حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کی شخصیت
رسالہ ’’نورالدین‘‘ جرمنی کے ’’سیدنا طاہرؒ نمبر‘‘ میں مکرم ڈاکٹر عبدالغفار صاحب مربی سلسلہ بیان کرتے ہیں کہ کینیڈا سے پارلیمنٹ کے ممبر آئے تھے تو وہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے بارہ میں کہنے لگے کہ He is the encyclopedia of knowledge کہ آپ علوم کا انسائیکلوپیڈیا ہیں۔
ایک ماہ رمضان میں درس القرآن کے ترجمہ کے لئے مجھے اور مکرم مولانا عبدالباسط طارق صاحب کو لندن جانے کا موقع ملا تو عید کے روز ظہر کی نماز کے بعد حضورؒ نے ہم مترجمین اور مکرم عبیداللہ علیم صاحب کی دعوت کی۔ اِس دعوت میں اتنا کچھ ہماری پلیٹوں میں ڈالا اور اصرار کے ساتھ کھلایا کہ پیٹ میں کچھ جگہ نہ رہی۔ تھوڑی دیر کے بعد عبیداللہ علیم صاحب کا مشاعرہ بھی تھا۔ انہوں نے کہا کہ حضور کچھ جگہ شعر سنانے کے لئے بھی رہنے دیں۔ حضورؒ اس پر ہنسے اور فرمایا کہ ہاں اتنی جگہ تو رہنی چاہئے۔ پھر حضورؒ نے ہمیں عیدی اور تحائف دیئے۔
حضورؒ بے حد شفیق تھے۔ میں 2 ستمبر 1988ء میں جرمنی آیا اور میری فیملی سمیت حضورؒ کے ساتھ پہلی ملاقات ہوئی تو حضور ؒنے پوچھا کہ آپ دونوں ایک دوسرے سے کتنے سال جدا رہے ہیں؟ میں تو خاموش ہوگیا۔ میری بیوی نے کہا کہ حضور ہم تقریباََ بارہ سال جدا رہے ہیں۔ حضورؒ خاموش ہوگئے۔ اس کے بعد حضورنے فوراً کہا کہ آج کے بعد پھر آپ کبھی جدا نہیں ہوں گے۔
ایک بار مَیں نے حضورؒ کی خدمت میں گیس والا پانی پیش کیا کیونکہ مَیں گیس والا پانی پیتا تھا۔ اس پر حضورؒ نے فرمایا کہ میں یہ پانی نہیں پیتا اور آپ بھی یہ پانی نہ پیا کریں، سادہ پانی پیا کریں۔
1989ء میں جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ جرمنی تشریف لائے تو یہ عاجز اس وقت برلن میں بطور مربی متعین تھا۔ مشرقی اور مغربی جرمنی ابھی اکٹھے نہیں ہوئے تھے، حضور انورؒ کا اصرار تھا کہ میں نے مشرقی جرمنی بھی جانا ہے۔ چنانچہ ٹکٹیں وغیرہ ہم نے لیں اورمشرقی جرمنی کے ایک اسٹیشن پر چلے گئے۔ لیکن وہاں موجود گارڈز نے ہمیں مشرقی جرمنی میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی۔ محترم امیر صا حب نے اُن کو بتایا کہ یہ ہمارے روحانی امام ہیں اور ہم تھوڑی دیر کے لئے مشرقی جرمنی میں داخل ہونا چا ہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ مجھے اجازت مل گئی کیونکہ ہم برلن میں رہتے تھے۔ لیکن باقی کسی کو اجازت نہ ملی۔ امیر صاحب نے بار بار آ کر حضور ؒ کی خدمت میں عرض کی کہ وہ نہیں جانے دیتے۔ مگر حضور ؒ نے فرمایا کہ جانا ہی جانا ہے چاہے پانچ منٹ کے لئے کیوں نہ ہو۔ حضور ؒ نے فرمایا کہ اچھا میں خود جاتا ہوں۔ امیر صاحب بھی ترجمانی کے لئے ساتھ تھے۔ ڈیوٹی پر موجود عورت سے حضورؒ نے بات کی تو اُس نے کہا کہ قانون اس کی اجازت نہیں دیتا لیکن میں اپنے چیف سے بات کرتی ہوں شاید کوئی حل نکل آئے۔ چیف صاحب آئے اور وہی جواب دیا کہ قانون اجازت نہیں دیتا۔ کیونکہ حضورؒ کے پاس پاکستانی پاسپورٹ تھا۔ وہ کہنے لگے کہ پاکستان نے تو ہمیں تسلیم ہی نہیں کیا ہمیں اپنا سفارت خانہ تک کھولنے کی اجازت نہیں دی اور آپ ہمارے ملک میں داخل ہونا چاہتے ہیں- آخر کچھ بحث کے بعد اُس نے کہا آپ اپنے پاسپورٹ مجھے دیدیں تو میں پندرہ بیس منٹ کے لئے آپ کو اندر جانے کی اجازت دیدیتا ہوں۔ ہم نے کہا کہ اگر ہم وہاں چیک ہوگئے تو؟ اُس نے کہا کہ ایسا کوئی مسئلہ نہیں آپ میرا وہاں بتا دیں وہ میرے ساتھ رابطہ کرلیں گے۔ اس نے سارے پاسپورٹ اپنے پاس رکھ لئے اور ہم اندر چلے گئے ، حضورؒ بہت خوش ہوئے۔ کچھ دیرواک کرنے کے بعد حضورؒ نے وہاں اسلام اور احمدیت کی ترقیات کے لئے لمبی دعا کروائی۔ تھوڑی دیر کے بعد ہم واپس آگئے۔