حضرت سعیدؓ بن زید
مکہ کے رہنے والے زید باآواز بلند ایسے اشعار پڑھاکرتے تھے جن میں بتوں کی تکفیر اورایک خدا پر ایمان کا اعلان ہوتا تھا۔ انہوں نے دینِ ابراہیم کی تلاش میں شام، موصل اور جزیرہ تک کا سفر کیا اور وہاں کے یہودی اور نصرانی علماء سے ملاقاتیں کیں لیکن اُن لوگوں کے خیالات چونکہ مشرکین مکہ سے مشابہ تھے اس لئے دل کو مائل نہ کرسکے اور آپ نے ہاتھ اٹھاکر یہ اقرار کیا ’’الٰہی تو گواہ رہیو کہ میں دین ابراہیمؑ پر ہوں‘‘۔ آپ یہ بھی کہا کرتے کہ ’’اے اللہ اگر میں یہ جانتا کہ تیری عبادت کا کون سا طریقہ تجھے پسند ہے تو میں اسی طریقہ سے عبادت کرتا‘‘۔ پھر وہ اپنی ہتھیلی پر سر رکھ کر سجدہ کرتے۔ سرور دو عالم ﷺ کی بعثت سے پانچ سال قبل کسی نے بلاد لخم میں زید کو قتل کردیا۔ آپ کی زوجہ فاطمہ بنت بعجہ کے بطن سے سعید پیدا ہوئے جنہوں نے ہوش سنبھالتے ہی گھر میں توحید اوردین ابراہیمی کا ذکر سنا تھا۔ چنانچہ جونہی آنحضورﷺ نے دعوت اسلام کا آغاز فرمایا تو سعیدؓ نے بھی لبیک کہنے کی سعادت پائی۔
حضرت سعیدؓ کی شادی حضرت عمرؓ کی ہمشیرہ حضرت فاطمہؓ سے ہوئی تھی اور وہ بھی اپنے شوہر کے ساتھ ہی مسلمان ہوگئیں۔ دونوں میاں بیوی کو قرآن کریم سے عشق تھا۔ ایک صبح عمر بن خطاب، جو ابھی مسلمان نہ ہوئے تھے، اپنے رشتے کے ماموں ابو جہل کے اشتعال دلانے پر، آنحضرت ﷺؓ کے قتل کے ارادے سے تلوار ہاتھ میں لئے نکلے تو ایک صحابی حضرت نعیمؓ نے اُن کا ارادہ جان کر انہیں غیرت دلائی کہ پہلے اپنے گھر کی تو خبر لو جہاں تمہاری بہن اور بہنوئی مسلمان ہوچکے ہیں۔ چنانچہ عمر غصہ کی حالت میں حضرت سعیدؓ بن زید کے گھر پہنچے اور انہیں بے تحاشا پیٹنا شروع کیا۔ بہن چھڑانے کیلئے آگے بڑھیں تو خود بھی لہو لہان ہوگئیں لیکن استقلال سے بولیں کہ ہاں ہم نے اسلام قبول کیا ہے تو جو کچھ کر سکتا ہے کرلے۔ خون میں نہائی ہوئی بہن کے مونہہ سے یہ الفاظ سن کر عمر مبہوت ہوگئے اور بولے کہ تم جو کچھ پڑھ رہے تھے، مجھے بھی دکھاؤ۔ حضرت فاطمہؓ نے کہا کہ ہمیں ڈر ہے کہ تم اس کو ضائع کردو گے۔ عمر نے اپنے معبودوں کی قسم کھائی کہ پڑھ کر واپس کردوں گا۔تب حضرت فاطمہؓ نے پہلے انہیں غسل کرنے کا کہا اور پھر قرآن شریف پڑھنے کی اجازت دی۔ کلام الٰہی نے عمر کے دل کی کایا پلٹ دی اور آپؓ نے اسی وقت آنحضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کرلیا۔
جب مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کا حکم ہوا تو حضرت سعیدؓ اور آپکی اہلیہ مہاجرین اولین میں شامل تھے۔ غزواتِ بدر، احد، خندق، خیبر، حنین، تبوک اور طائف وغیرہ ہر معرکے میں حضرت سعیدؓ نے کمال سرفروشی کا مظاہرہ کیا۔ فتح مکہ کے موقع پر ایک فوجی دستے کے افسر تھے۔ آنحضرتﷺؓ کی وفات کے بعد آپؓ شام جانے والے لشکر میں ایک مجاہد کی حیثیت سے شامل ہوئے۔ جنگ یوم الصفر کے موقع پر اسلامی افواج کے سپہ سالار حضرت خالدؓ بن ولید نے حضرت سعیدؓ بن زید کو رسالہ کا افسر مقرر کیا۔ اس جنگ میں رومیوں کو شکستِ فاش ہوئی اور دمشق پر جلد ہی قبضہ ہوگیا۔ جنگ یرموک میں حضرت سعیدؓ پیدل فوج کے افسر تھے۔ ابتداء میں مسلمانوں کے پاؤں اکھڑنے کے باوجودآپؓ چند ساتھیوں کے ہمراہ اتنی بے جگری سے لڑے کہ رومی پسپا ہوگئے۔ اسی زمانہ میں حضرت ابو عبیدہؓ بن الجراح نے آپؓ کو دمشق کا حاکم مقرر کیا لیکن آپؓ کے شوقِ جہادکا یہ عالم تھا کہ آپؓ نے حضرت ابو عبیدہؓ کو لکھا کہ میں ایسا ایثار نہیں کر سکتا کہ آپ لوگ تو جہاد کریں اور میں اس سے محروم رہوں۔ چنانچہ آپؓ دمشق کی امارت سے معذرت کرکے میدانِ جہاد میں پہنچ گئے۔ شام کی فتح کے بعد آپؓ مدینہ منورہ آکر گوشہ نشین ہوگئے۔ حضرت عثمانؓ کے دور میں آپؓ خاموش رہے۔ لیکن جب حضرت عثمانؓ کو شہید کیا گیا تو آپؓ کوفہ میں تھے اور یہ خبر سُن کرآپؓ خاموش نہ رہ سکے بلکہ برملا ظالموں کی مذمت کی۔
حضرت سعیدؓ نے نواحِ مدینہ میں عقیق کے مقام پر تقریباً اسی سال کی عمر میں 52ھجری میں بروز جمعہ وفات پائی۔جنازہ مدینہ لایا گیا اور حضرت سعدؓ بن ابی وقاص نے غسل دیا اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے نماز جنازہ پڑھائی ۔ حضرت سعیدؓ کا شمار عشرہ مبشرہ میں ہوتا ہے۔ حضرت ابو موسیٰ ؓاشعری کی روایت ہے کہ سعیدؓ کا دامنِ عمل کبھی معصیت کی آلودگیوں سے داغدار نہیں ہوا اور وہ ہمیشہ اتباع رسولؐ میں کوشاں رہتے تھے۔
صحابی رسول حضرت سعیدؓ بن زید کی سیرت و سوانح کا بیان مکرمہ امۃالحئی ارشد صاحبہ کے قلم سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 20؍جنوری1998ء میں پندرہ روزہ ’’المصلح‘‘ یکم اکتوبر 1997ء سے منقول ہے۔