حضرت سردارعبدالرحمٰن صاحب رضی اللہ عنہ
حضرت سردار عبدالرحمٰن صاحبؓ (سابق مہر سنگھ) 1872ء میں جالندھر کے ایک گاؤں میں سکھ گھرانہ میں پیدا ہوئے۔ بارہ سال کی عمر میں تلاش حق کیلئے تنہا گھر سے نکل کھڑے ہوئے اور مختلف لوگوں سے ملتے ملاتے حضرت مولوی خدابخش صاحبؓ جالندھری کے پاس پہنچے جو 1889ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قبول کرنے کی سعادت پاچکے تھے۔ 1890ء میں حضرت سردار صاحبؓ نے بھی بیعت کرلی اور پھر آپؓ حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کی کفالت میں آگئے۔ چنانچہ پہلے جموں گئے پھر بھیرہ آئے جہاں سے مڈل اور میٹرک کیا۔ آپؓ کے نکاح کا اعلان بھی حضرت مولوی صاحبؓ نے ہی حضرت اقدسؑ کی موجودگی میں جموں کے خلیفہ نورالدین صاحبؓ کی صاحبزادی سے کیاتھا۔
حضرت سردار عبدالرحمن صاحبؓ F.AاورSAVکرنے کے بعد قادیان میں ٹیچر لگ گئے۔ بعدازاں B.Aکیا اور ہیڈماسٹر بن کر 2سال کیلئے جزائر انڈیمان بھی گئے۔ سری لنکا کا سفر بھی کیا اور پھر واپس قادیان آکر سکول میں استاد ہوگئے۔ مدرسہ احمدیہ میں انگریزی بھی پڑھائی۔ تقسیم ہند کے بعد بھلوال میں آکر آباد ہوئے۔ 9؍جون1952ء کو وفات پائی۔ حضرت مصلح موعودؓ نے نماز جنازہ پڑھائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین ہوئی۔ آپؓ نے 1907ء میں وصیت کرنے کی توفیق پائی تھی۔
حضرت سردار عبدالرحمان صاحبؓ کو تبلیغ کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ آپؓ نے بہت انقلابی اور بھر پور زندگی گزاری۔ تعلق باللہ کے بہت اعلیٰ مقام پر فائز تھے۔ حضرت اقدس علیہ السلام کی ذاتی خدمت کی بھی آپؓ نے توفیق پائی۔ حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کے تو گویا آپ گھر کے ہی ایک فرد تھے۔ حضرت مصلح موعودؓ سے بھی بہت فیض اور برکت حاصل کی۔ چند بار اسیرراہ مولیٰ بھی ہوئے لیکن کبھی دعوت الی اللہ میں سست نہ ہوئے۔ 1950ء میں آپؓ نے اپنی اولاد کیلئے جو وصیت تحریر فرمائی وہ بہت توجہ سے پڑھنے اورعمل کرنے کے لائق ہے۔ آپؓ نے لکھا کہ’’اگر تم صحابہؓ کی برکات سے حصہ پانا چاہتے ہو تو کشتی نوح کا مطالعہ کیا کرو… ہم اسے پڑھ کر بعض ہدایت کو خط کشیدہ کرلیتے تھے اور ہفتہ بعد دیکھتے کہ وہ نقص دور ہوا یا وہ خوبی پیدا ہوئی یانہیں…اگر کوئی خداتعالیٰ کاکام کرے تواللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں اس کی حاجت پوری کردیتا ہے‘‘۔
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 9؍دسمبر1996ء میں حضرت سردار عبدالرحمن صاحبؓ کا ذکر خیر محترم محمود مجیب اصغرصاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔