حضرت خنساء رضی اللہ تعالیٰ عنھا
حضرت خنساء عرب کی وہ مشہور شاعرہ ہیں جنہیں اسلام کی بے مثال خدمت کی توفیق عطا ہوئی۔ قبیلہ مُضَر کے خاندانِ سُلَیْم سے تعلق تھا اور نجد کی رہنے والی تھیں۔ اصل نام تمامر تھا۔ عمرو بن الثرید بن رباح کی بیٹی تھیں۔ والد اور دو بھائی بنوسُلَیْم کے سردار تھے۔ آپؓ کے مختصر حالات روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 6؍نومبر 2001ء میں مکرم غلام مصباح صاحب کے مضمون کی زینت ہیں۔
ابتداء میں خنساء رضی اللہ تعالیٰ عنھا کبھی کبھار شعر کہتی تھیں لیکن جب آپؓ کے دونوں بھائی ایک قبائلی جنگ میں قتل ہوگئے تو اس حادثے کے بعد آپؓ نے دونوں بھائیوں کی یاد میں کئی مرثیے کہے اور انہی مرثیوں کی وجہ سے آپؓ بہت مشہور ہوئیں۔ آپ کے اشعار میں سوز، کسک اور درد ہے۔ اکثر علماء و ناقدین کا اتفاق ہے کہ اسلام سے قبل اور اسلام کے بعد خنساء سے بڑھ کر کوئی شاعرہ نہ تھی اور نہ اس کے بعد پیدا ہوئی۔ اگرچہ بعض لوگ لیلیٰ کو فضیلت دیتے ہیں لیکن مرثیہ گوئی میں خنساء کے بلند مقام کو ضرور مانتے ہیں۔ عربی کے بہت سے مشہور شعراء نے آپؓ کو عظیم ترین شاعرہ تسلیم کیا ہے۔
جب اسلام کا ظہور ہوا تو خنساء اپنی قوم کے وفد کے ساتھ شامل ہوکر آنحضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور اسلام قبول کرلیا۔ آنحضورؐ کو آپؓ کی شاعری بہت پسند تھی۔ آپؓ سے سنانے کی فرمائش کرتے اور داد دیتے تھے۔
حضرت خنساء کی ساری زندگی دکھوں میں اسلام کی خدمت کرتے ہوئے گزری۔ حضرت عمرؓ کے دَور میں جب قادسیہ کے مقام پر جنگ جاری تھی تو آپؓ اپنے چاروں بیٹوں کو لے کر میدان جنگ میں آئیں اور اُنہیں مخاطب کرکے کہا کہ تمہارے باپ نے اپنی زندگی میں ہی ساری جائیداد تباہ کردی تھی، اُس نے میرے ساتھ کوئی حسن سلوک بھی نہیں کیا تھا۔ مَیں نے اپنی ساری زندگی نیکی سے گزاردی۔ میرے تم پر بہت حقوق ہیں۔ کل جب کفر و اسلام میں مقابلہ ہو تو تم استقلال سے دشمن کا مقابلہ کرنا۔
اس جنگ کے دوران بھی حضرت خنساء اپنے بیٹوں کو میدان میں جمے رہنے پر ابھارتی رہیں۔ آپؓ کے چاروں بیٹے میدان جنگ میں شہید ہوگئے۔ لیکن آپؓ کے منہ سے آہ تک نہ نکلی بلکہ خدا تعالیٰ کا شکر کیا۔ آپؓ نے حضرت معاویہ کے عہد میں وفات پائی۔