبان کی موجودگی بھی جماعت کی نیک نامی کا ثبوت تھا۔
حضور پہلے خلیفۃ المسیح ہیں جو مغربی، مشرقی اور شمالی علاقوں اور وہاں کی دُور افتادہ جگہوں پر بھی تشریف لے گئے جیسے سلاگا اور Kpembi وغیرہ۔ یہاں جانا آسان نہ تھا۔ راستے خراب اور سڑکیں ٹوٹی ہوئی تھیں۔ گرمی کی شدت تھی۔ لیکن حضور انور بشاشت کے ساتھ دورہ میں مصروف تھے۔
حضور انور دورہ کے دوران دو ایسی جگہوں پر بھی تشریف لے گئے جو پروگرام کا حصہ نہ تھیں۔ ان میں Bonsu Arboretum، 165 ایکڑ علاقہ پر مشتمل ایک قدرتی جنگل بھی تھا ۔ حضور انور نے بطور خاص MTA والوں کو اردگرد کا ماحول فلمانے کا ارشاد فرمایا۔ آپ نے تتلیوں کی تصاویر بھی کھنچوائیں اور بعض پودوں کے بارہ میں معلومات دیں۔ ایک قسم کی Berry کے متعلق فرمایا: اسے چکھ لیں! اس کے بعد جو بھی چیز کھائیں میٹھی ہوجاتی ہے۔
دورہ کے دوران حضور انور نے بے حد وسیع حوصلگی کا مظاہرہ فرمایا۔ دورہ کماسی کے دوران ایک بار جب حضور انور (پروگرام سے ہٹ کر) مشن ہاؤس تشریف لائے تو مشن ہاؤس بند تھا۔ چابی منگوانے میں کچھ دیر لگی لیکن حضور پر نور اس دوران خاموشی کے ساتھ کھڑے رہے اور کسی قسم کی ناراضگی کا اظہار نہ فرمایا۔
حضور انورکی شخصیت کے روشن پہلوؤں میں آپ کی عاجزی وانکساری بھی تھی۔ اشانٹی قبیلہ کے بادشاہ سے ملاقات کے دوران (چونکہ عام طور پر دستور یہی ہے کہ بادشاہ سے ملنے کے لیے آنے والی شخصیت کھڑے ہوکر اس سے گفتگو کرتی ہے) حضور ایدہ اللہ کو جب خطاب کی دعوت دی گئی تو آپ نے برجستہ جواب فرمایا ’’اگر یہاں کا دستور ہے کہ میں کھڑا ہوکر خطاب کروں تو میں اس کے لئے تیار ہوں‘‘ اور ساتھ ہی کھڑے ہوگئے۔ حضور انور اپنے مقام ومرتبہ کو دیکھتے تو بیٹھ کر بھی گفتگو فرما سکتے تھے لیکن عاجزی وانکساری اور ملکی رواج کے احترام میں آپ نے بیٹھنا گوارا نہ کیا بلکہ کھڑے ہوکر خطاب فرمایا جبکہ اس دوران چیف صاحبان اور دیگر احباب بیٹھے رہے۔ اگرچہ حضور انور کی طرف سے کوئی بھی مثلاً خاکسار بادشاہ سے گفتگو کر سکتا تھا مگر آپ نے ملکی روایات کے احترام کی عظیم اور قابل تقلید مثال قائم کی۔ اسی طرح بادشاہ کی طرف سے اشانٹی کنگڈم کا Emblem (امتیازی نشان) جو Porcupine جانور کی شکل میں بنا ہوا تھا اور خالص سونے کا بنا ہوا تھا حضور انور کی خدمت میں بطور تحفہ پیش کیا گیا۔ میرے علم کے مطابق اشانٹی ہینی کی طرف سے یہ خاص تحفہ آج تک حضور انور کے علاوہ کسی غیر ملکی شخصیت کو پیش نہیں کیا گیا۔
پھر صدارتی محل میں حضور انور، صدر مملکت غانا جناب John Agyekum Khufuor سے ملاقات کے لئے تشریف لائے تو صدر مملکت نے آپ کا بڑا پرتپاک استقبال کیا اور کہا ’’میں تو آپ کو غانین ہی شمار کرتا ہوں‘‘۔ ان کا یہ کہنا اس وجہ سے تھا کہ حضور نے غانا میں 8 سال خدمت کی تھی۔ ملاقات کے آخر پر صدر مملکت حضور انور کو نچلی منزل کی سیڑھیوں تک چھوڑنے آئے جو ایک غیرمعمولی بات تھی۔
جلسہ سالانہ میں حضور مہمان خصوصی تھے۔ جلسہ میں صدر مملکت غانا کو بھی مدعو کیا گیا تھا جو اُس دن بے حد مصروف تھے۔ اُس روز آپ نے نیشنل ہیلتھ انشورنس سکیم کے اجراء کا اعلان کرنا تھا اور افریقہ کے بعض سربراہان مملکت کی ایک اہم میٹنگ کی صدارت بھی کرنا تھی۔ چنانچہ انہوں نے حضور انور کے احترام میں فوری طور پر اپنے وزیر (Hon. Jake Obtsebi Lamptey Minister for Tourism & Modernisation of Capital City) کو اپنی تقریر دے کر بھجوایا اور پھر سربراہان کی میٹنگ کے دوران کچھ وقت نکال کر فوری طور پر جلسہ گاہ پہنچے، تاخیر سے آنے پر معذرت کی اور غانین عوام کی طرف سے حضور کو خوش آمدید کہا۔
اُن دنوں غانا میں شدید گرمی تھی جس سے بسااوقات شدید حبس ہوجاتا۔ سفر کے دوران حضور انور جہاں بھی جاتے چلچلاتی دھوپ میں کھڑے احباب سے مصافحہ ضرور فرماتے۔ لوگ ہمہ تن پسینہ سے شرابور تھے۔ لیکن حضور انور شیروانی زیب تن کئے ہمہ وقت تروتازہ نظر آتے۔ ٹیچی مان میں جب حضور انور پہنچے تو بارش ہورہی تھی۔ حضور بارش میں ہی احباب سے مصافحہ فرماتے رہے۔
حضور انور کی پابندی وقت بھی مثالی تھی اور یہ ادا، قافلہ کو Escort کے لئے مقرر پولیس افسران کو بہت پسند تھی جس کا وہ بار بار اظہار بھی کرتے۔
حضور انور غانا میں مختلف مقامات پر قریباً 8سال رہے ہیں۔ آپ سلاگا اور ایسارچر میں سکولوں کے ہیڈماسٹر اور ٹمالے کے قریب واقع احمدیہ زرعی فارم کے نگران رہے ہیں۔ آپ ان سب جگہوں پر گئے اور اپنے پرانے ملنے والوں سے ملے۔ کافی احباب کے نام آپ کو یاد تھے۔ آپ کی یہی محبت تھی جو آپ کو سلاگا میں Kpenbi کے چیف کے ملاقات کے لئے لے گئی جس پر چیف صاحبان اور دیگر احباب نے بے حد خوشی کا اظہار کیا اور آپ کی خدمت میں بطور تحفہ شمالی ریجن کا خاص لباس “Smock” پیش کیا جو حضور انور نے اسی وقت زیب تن بھی فرمایا۔
حضور انور نے مقررہ شیڈیول سے ہٹ کر دو جگہوں پر خطاب فرمایا۔ پہلی جگہ احمدیہ سیکنڈری سکول سلاگا تھا جہاں آپ دو سال ہیڈ ماسٹر رہے تھے۔ یہ خطاب حضور انور کی سکول سے ذاتی محبت اور لگاؤ کی غمازی کرتا ہے۔ دوسرا خطاب جامعہ احمدیہ غانا میں تھا جو حضور کی مربیان کے ساتھ پیارو محبت کی دلیل ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں