حضرت زید بن حارثہ ؓ
ماہنامہ ’’انصار اللہ‘‘ ربوہ فروری 2005ء میں مکرم رانا خالد احمد صاحب کے قلم سے حضرت زید بن حارثہؓ سے متعلق ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔ قبل ازیں آپ کے بارہ میں ایک مضمون ہفت روزہ ’’الفضل انٹرنیشنل‘‘ 29مارچ 1995ء کے اسی کالم کی زینت بھی بن چکا ہے۔
نام زید، کنیت ابو اسامہ، والد کانام حارثہ اور والدہ کا نام سعدی بنت ثعلبہ تھا۔ حارثہ کا تعلق یمن کے ایک معزز قبیلہ بنو قضاعہ سے تھا۔ آپ کی والدہ آپ کو چھوٹی عمر میں ہی اپنے میکہ لے کر گئیں تو خیمہ کے سامنے سے آپ کو ڈاکو اٹھا کر لے گئے اور عکاظ کے بازار میں فروخت کر دیا۔ آپ کو حکیم بن حزا م نے چار سو درہم میں خرید کر اپنی پھوپھی حضرت خدیجہؓ بنت خویلد کی خدمت میں پیش کردیا۔
زید کے والد کو اپنے بیٹے کی گمشدگی کا شدید غم تھا۔ ایک سال حج کے موقعہ پر بنی کلب کے لوگوں نے زید بن حارثہ کو پہچان لیا اور انہیں ان کے والد کا حال سنایا تو زیدنے جواباً کہا کہ ان سے کہنا غم نہ کریں میں یہاں خانہ کعبہ کے قریب رہتا ہوں اور ایک معزز خاندان بنی معد میں ہوں۔ لوگوں نے واپس جا کر حارثہ کو ان کے بیٹے کے ملنے کی اطلاع دی تو اُنہیں یقین نہ آیا۔ جب تسلی ہوگئی کہ وہی ہے تو اپنے بھائی کعب بن شرجیل کو لے کر مکہ آئے اور آنحضرت ﷺ کی خدمت میں اپنے بیٹے کو آزاد کرنے کی درخواست کی اور اس کا عوضانہ بھی پیش کیا تو حضورؐ نے فرمایا کہ زید کو اختیار ہے کہ وہ آپ کے ساتھ جانے کو ترجیح دے یا میرے ساتھ رہنے کو۔ پھر آنحضورﷺ نے حضرت زید کو بلوایا اور پوچھا: آیا تم ان دونوں کو جانتے ہو۔ انہوں نے کہا: جی رسول اللہ، ان میں سے ایک میرا والد ہے اور دوسرا میرا چچا۔ آپؐ نے فرمایا: اب تمہیں اختیار ہے چاہے مجھے پسند کرو یا ان دونوں کو۔ جواباً حضرت زیدؓ نے فرمایا ’’ میں ایسا نہیں ہوں جو حضورؐ پر کسی کو ترجیح دوں آپ ہی میرے ماں باپ ہیں‘‘۔ حضرت زید کی اس مخلصانہ وفاشعاری نے ان کے باپ اور چچا کو محو حیرت کردیا۔ وہ تعجب سے بولے ’’زید! افسوس تم آزادی، باپ چچا اور خاندان پر غلامی کو ترجیح دیتے ہو!‘‘۔ فرمایا: ہاں! میں ان پر کسی کو ترجیح نہیں دے سکتا۔ آنحضرتﷺ نے زیدؓ کے اخلاص اور محبت کو دیکھ کو خانہ کعبہ میں مقام حجر کے پاس ان کو لے جا کر اعلان فرمایا کہ ’’زید آج سے میرا فرزند ہے میں اس کا وارث ہوں اور وہ میرا وارث ہوگا‘‘۔ اس پرباپ اور چچا کے دل بھی خوش اور مطمئن ہوگئے اور وہ بخوشی واپس چلے گئے۔ اس اعلان کے بعد زیدؓ آنحضرتﷺ کے حوالہ سے زید بن محمدؐ کے نام سے زبان زدعام ہوئے یہاں تک کہ اسلام کے ظہور کے بعد اللہ تعالیٰ نے وحی الٰہی کے مطابق اپنے نسبی آباء کے ساتھ انتساب کی ہدایت فرمائی تو وہ پھر حارثہ کی نسبت سے زید بن حارثہ مشہور ہوئے۔ آپؓ کے بڑے بھائی کا نام جبلہ بن حارثہ ہے۔
آنحضرت ﷺ پر غلاموں میں سب سے پہلے زیدؓ ایمان لائے۔ حضرت حمزہؓ مختلف غزوات پر تشریف لے جاتے وقت ان کو اپنا وصی بنا کر جاتے تھے۔ آنحضرتﷺ نے ایک مرتبہ اپنی آیا اور کنیز حضرت ام ایمنؓ کی بابت فرمایا: اگر کوئی جنتی عورت سے نکاح کرنا چاہتا ہے تو اس کو ام ایمنؓ سے نکاح کرنا چاہئے۔ چنانچہ حضرت زیدؓ نے (جو رسولﷺ کی خوشنودی کے کسی موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے) ان سے نکاح کر لیا۔ چنانچہ حضرت اُسامہ بن زیدؓ ان کے ہی بطن سے مکہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے بعد حضرت زینب بنت حجش سے آپ کی شادی ہوئی۔ جو آنحضورﷺ کی پھوپھی زاد تھیں۔ پھر ان کے بعد زیدؓ کی شادی ام کلثوم بنت عقبہ سے ہوئی۔
حضرت زیدؓ آنحضرت ﷺ کو بے حد عزیز تھے۔ ایک دن حضرت علیؓ اور حضرت عباسؓ نے دریافت کیا: یارسول اللہ! آپ کو سب سے زیادہ پیار کس سے ہے؟ آپ نے فرمایا: فاطمہؓ سے۔ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کے خاندان سے مراد نہ تھا۔ ارشاد ہوا: پھر وہ جس کے متعلق قرآن میں آیا ہے:
’’اَنْعَمَ اللہُ عَلَیْہِ وَاَنْعَمْتَ عَلَیْہِ‘‘۔
حضرت زیدؓ جب مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ پہنچے تو حضرت کلثوم بن ہدمؓ کے مہمان ہوئے۔ حضرت اُسید بن حضیر انصاری جو قبیلہ عبد الاشہل کے ایک معزز رئیس تھے ان کے اسلامی بھائی بنائے گئے۔
حضرت زیدؓ تیر اندازی میں کمال مہارت رکھتے تھے۔ غزوہ بدر سے لے کر غزوہ موتہ تک تمام معرکوں میں پامردی و شجاعت کے ساتھ شریک کا زرار ہوئے۔ غزوہ مریسع میں چونکہ رسول اللہ ﷺ نے ان کو مدینہ میں اپنا جانشین بنایا تھا اس لئے اس اہم مہم میں حصہ نہ لے سکے۔ کئی چھوٹی مہمات ان کی سپہ سالاری میں سر ہوئیں۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جس فوج کشی میں زیدؓ شریک ہوتے تھے اس میں امارت کا عہدہ ان ہی کو عطا ہوتا تھا‘‘۔ چنانچہ نودفعہ سپہ سالار بنا کر بھیجے گئے۔
دمشق کے نزدیک موتہؔ کے مقام پر 8؍ہجری میں آنحضرتﷺ کے قاصد حضرت حارث بن عمیرازدی ؓ جو شاہ بصریٰ کے دربار میں سفارت کی خدمت انجام دے کر واپس آرہے تھے، شرجیل ابن عمر غسّانی کے ہاتھ سے شہید ہوئے تو آنحضرتﷺ نے تین ہزار کا لشکر حضرت زیدؓ بن حارثہ کی قیادت میں بدلہ لینے کے لئے روانہ کیا۔ مدّمقابل رومیوں کی تعداد ایک لاکھ تھی۔ بعض صحابہ نے زیدؓ کی امارت پر کچھ اعتراض کیا تو آنحضرتﷺ نے فرمایا:
’’اِنَّہٗ خَلِقٌ بالامارۃ‘‘
کہ یہ امارت کا اہل ہے۔ نیز فرمایا:
’’وأنَّہٗ لَمِنْ اَحَبِّ النَّاسِ اِلَیَّ‘‘
اور مجھے بے حد محبوب ہے۔
آپؐ نے لشکر بھجوانے سے پہلے فرمایا اگر زیدؓ شہید ہوجائیں تو جعفرؓ بن ابی طالب امیر ہونگے اور اگر وہ بھی شہید ہوئے تو عبد اللہ بن رواحہؓ۔
جنگ شروع ہوئی تو زیدؓ آنحضرت ﷺ کا عَلَم ہاتھ میں لئے اور شعر پڑھتے ہوئے قلب لشکر میں جاگھسے، نیزوں سے بدن چھلنی ہوا اور شہید ہو کر خدا کی رحمت کی آغوش میں جاپہنچے۔ آنحضرتﷺ کو جبرئیل نے یہ خبر دی تو آپؐ نے صحابہ کو خبر سنائی۔ اس وقت آپؐ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔
زیدؓ کے یتیم بیٹے اسامہؓ آنحضرتﷺ اور صحابہ کو اپنی اولاد کی طرح عزیز تھے۔ آنحضرتﷺ ایک ران پر ان کو بٹھاتے اور دوسری پر حضرت حسنؓ کو اور اپنے سینے سے لگا کر خدا کو پکارتے اے خدا میں ان سے محبت رکھتا ہوں تو بھی انہیں محبوب رکھیو۔ اے مالک الملک میں ان پر رحم کرتا ہوں تو بھی ان سے رحمت کا سلوک کیجئو۔
حضرت زیدؓ کے اوصاف حسنہ اور محاسن جمیلہ نے ان کو اور ان کی اولاد کو آنحضرتﷺ کی نگاہ میں سب سے زیادہ محبوب بنا دیا تھا۔ چنانچہ آپؐ نے حجۃالوداع سے واپس آکر حضرت اسامہ بن زیدؓ کی سرکردگی میں ایک لشکر زیدؓ کی شہادت کا بدلہ لینے پر مامور فرمایا۔ اسامہؓ کی کمسنی پر بعض نے اعتراض کیا تو آنحضرتﷺ نے فرمایا: ’’تم پہلے جس طرح اس کے باپ کی سرداری پر اعترا ض کرتے تھے اسی طرح اب اس کی امارت کو ناپسند کرتے ہو۔ خدا کی قسم زید سزاوارِ امارت اور محبوب ترین شخص تھا اور اس کے بعد اسامہ مجھ کو سب سے زیادہ محبوب ہے۔
یہ مہم ابھی روانہ بھی نہیں ہوئی تھی کہ آنحضرتﷺ کی وفات ہوگئی تاہم حضرت ابوبکر صدیقؓ نے تمام فتنوں کے باوجود لشکر کو کُوچ کا حکم دیا اور حضرت اسامہؓ مدمقابل دشمن کو شکست فاش دے کر غیر معمولی کامیابی کے ساتھ مدینہ واپس آئے۔
حضرت زیدؓ کی اولاد میں دو لڑکے اسامہ بن زید اور زید بن زید کے علاوہ ایک لڑکی رقیہ بھی ہے۔