حضرت رسول بی بی صاحبہؓ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 17ستمبر 2008ء میں مکرمہ م۔نصیر چوہدری صاحبہ نے اپنی نانی حضرت رسول بی بی صاحبہؓ کا تفصیلی ذکرخیر کیا ہے۔
حضرت رسول بی بی صاحبہؓ بنت حضرت چوہدری محمد حسین صاحبؓ 28دسمبر1898ء کو تلونڈی عنایت خاں ضلع سیالکوٹ میں پیدا ہوئیں۔ پہلی دفعہ 1905ء میں اپنے والدین اور دو بھائیوں کے ساتھ قادیان گئیں۔ آپؓ بیان فرماتی ہیں کہ ہم بچے اپنی والدہ کے ہمراہ حضرت مسیح موعودؑ کے گھر اترے تو میں نے اور میرے چھوٹے بھائی نے رونا شروع کر دیا۔ حضرت صاحب نے باہر آکر رونے کی وجہ پوچھی تو والدہ نے بتایا کہ انہیں بھوک لگی ہے۔ تھوڑی دیر بعد لنگرخانہ سے دال اور روٹی آ گئی جو ہم بچوں نے تو کھالی لیکن ہماری والدہ نے کھانا نہ کھایا۔ حضرت مسیح موعودؑ جب دوبارہ اُدھر سے گزرے تو فرمانے لگے چودھرانی کچھ ناراض ہے۔ ہماری والدہ نے کہا میں دال نہیں کھاتی میرے پیٹ میں درد ہوجاتا ہے۔ اس پر آپؑ نے ملازمہ سے کوئی اَور چیز لانے کا ارشاد فرمایا۔ ایک اور موقع پر جب میں اپنی والدہ کے ساتھ قادیان گئی تو حضرت اماں جانؓ کے پاس دو ٹوکریاں پڑی تھیں۔ ایک میں دال ا ور ایک میں پھلیاں تھیں۔ میں نے آہستہ سے اپنی والدہ سے کہا کہ میں نے دال لینی ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے میری طرف دیکھ کر فرمایا ’’یہ دال مانگتی ہے اسے دال دیں‘‘ اس پر حضرت اماں جاں نے مجھے ایک مٹھی دال دی۔ مجھے کئی بار حضور علیہ السلام کو ہاتھ لگانے اور آپؑ کے پاؤں دبانے کا موقع بھی ملا۔
آپؓ کی شادی 1914ء میں وزیرآباد کے ایک نواحی گائوں لویری والا میں مکرم چوہدری غلام حسن صاحب وڑائچ سٹیشن ماسٹر کے بیٹے مکرم چوہدری عبدالحمید صاحب سے ہوئی۔ وہ بھی پیدائشی احمدی تھے۔ شادی کے وقت کالج میں زیر تعلیم تھے۔ پھر ایک سال بعد وہ مزید تعلیم کی خاطر امریکہ چلے گئے اور سات سال بعد شکاگو یونیورسٹی سے انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کرکے واپس لوٹے اور بطور چیف انجینئر ہندوستان کی مختلف سیمنٹ فیکٹریوں میں کام کرتے رہے۔
حضرت رسول بی بی صاحبہؓ کی تعلیم صرف پرائمری تھی لیکن بہت ذہین اور معاملہ فہم تھیں۔ غریب پرور اور مہمان نواز تھیں۔ کوئی کام ایسا نہ تھا جو آپ کو نہ آتا ہو۔ سلائی کڑھائی، چارپائی بننا، ازاربند بنانا غرض ہر قسم کے کام کرلیا کرتی تھیں۔ خوشخط بہت تھیں اور اردو اہل زبان کی طرح بولتی تھیں۔ اپنے سسرال کے ساتھ پیار اور محبت کا سلوک رکھا۔ ساس سسر کی وفات کے بعد اپنی نندوں اور دیورکی شادی کے فرائض سرانجام دئیے۔ آپؓ کے ہاں تین بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں۔ اپنے سارے بچوں کو قرآن کریم خود پڑھایا اور جب بچے سکول جانے کے قابل ہوئے تو اُن کی تعلیم کے لئے تمام آسائشیں چھوڑ کر قادیان کرایہ پر مکان لے کر رہائش اختیار کی۔
آپؓ کے ایک بیٹے مکرم چوہدری عبدالرحمن (المعروف سی۔ اے رحمن) نے گوجرانوالہ میں کامیاب وکالت کی۔ 1971ء میں امیر ضلع گوجرانوالہ مقرر ہوئے اور 1974ء کے پُر آشوب دور میں غیر معمولی خدمت کی توفیق پائی۔ ماہر قانون دان تھے اور سپریم کورٹ تک آپ کی صلاحیتوں کا اعتراف کیا جاتا تھا۔ خدمت دین کے لئے ہر وقت حاضر رہتے۔
حضرت رسول بی بی صاحبہؓ کے ایک بیٹے کی 1985ء میں اچانک وفات ہو گئی جس پر آپؓ نے صبر کا اعلیٰ نمونہ پیش کیا۔ آپؓ باقاعدگی سے تہجد ادا کرنے والی دعا گو خاتون تھیں اور اکثر سچی خوابیں دیکھا کرتی تھیں۔ اپنے ایک جوان بیٹے کی وفات پر بہت صبر کا نمونہ پیش کیا اور اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ میں اپنی طاقت کے مطابق اپنے اس بیٹے کی وفات پر صبر کروں گی لیکن میری زندگی میں مجھے اپنے کسی اور بچے کا دکھ نہ دکھلانا۔ کچھ عرصہ بعد آپ کی ایک بیٹی لندن میں اتنی شدید بیمار ہوگئیں کہ مختلف اعضاء نے کام کرنا چھوڑ دیا اور ڈاکٹروں نے مایوسی کا اظہار کرکے علاج بند کر دیا۔ اپنی بیٹی کی اس بیماری کی خبر جب آپؓ کو ملی تو کہتی ہیں کہ میں نے اللہ تعالیٰ کو اپنا عہد یاد دلا کر اس کے حضور التجاؤں میں مصروف ہو گئی۔ چنانچہ ڈاکٹروں کے مطابق ایک مردہ جسم کے اندر زندگی کے آثار نمایاں ہوئے جو ایک معجزہ ہے۔ ڈاکٹر حیران تھے کہ یہ سب کیسے ہو رہا ہے؟ ان کی یہ بیٹی خدا کے فضل سے زندہ ہیں اور مکمل صحت کے ساتھ اپنے تمام کام کر رہی ہیں۔
اسی طرح بڑے بیٹے مکرم سی۔اے رحمن صاحب ایڈووکیٹ پندرہ سال تک دل کے بائی پاس کے بعد جگر کے سرطان جیسے مرض میں مبتلا رہے لیکن اس خطرناک بیماری کے باوجود ہر ہفتے لاہور سے ربوہ آکر صدر قضاء بورڈ کی ذمہ داری کو نبھاتے رہے اور اس کے ساتھ گوجرانوالہ اور لاہور میں بھی بھرپور طریقے سے اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں پوری کرتے رہے۔ یہ سب حضرت رسول بی بی صاحبہؓ کی زندگی میں ہوتا رہا۔ لیکن آپؓ کی وفات کے بعد اُن کی صحت بگڑنی شروع ہوئی اور ایک سال بعد ہی وفات ہو گئی۔
حضرت رسول بی بی صاحبہؓ کے خاندان میں احمدیت آپ کے والد حضرت چوہدری محمد حسین صاحبؓ کے ذریعے آئی تھی۔ آپؓ نہایت دعاگو صاحب رؤیا و کشوف بزرگ انسان تھے۔ کوئی نماز گریہ وزاری سے خالی نہ ہوتی۔ بہشتی مقبرہ قادیان میں آپ کی قبر پر یہ شعر کندہ ہے۔ ؎

میری طرح نہ اک دن ابر بہار رویا
وہ ایک بار رویا میں لاکھ بار رویا

ابتداء میں ہی نظام وصیت پر لبیک کہتے ہوئے تیسرے حصہ کی وصیت کی۔ آپؓ حضرت نواب محمدالدین صاحبؓ (جنہیں ربوہ کا قطعہ اراضی خریدنے کے لئے خدمات بجالانے کی توفیق نصیب ہوئی) کے چھوٹے بھائی تھے۔ مالی قربانی میں نمایاں طور پر حصہ لینا آپ کا ایک خاص وصف تھا۔ آپؓ کے پانچ بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔
حضرت رسول بی بی صاحبہؓ کا خلافت کے ساتھ مضبوط تعلق تھا۔ اپنے دو بیٹوں کی شادیاں حضرت مصلح موعودؓ کی اجازت سے اپنے غیرمبائع دیور کی بیٹیوں سے کیں اور اپنی بہوؤں کی ایسے پیار سے تربیت کی کہ دونوں بہوئیں نظام وصیت سے بھی وابستہ ہوگئیں۔
1988ء میں آپؓ کو اپنے بیٹے مکرم سی۔ اے رحمن صاحب کے ہمراہ جلسہ سالانہ برطانیہ میں شرکت کا موقع ملا۔ اسی طرح 1991ء میں جب حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ قادیان تشریف لائے تو حضورؒ کی ہدایت پر آپؓ کو خواتین کے جلسہ گاہ میں سٹیج پر بٹھایا گیا اور حضور نے خواتین کو ہدایت فرمائی کہ: ’’آپ کے درمیان سٹیج پر ایک صحابیہ مکرمہ رسول بی بی صاحبہ موجود ہیں۔ ان کی زیارت کریں اور ان سے ملاقات کرکے برکت حاصل کریں۔‘‘
قادیان میں دوران ملاقات آپؓ نے حضورؒ سے اپنی خرابی صحت کا تذکرہ کیا اور خاتمہ بالخیر کی درخواست کی جس پر حضورؒ نے مسکراتے ہوئے فرمایا: ’’میں تو آپ کے لئے دعا کرتا ہوں کہ آپ تین صدیوں کو ملانے والی بنیں۔‘‘ یہ دعا بڑی شان سے پوری ہوئی اور آپؓ کی وفات 30 جنوری 2000ء کو ہوئی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں