حضرت رابعہ بصریؒ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 26 مئی 2005ء میں حضرت رابعہ بصریؒ کے بارہ میں ایک مضمون مکرم میر غلام احمد نسیم صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔ قبل ازیں آپؒ سے متعلق ایک مضمون ہفت روزہ ’’الفضل انٹرنیشنل‘‘ 28؍جولائی 2000ء میں بھی شائع ہوچکا ہے
حضرت رابعہ بصری کے بارہ میں حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:رابعہ بصری کو اسی دن غم ہوتا تھا جس دن خدا کی راہ میں انہیں کوئی غم نہ ہوتا۔ مومن کسی نہ کسی ابتلا میں ضرور ہوتا ہے۔
رابعہ بصری کو رابعہ العدویہ بھی کہا جاتا ہے، وہ بصرہ (عراق) کے رہنے والی تھیں۔ ان کی وفات 185ھ بمطاق801ء میں ہوئی۔ وہ صوفیانہ شاعری کرتی تھیں اور اسلام کے ابتدائی صوفیاء میں شامل ہوتی ہیں۔ اگرچہ ان کی شہرت بہت ہوئی اور انہوں نے کافی عمر بھی پائی لیکن ان کی ذاتی زندگی کے بارہ میں بہت کم معلومات مہیا ہیں۔
وہ اپنے والدین کی چوتھی اولاد تھیں اور غریب خاندان سے تعلق تھا۔ بصرہ میں انہوں نے کچھ عرصہ گھریلو ملازمہ کی حیثیت سے کام بھی کیا لیکن ان کے مالک نے ان کی غیر معمولی روحانی اقدار اور مذہبی میلان دیکھ کر انہیں آزاد کر دیا۔ اس کے بعد ان کی زندگی قناعت اور دنیاوی جھمیلوں سے دُور گزری تاہم لوگ ان کی دعاؤں اور صوفیانہ تعلیم کے خواہاں رہتے۔
رابعہ کا سب سے بڑا کارنامہ ان کا وہ صوفیانہ کلام سے جس میں انہوں نے خدا تعالیٰ سے خالص محبت کرنے پر زور دیا ہے۔ اور ان کے پیش نظر قرآن کریم کی یہ آیت تھی جس میں کہا گیا ہے کہ ’’وہ محبت کرے گا اس سے اور وہ محبت کریں اس سے‘‘۔ انہوں نے تنہائی کی طویل راتیں خدا کی یاد میں خدا سے باتیں کرتے گزاری ہیں۔ دن کے وقت کام کاج کی وجہ سے خدا کی یاد میں بھول چوک پر وہ نہایت تاسف کرتی نظر آتی ہیں۔ ایک بار پوچھا گیا کیا جنت کا خیال آتا ہے؟ تو جواب دیا جس نے جنت وجہنم کو پیدا کیا میں اس کے خیال میں ہی مگن ہوں۔
اُن کی خواہش تھی کہ کوئی بھی جہنم کے خوف اور جنت کی طمع میں خدا کی عبادت نہ کرے بلکہ صرف خدا کی خدائی کے حسن کی وجہ سے اس کی عبادت ہو۔
جامی (1492ء) نے لکھا ہے کہ عربی زبان میں سورج مونث استعمال ہوتا ہے لیکن اس سے اس کی شان میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بالکل اسی طرح رابعہ کی جنس اس کی شہرت اور مقام پر اثر انداز نہیں ہوسکتی۔
رابعہ بصری کے اقوال مختصر اور موزوں عربی زبان میں ہوتے تھے۔ جب ان کے تراجم مغربی زبانوں میں منتقل ہوئے تو مغرب کے صوفیانہ خیالات رکھنے والوں میں ایک تہلکہ مچ گیا اور ان کی زندگی پر مختلف زبانوں میں کتب تصنیف ہوئیں۔
٭ خدا تعالیٰ کو مخاطب کر کے رابعہ کی انتہائی متأثرکن یہ دعا ہے کہ ’’اے خدا! اگر میں تیری عبادت جہنم کے خوف کی وجہ سے کرتی ہوں تو مجھے جہنم میں ڈال دے اور اگر تیری عبادت جنت کے حصول کی خواہش کی وجہ سے ہے تو مجھے جنت سے مستثنیٰ رکھیو لیکن اگر میری عبادت تیرے جلال اور تیری ذات کی وجہ سے ہے تو دائمی محبت سے مجھے دُور نہ کرنا۔‘‘
٭ موت ایک پل ہے جہاں محب اپنے محبوب سے ملتا ہے۔
٭ کسی نے پوچھا: ’’اگر میں توبہ کروں تو کیا خدا تعالیٰ توبہ قبول فرمائے گا‘‘۔ فوراً جواب دیا: ’’نہیں بلکہ اگر وہ مہربان ہو تو تیری توجہ اس کی طرف ہوگی‘‘۔
٭ ایک مرتبہ پوچھا گیا کہ کیا اللہ تعالیٰ سے وہ محبت کرتی ہیں؟ جواب دیا: ’’ہاں ‘‘ اور کیا وہ شیطان سے نفرت کرتی ہیں تو جواب دیا: ’’نہیں‘‘۔ پھر وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’’خدا کی محبت کی وجہ سے وقت ہی نہیں ملتا کہ شیطان سے نفرت کروں‘‘۔
٭ رابعہ نے فرمایا: ہر چیز کا پھل ہوتا ہے اور علم الٰہی کا پھل خدا تعالیٰ سے ملاقات ہے۔
٭ ایک بار فرمایا: میں اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنے میں سنجیدگی کی کمی کی معافی کی طلبگار ہوں۔
٭ سفیان ثوری ایک بار رابعہ کے پاس تشریف لے گئے، ہاتھ اٹھاکر دعا کی: ’’اے خدا! تیری حفاظت چاہتا ہوں‘‘ رابعہ رو پڑیں۔ سفیان نے رونے کی وجہ پوچھی تو فرمایا: آپ کو علم نہیں کہ دنیا کی تکالیف سے حفاظت طلب کرنے کا مطلب خدا کو چھوڑنا ہے۔ اب آپ نے خود کو خدا کی حفاظت سے نکال لیا ہے۔
ایک بار سفیان نے دریافت کیا کہ خدا کا قرب حاصل کرنے کا کیا طریق ہے۔ جواب دیا: کہ خدا جانتا ہے کہ بندہ دنیا یا آخرت کا طلبگار نہیں ہے بلکہ صرف خدا تعالیٰ کے قرب کا طلبگار ہے۔
٭ ایک مرتبہ سفیان نے کہا: خدا نے ہمیں مغموم کردیا۔ جواب دیا: جھوٹ نہ بولو! اگر تم مغموم ہوتے تو دنیا تمہارے لئے مسرت کا باعث کیوں ہوتی؟۔
٭ کسی بزرگ نے فرمایا کہ جب مسلسل کسی کا دروازہ کھٹکھٹایا جائے تو آخر کسی نہ کسی وقت کھل ہی جاتا ہے۔ رابعہ بصری نے اُن کا یہ جملہ سنا تو کہا: وہ تو کبھی بند ہی نہیں ہوا۔ (یعنی خدا تعالیٰ کا دروازہ)
٭ ایک مرتبہ رابعہ نے کسی شخص کو سر پر پٹی باندھے ہوئے دیکھا تو سبب دریافت کیا۔ اُس نے عرض کیا کہ سر میں بہت درد ہے۔ پوچھا تمہاری عمر کتنی ہے؟ اس نے کہا تیس برس۔ فرمایا: تُو نے تیس سال کے عرصہ میں کبھی صحت مندی کے شکرانے میں پٹی باندھی نہیں اور صرف ایک یوم کے مرض میں شکایت کی پٹی باندھ لی۔