حضرت سماک بن خرشہؓ (ابو دجانہ)
غزوۂ اُحد کے روز آنحضرتﷺ نے ایک تلوار اپنے ہاتھ میں پکڑ کر فرمایا: کون ہے جو اس تلوار کو لے گا؟ ہر طرف سے ہاتھ اوپر بلند ہوئے جن میں حضرت عمرؓ، حضرت علیؓ، اور حضرت زبیرؓ بن العوام جیسے جری صحابہؓ بھی شامل تھے۔ آنحضورﷺ نے فرمایا: کون اس تلوار کا حق ادا کرے گا؟۔ یکدم سب ہاتھ نیچے ہوگئے۔ چند لمحوں کے بعد ایک صحابیؓ نے عرض کی: یا رسول اللہ! مَیں اس کا حق ادا کروں گا۔ آنحضورﷺ نے تلوار اس صحابی کو عطا فرمائی جنہوں نے میدان اُحد میں اس کا حق بہت عمدگی سے ادا کیا۔ یہ تھے حضرت سماک بن خرشہؓ (جن کی کنیت ابودجانہ تھی)۔ اُحد سے واپس آکر حضرت علیؓ نے جب کہا کہ آج مَیں خوب لڑا ہوں تو آنحضورﷺ نے فرمایا: اگر تم خوب لڑے ہو تو سھل بن حنیف اور ابودجانہ بھی تو خوب لڑے ہیں۔
آپؓ کے بارہ میں مکرم فرید احمد بھٹی صاحب کا ایک مضمون ماہنامہ ’’خالد‘‘ اگست 2002ء میں شامل اشاعت ہے۔
آپؓ کا تعلق قبیلہ ساعدہ سے تھا۔ ابھی آنحضرتﷺ نے مکہ سے ہجرت نہیں فرمائی تھی کہ ابودجانہ نے آنحضورؐ کی دعوت الی اللہ کا حال سنا اور اُسی وقت غائبانہ ایمان لے آئے۔ آنحضورﷺ کے مدینہ تشریف لانے پر آپؓ نے حضورؐ کی رفاقت کو اپنا شعار بنالیا۔ غزوات کے ہر معرکہ میں آپؓ نے شجاعت کا ثبوت دیا۔ بدر کے میدان میں چار نامور کافر آپؓ کے ہاتھوں جہنم واصل ہوئے۔ احد کے موقع پر آنحضورﷺ سے تلوار لے کر آپؓ نے سرخ رومال سر پر باندھا اور فخر سے اکڑتے ہوئے میدان جنگ کی طرف چلے۔ یہ دیکھ کر آنحضورؐ نے فرمایا: اگرچہ یہ چال اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے لیکن ایسے موقع پر کوئی حرج نہیں۔
آپؓ میدان کی طرف جاتے ہوئے رجزیہ شعر پڑھ رہے تھے: ’’مَیں وہ ہوں جس سے میرے خلیل نے عہد لیا ہے۔ اس حال میں کہ ہم پہاڑ کے دامن میں نخلستان کے قریب ہیں کہ مَیں زندگی بھر آخری صف میں کھڑا نہ ہوں گا۔ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی تلوار سے وار کرتا چلا جاؤں گا‘‘۔ آپؓ جنگ میں بہادری سے لڑتے ہوئے مشرکین کی اُن عورتوں کے قریب پہنچ گئے جو چٹان پر بیٹھ کر ہند بن عتبہ کی سرکردگی میں اشعار پڑھ کر کفار کو مقابلہ کے لئے ابھار رہی تھیں۔ آپؓ نے ہند کی گردن پر تلوار رکھ دی لیکن فوراً اٹھالی۔ بعد میں حضرت زبیرؓ نے اس کی وجہ پوچھی تو فرمایا: مجھے اس بات سے شرم اور کراہت محسوس ہوئی کہ مَیں رسول اللہﷺ کی تلوار سے ایک عورت کو قتل کروں اور عورت بھی وہ کہ جس کی پکار پر کوئی اُس کی مدد کے لئے نہیں پہنچا‘‘۔
غزوہ بنونضیر میں آنحضورﷺ نے خود اپنے مال سے حضرت ابودجانہؓ کو حصہ دیا اور اُن کی یہ جائیداد مال ابن خرشہ کے نام سے مشہور ہوئی۔
حضرت ابوبکر ؓ کے عہد خلافت میں مسیلمہ کذاب کے خلاف جنگ یمامہ میں حضرت ابودجانہؓ بھی شامل ہوئے۔ ایک موقعہ پر جب مسیلمہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایک باغ میں چلا گیا اور وہاں سے مسلمانوں پر تیر برسانے شروع کردیئے تو آپؓ مردانہ وار آگے بڑھے۔ باغ کی دیوار پھاندی۔ اگرچہ پاؤں کی ہڈی ٹوٹ گئی لیکن آپؓ گھسٹتے ہوئے باغ کے دروازہ تک پہنچے۔ اُس وقت تک حضرت براء بن مالک بھی وہاں پہنچ چکے تھے۔ دونوں نے دروازہ کھول دیا اور مجاہدین اسلام باغ میں داخل ہوگئے۔ کچھ دیر میں مرتدین نے آپؓ کو نرغہ میں لیکر تلواروں سے چھلنی کردیا اور آپؓ شہید ہوگئے۔