حضرت سیدہ بیگم صاحبہؓ زوجہ حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 6؍اپریل 2009ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خوشدامن حضرت سیدہ بیگم صاحبہؓ زوجہ حضرت میر ناصر نواب صاحب دہلویؓ کا ذکر خیر مکرم غلام مصباح بلوچ صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
حضرت سیدہ بیگم صاحبہؓ کے والد محترم میر عبدالکریم صاحب 1857ء میں ایک انگریزی رسالہ میں رسالدار تھے۔ ایام فسادات میں رخصت پر دہلی میں تھے کہ لڑائی شروع ہوگئی اور ایسے میں ہر مسلمان پر باغی ہونے کا شبہ کرتے ہوئے ہزارہا افراد کو بے گناہ پھانسی دیدی گئی۔ میر صاحب بھی ایسے ہی بے گناہ افراد میں شامل تھے۔ اُن کے سزائے موت پانے کے بعد اُن کے آفیسر کمانڈر کی طرف سے اُن کی بریت کی شہادت بھی آگئی لیکن اُن کی بیوی قادری بیگم صاحبہ بیوہ ہوگئیں۔ ان کی دو بیٹیاں تھیں ایک حضرت سیدہ بیگم صاحبہ اور دوسری معظّم بیگم۔
حضرت سیدہ بیگم صاحبہ کی شادی حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ سے ہوئی ۔ آپ کے ہاں تیرہ بچے پیدا ہوئے لیکن اکثر بچپن میں ہی وفات پاگئے اور صرف تین بچوں نے عمر پائی یعنی حضرت امّاں جان سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ، حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ اور حضرت میر محمد اسحق صاحبؓ۔
حضرت مصلح موعودؓ کی نانی ہونے کی وجہ سے حضرت سیدہ بیگم صاحبہ ’’نانی امّاں‘‘ کے لقب سے مشہور تھیں۔ آپؓ نہایت نیک اور صالح خاتون تھیں۔ بہت صابرہ اور شاکرہ۔ اتنے بچوں کے صدمے نہایت حوصلہ سے برداشت کئے۔ حضرت میر صاحبؓ غرباء اور مساکین کی خبرگیری میں مصروف رہتے اور حضرت سیدہؓ اُن کے کام میں نہایت اخلاص کے ساتھ ہاتھ بٹاتیں۔ محترم شیخ عبداللطیف بٹالوی صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت میر محمد اسحق صاحب بہت بیمار ہوگئے۔ حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ اُس وقت محلہ دارالضعفاء میں غرباء کے لئے مکانات تعمیر کروارہے تھے۔ حضرت سیدہؓ نے اُنہیں پیغام بھیجا کہ بیٹا بیمار ہے اُس کے لئے دعا کریں۔ آپؓ نے جواباً فرمایا کہ غرباء کے مکانات کی تعمیر کے لئے مجھے روپیہ کی اشد ضرورت ہے اگر بچے کی صحت کے لئے دعا کروانی ہے تو اپنے سونے کے کڑے بھیج دو۔ یہ پیغام ملتے ہی حضرت سیدہؓ نے اپنے کڑے اتار کر آپؓ کو بھجوادیئے۔
حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ بیان فرماتی ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ حضرت امّاں جان کی بہت دلداری کرتے اور خیال رکھتے۔ مگر ایک بار نانی امّاں کا کسی خادمہ نے کہنا نہ مانا اور کوئی ایسی بات کہہ دی جس سے غلط فہمی پیدا ہوکر نانی امّاں حضرت امّاں جان سے ناراض ہوگئیں اور غصہ میں بولنے لگیں کہ یہ لڑکی آخر میری بیٹی تو ہے، ہاں میرے حضرت بیشک میرے سر کا تاج ہیں… وغیرہ۔ اتنے میں مَیں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعودؑ حضرت امّاں جان کو اپنے آگے آگے اس طرح لئے چلے آرہے ہیں کہ حضرت امّاں جانؓ کے دونوں شانوں پر آپؑ کے دست مبارک ہیں۔ حضرت امّاں جانؓ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ حضورؑ نے اسی طرح اُنہیں آگے کرکے نانی امّاں کے قدموں میں جھکادیا۔ اس پر نانی امّاں نے حضرت امّاں جانؓ کو گلے لگالیا۔ اور حضورؑ یہ دیکھ کر واپس تشریف لے گئے۔
حضرت سیدہ بیگم صاحبہؓ کی وفات 23؍نومبر 1932ء کو قادیان میں ہوئی۔ حضرت مصلح موعودؓ نے نماز جنازہ پڑھائی اور بہشتی مقبرہ کے احاطہ خاص میں حضرت میر صاحبؓ کے پہلو میں دفن ہوئیں۔
حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ والدہ صاحبہ کی شادی بارہ تیرہ سال کی عمر میں ہوگئی تھی اور اس جوڑے میں دلی تعلق محبت تھا۔ ابتدائے عمر میں جب حضرت میر صاحبؓ ملازم نہ تھے تو والدہ صاحبہ کا ہزارہا روپیہ کا زیور سب گھر کے خرچ میں کام آیا۔ 1912ء میں والدہ صاحبہ نے کئی دفعہ سونے کے کڑے پہننے کی خواہش کا اظہار کیا۔ مجھے کہیں سے معقول رقم دستیاب ہوئی تو مَیں نے اُن کی خواہش پوری کردی۔ لیکن اگلے سال مَیں قادیان گیا تو ہاتھ خالی تھے۔ پوچھا کڑے کہاں گئے تو فرمایاں کہ تمہارے ابّا کے حج پر خرچ ہوگئے۔
صحت کے لحاظ سے آپؓ کی حالت ایسی تھی کہ آخر عمر تک بغیر عینک کے باریک سے باریک کتاب پڑھ لیتی تھیں۔ حافظہ بہت اچھا تھا، دماغی طاقتیں سب بالکل صاف تھیں۔ بہت سخی تھیں۔ جس کے ساتھ رشتہ محبت جوڑا، اُسے آخر تک نبھایا۔ ایک لڑکی کو بچپن سے پال کر بڑا کیا اور اُس کا بیاہ کیا۔ وہ اپنے خاوند اور بچوں کے ساتھ آپؓ کے گھرمیں ہی رہتی تھی۔ جب وہ بہت سے بچے چھوڑ کر مر گئی تو آپؓ نے فرمایا کہ اس مکان میں اس کا خاوند اور بچے رہا کریں، مَیں ان کو یہاں سے جانے نہ دوں گی۔ بہت تضرّع سے دعا کرتیں۔ درختوں کی پرورش بھی بہت شوق سے کرتیں۔
والدہ صاحبہ 1893ء میں ہجرت کرکے قادیان آئی تھیں۔ اس سے پہلے والد صاحب کئی بار اپنے ہمراہ لے کر آئے اور کبھی انہیں کچھ عرصہ کے لئے چھوڑ بھی جاتے۔ جب حضرت مسیح موعودؑ نے حضرت امّاں جانؓ کے لئے رشتہ کا پیغام بھجوایا تو انہوں نے حضرت میر صاحبؓ کو مشورہ دیا تھا کہ دیگر برادری کے لڑکوں کی نسبت تو غلام احمد ہی اچھا ہے۔ چنانچہ وہ نکاح ظہور میں آگیا۔
حضرت مسیح موعودؑ اردو زبان کے متعلق والدہ صاحبہ کو مستند سمجھتے تھے۔ بعض دفعہ کسی اردو لفظ پر اٹک جاتے تو والد صاحب سے پوچھتے۔ اگر تسلّی نہ ہوتی تو والدہ صاحبہ سے پوچھتے اور فقرات بنواتے تاکہ معانی واضح ہوجائیں۔