حضرت سیدہ محمودہ بیگم (امّ ناصر) صاحبہؓ
ماہنامہ ’’مصباح‘‘ ربوہ دسمبر 2002ء میں حضرت سیدہ محمودہ بیگم (امّ ناصر) صاحبہؓ کے متعلق ایک تفصیلی مضمون تاریخ لجنہ اماء اللہ کے حوالہ سے شامل اشاعت ہے۔
1895ء میں جب حضرت مصلح موعودؓ کی عمر صرف 7 برس تھی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحبؓ کے باطنی اخلاص پر نظر کرتے ہوئے اُن کے نام اپنے ایک مکتوب میں اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ اُن کی کسی لڑکی سے حضرت اقدسؑ کا کوئی بیٹا منسوب ہو۔ نیز فرمایا کہ ’’اس خیال کو ابھی قابل ذکر نہ سمجھا جائے کہ خود بچے بہت کمسن ہیں، ابھی بلوغ تک زمانہ پڑا ہے، وہی ہوگا جو خدا کی طرف سے مقدر اور اس کی نظر میں پسندیدہ ہے‘‘۔
اکتوبر 1903ء میں حضور علیہ السلام کے خیال نے عملی صورت اختیار کرلی اور حضرت سیدہ محمودہ بیگم صاحبہؓ کی شادی حضرت مصلح موعودؓ سے ہوگئی۔ آپؓ کو اللہ تعالیٰ نے سات بیٹے اور دو بیٹیاں عطا فرمائیں جن میں حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ (خلیفۃالمسیح الثالث) اور محترمہ صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ (والدہ محترمہ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ) بھی شامل ہیں۔ اس حوالہ سے حضرت سیدہ محمودہ بیگم صاحبہؓ امّ ناصر کے نام سے معروف ہوئیں۔
حضرت امّ ناصرؓ کو یہ فخر بھی حاصل ہے کہ آپؓ لجنہ اماء اللہ کے یوم تاسیس سے لے کر اپنی وفات تک (36؍سال) اس کی صدر رہیں۔ آپ بہت تقویٰ شعار اور مالی قربانی کرنے والی تھیں۔ 1913ء میں جب حضرت مصلح موعودؓ نے اخبار الفضل کے اجراء کی ضرورت محسوس فرمائی تو آپؓ نے اس جماعتی ضرورت کے لئے اپنے دو زیور پیش کردیے جو پونے پانچ سو روپے میں فروخت ہوئے۔ مسجد احمدیہ برلن کے لئے دو سو روپے پیش کئے۔ تحریک جدید کے پہلے انیس سالہ دَور میں آپ کا چندہ 2732؍ روپے تھا۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت سیدہ امّ ناصرؓ نے بہت بے شر طبیعت پائی تھی۔ اُن کے وجود سے کبھی کسی کو تکلیف نہیں پہنچی۔ نیکی اور تقویٰ میں بہت بلند مقام تھا۔ یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگی کہ اپنا سارا جیب خرچ (جو حضرت مصلح موعودؓ کی طرف سے ملتا تھا) چندہ میں دے دیتی تھیں اور اوّلین موصیوں میں بھی شامل تھیں۔
حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ بیان فرماتی ہیں کہ انہوں نے شادی کے بعد اس گھر کو اپنا گھر اور ہمیں اپنا بہن بھائی سمجھا۔ ایک گھڑی کو بھی محبت کے بغیر ان کا سلوک یاد نہیں۔ شرم و حیاء اور صبر و رضا اُن کی خصوصیات میں سے تھے۔ حضرت مسیح موعودؑ کی کسی نہ کسی خدمت کی بہت خواہش رہتی تھی، وضو فرمانے لگتے تو لوٹا اٹھاکر پانی ہی ڈالنے لگتیں۔ دعاؤں میں بے حد شغف تھا۔
گو آپؓ نے کسی مدرسہ میں تعلیم حاصل نہ کی تھی لیکن قرآن کریم اور دینی تعلیم پر عبور حاصل تھا چنانچہ سینکڑوں لڑکیوں کو آپؓ نے قرآن مجید پڑھایا۔ عورتوں کے لئے بہت سے مضامین بھی آپؓ نے رقم کئے۔ لجنہ کے اکثر جلسوں کی صدارت فرماتیں۔ جلسہ سالانہ پر مستورات کے انتظام کی نگرانی بھی فرماتیں۔ خلافت جوبلی کے موقع پر لوائے احمدیت کے سُوت کاتنے والی صحابیات میں آپؓ بھی شامل تھیں۔ 1953ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے خواتین کو اپنے ہاتھ کی کمائی سے زائد آمد پیدا کرنے کا ارشاد فرمایا تو آپؓ نے اپنے ہاتھ سے ایک دوائی بناکر فروخت کی اور اس کی آمد اشاعت اسلام کی خاطر پیش کردی۔
حضرت مصلح موعودؓ اُس وقت جابہؔ میں قیام فرما تھے جب حضورؓ کو حضرت سیدہؓ کی مریؔ میں تشویشناک علالت کی اطلاع ملی۔ حضورؓ مریؔ تشریف لے گئے لیکن حضورؓ کی تشریف آوری سے چند گھنٹے قبل ہی آپؓ کی وفات ہوچکی تھی۔ حضورؓ نے مری میں نماز جنازہ پڑھائی اور پھر جنازہ ربوہ لے جایا گیا جہاں حضورؓ نے دوبارہ نماز جنازہ پڑھائی اور آپؓ کو حضرت اماں جانؓ کے مزار کے قرب میں سپرد خاک کردیا گیا۔