حضرت سیدہ مریم بیگم صاحبہؓ (اُمّ طاہر)
(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن یکم جولائی 2024ء)
لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘برائے2013ء نمبر1 میں مکرمہ شفیقہ ندیم صاحبہ اور مکرمہ سمیرا کوثر صاحبہ نے حضرت سیّدہ اُمّ طاہر صاحبہؓ کی سیرت کو حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے ارشادات کی روشنی میں بیان کیا ہے۔
حضرت سیدہ مریم بیگم صاحبہؓ کے والد حضرت ڈاکٹر سید عبدالستارشاہ صاحبؓ کلرسیداں ضلع راولپنڈی کے ایک مشہور سادات خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ شجرۂ نسب متعدد واسطوں سے حضرت علی المرتضیٰؓ تک پہنچتا ہے۔ نہایت عابد، زاہد اور مستجاب الدعوات بزرگ تھے۔ 1901ء میں حضرت مسیح موعودؑ کے دست مبارک پر بیعت سے مشرف ہوئے۔ آپؓ کے بیٹے حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودؑ نے ہماری والدہ ماجدہ سے فرمایا: ’’یہ آپ کا گھر ہے۔ آپ کو جو ضرورت ہو بغیر تکلّف آپ اس کے متعلق مجھے اطلاع دیں۔ آپ کے ساتھ ہمارے تین تعلق ہیں۔ ایک توآپ ہمارے مرید ہیں، دوسرے آپ سادات سے ہیں، تیسرا ایک اَورتعلق ہے۔‘‘ یہ کہہ کر حضورؑ خاموش ہوگئے۔ والدہ صاحبہؓ کو اس آخری فقرے سے حیرانگی سی ہوئی اور ڈاکٹر صاحبؓ سے آکرذکر کیا۔ اس وقت ہمشیرہ مریم بیگم صاحبہ پیدا نہیں ہوئی تھیں۔ ڈاکٹر صاحبؓ نے جواب دیا کوئی روحانی تعلق ہوگا لیکن حضورؑ کا یہ قول ظاہری معنوں میں بھی لمبےعرصہ بعد پورا ہوگیا ہمشیرہ سیدہ مریم بیگم صاحبہ کی ولادت اور پھر ان کے رشتہ کی وجہ سے۔
حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت سیّدہ مریم بیگم صاحبہؓ کی وفات پر ’’میری مریم‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون رقم فرمایا جس میں فرماتے ہیں: ’’مریم کو احمدیت پر سچا ایمان حاصل تھا۔ وہ حضرت مسیح موعودؑ پر قربان تھیں۔ ان کو قرآن کریم سے محبت تھی اور اس کی تلاوت نہایت خوش الحانی سے کرتی تھیں۔ …۔ علمی باتیں نہ کر سکتی تھیں مگر علمی باتوں کا مزا خوب لیتی تھیں۔ جمعہ کے دن اگر کسی خاص مضمون پر خطبہ کا موقع ہوتا تھا تو واپسی میں اس یقین کے ساتھ گھر میں گھستا تھا کہ مریم کاچہرہ چمک رہا ہوگا اور وہ جاتے ہی تعریفوں کے پل باندھ دیں گی اور کہیں گی کہ آج بہت مزا آیا اور یہ میرا قیاس شاذ ہی غلط ہوتا تھا، مَیں دروازے پر انہیں منتظر پاتا۔ خوشی سے ان کے جسم کے اندر ایک تھرتھراہٹ پیدا ہو رہی ہوتی تھی۔‘‘
حضرت سیدہ مریم صاحبہؓ کی نرینہ اولاد صرف حضرت مرزا طاہر احمدؒ ہی تھے۔آپؓ ہر وقت تڑپ کرخود بھی دعاکرتیں اور دوسروں سے کرواتیں کہ میرا ایک ہی بیٹا ہے خدا کرے یہ خادم دین ہو۔ میں نے اسے خدا کے راستے میں وقف کیاہے اللہ تعالیٰ اسے حقیقی معنوں میں واقف بنائے۔
پھر آنسوؤں کے ساتھ یہ جملے بار بار دہراتیں: ’’خدایا! میرا طاری تیرا پرستار ہو۔ یہ عابد و زاہد ہو۔ اسے خادم دین بنائیو۔ اسے اپنے عشق، محمد رسول اللہ ﷺ کے عشق اور حضرت مسیح موعود ؑ کے عشق سے سرشارکیجیو۔‘‘
حضرت مصلح موعودؓ نے کئی بار بڑی رقّت سے اس بات کا اظہار فرمایا کہ ’’میرا طاری مریم مرحومہ کی دلی آرزوؤں کا بہترین ثمر ہے۔اُن کو اس بات کی تڑپ تھی کہ ان کا یہ اکلوتا بیٹا صحیح معنوں میں دین کا خادم ہو۔‘‘
حضرت مرزا طاہر احمد صاحبؒ اپنی والدہ مرحومہ کی یادوں کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: امّی مرحومہ کی وفات پر آج تقریباً بیس برس کا عرصہ گزر چکا ہے۔ لازم تھا کہ گزرتے ہوئے زمانے کے قدم آپ کی یادوں کے اکثر نقوش کو مٹا ڈالتے لیکن بعض وجود اپنے پیچھے کچھ نہ مٹنے والی یادیں بھی چھوڑجایا کرتے ہیں۔ کچھ ناقابل فراموش نقوش ایسے بھی ہوا کرتے ہیں جنہیں زمانہ کی گردش بار بار روندنے کے باوجود بھی مٹا نہیں سکتی۔ آپؓ کی یادوں کے ہراول دستوں میں ہمیشہ مجھے آپ کا جذبہ خدمت خلق نظر آتا ہے،کبھی ایسا نہیں ہوا کہ آپ کا نام اس تصور سے الگ ہو کر میرے ذہن میں داخل ہوا ہو، بےکسوں، یتیموں، مساکین، مصیبت زدگان اورمظلوموں سے گہری ہمدردی آپ کی شخصیت کا ایک لاینفک جز تھا۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ یہ جذبہ ہمدردی ان کے خون میں گھل مل کر ان کی زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔ یہ ہمدردی جذباتی بھی تھی قولی بھی اور فعلی بھی اور یہ رنگ ایسا غالب تھا کہ گویا سیرت کے دوسرے تمام پہلوئوںمیں سرایت کر گیا تھا۔اس جذبہ کو تسکین دینے کے لیے آپ نے مالی قربانی بھی بہت کی، جانی بھی اور جذباتی بھی۔ آ پ خود تلاش کر کے ضرورت مندوں کی ضرورت کو پورا کرنے کی کوشش کرتی تھیںاور چونکہ تحریک جدید کے اجرا کے بعد خاص طور سے حضورؓ کی طرف سے خرچ جچا تلا ملتا تھا اس لیے مالی لحاظ سے ہمیشہ تنگ رہتی تھیں۔ ایک طرف جماعتی چندوںمیں بڑھ چڑھ کے حصہ لینے کا شوق، دوسری طرف یہ بےقرار تمنا کہ ہر حاجت مند کی حاجت پوری کردوں، اس کا لازمی نتیجہ یہی نکلتا تھا کہ اپنے گھر میں خوب ہاتھ کس کر خرچ کریں۔ پس جن دنوں مہمان نہ ہوں گھر کا کھانا اتنا سادہ اور بےقیمت ہوجاتا تھا۔ …پس کچھ تو روز مرّہ کے کھانے کا معیار گرا کرچندوں، خدمت خلق اور مہمان نوازی کے لیے بچت کرلیتیں اور کچھ ہمارے کپڑوں کے خرچ میں سے اس غرض کے لیے پیسے بچالیتی تھیں کہ تحریک جدید کا بہانہ ہاتھ آیا ہواتھا۔ چنانچہ کپڑے سادہ ہی نہیں بلکہ تعداد کے لحاظ سے واجبی ہی بناتی تھیں۔
آپؓ کی سیرت کا ایک اَور پہلو جماعتی کاموں میں آپؓ کا انہماک تھا۔ شاید ہی کوئی دن ایسا آیا ہو کہ آپ گھر پر ہوں اور لجنہ اماءاللہ کی مرکزی یا مقامی کارکنات نے آپ کو گھیر نہ رکھا ہو۔ ہر وقت مختلف قسم کی خواتین کا ایسا آنا جانا رہتا تھا کہ کم از کم میری طبیعت پر بہت گراں گزرتا تھا۔ یوں لگتا تھا کہ یہ کوئی گھر نہیں بلکہ ’’بیٹھے ہیں راہ گذر پہ ہم‘‘۔
باقی بچوں کے متعلق مَیں نہیں جانتا کہ کیا تاثرات تھے مگر میرے اور امی کے درمیان تو ہمیشہ یہ لجنہ ایک پردے کے طور پر حائل رہی۔ شاذ ہی کوئی وقت ایسا ملتا تھا کہ علیحدہ بےتکلّفانہ گھریلو ماحول میسر آتا ہو۔خصوصاً جمعہ اور ہفتہ کے روز تو ہمارا گھر ایک پبلک جلسہ گاہ بن جایا کرتا تھا۔ ہفتہ کا دن درس کا دن ہوتا تھا اور جمعہ سے بہت حد تک مشابہ۔ پھر حضرت صاحبؓ کی باری والے دن بھی زیارت کرنے والیوں، دعا کی درخواست کرنے والیوں، شکایت کرنے والیوں اور مصیبت زدہ خواتین کا ایک عام تانتا بندھا رہتاتھا۔ بچوں کا شوراور ان کا جگہ جگہ حوائجِ ضروریہ سے فارغ ہونا، پھولوں اور پودوں کو خراب کرنا، گملوں کو توڑنا وغیرہ یہ سب امور ان ہنگاموں کے چہروں کی رونق تھے مگر امّی کبھی ان باتوں سے نہیں تھکیں، نہ ان کی پیشانی پر بل آیا، نہ دھیان کبھی اس طرف منتقل ہوا کہ نسبتاً کم حوصلہ بچوں کو شاید کبھی تکلیف پہنچتی ہو۔ مبارک تھیں وہ آنے والیاں جنہوں نے خدا کے اجتماعی ذکر سے ہمارے مٹی کے گھروندے کو خدا کا گھر بنا دیا تھااور مبارک تھی وہ بلانے والی۔ اللہ تعالیٰ اسے غریق رحمت کرے۔ آمین
آنحضرت ﷺ کی تعریف میں یہ ربائی بہت پسند تھی اور رات بستر پر کئی دفعہ دھیمی آوازمیں ترنم کے ساتھ پڑ ھا کر تی تھیں اور مجھے بھی خود ساتھ پڑھواکر یاد کروائی تھی:
بَلَغَ الْعُلٰی بِکَمَالِہٖ
کَشَفَ الدُّجٰی بِجَمَالِہٖ
حَسُنَتْ جَمِیْعُ خِصَالِہٖ
صَلُّوْا عَلَیْہِ وَآلِہٖ
حضرت مسیح موعودؑ کا دل میں ایسا گہرا احترام تھا کہ باوجود بہو ہونے کے ہمیشہ اپنے آپ کو حضورؑ کی اولاد سے کم مرتبہ سمجھا حالانکہ خاندان میں گھل مل جانے کے بعد یہ فرق کون مدّنظر رکھا کرتاہے۔
اپنے بچوں سے اگر پیار کا اظہار نہیں کرتی تھیں تو محض اس خوف کی بِنا پر کہ کہیں لاڈ پیار سے تربیت خراب نہ ہوجائے۔ غالباً ذہن پر وہم مسلّط تھا کہ اپنی مائوں کا پیار بچوں کے اخلاق بگاڑ دیتا ہے۔ یہ احتیاط محض اسی بِنا پر تھی ورنہ دل ہرگز سخت نہیں تھا، دوسروں کے بچوں پر بہت پیار آتا تھا اور اپنی آخری بچی امۃالجمیل سے بھی کم پیار نہیں کیا۔ یہ تربیت کی اصولی سختیاں زیادہ تر ہم بڑے بچوں کے حصہ میں آئیں۔
آخری بیماری کا جہاں تک مجھے علم ہے ایک ایسی آب دوز کشتی کی طرح تھی جو کبھی زیر آب چلی جاتی ہے تو کہیں بالائے آب ابھر آتی ہے۔ میرا دسویں کا امتحان قریب تھا اور پہلا سرمایہ کچھ تھا نہیں کہ اس پر بھروسہ کرکے آخری چند ماہ میں پڑھائی چھوڑ بیٹھتا۔جب دل ذہن کا ساتھ نہ دے اور لپک لپک کر ایک کراہتی ہوئی بیمار ماں کے کمرے کی طرف دوڑے تو پھر جہاں تک حصول علم کا تعلق ہے، ہنوز روز اوّل کا سا معاملہ رہتا ہے۔ بسااوقات رات کو پائوں دبانے کے لیے جاتا تو کچھ دیر کے بعدشاید اس خیال سے کہ پڑھائی میں حرج نہ ہو آنکھیں بند کرلیتیں یا شاید میری تکلیف کا خیال ہی ضبط پر مجبور کر دیتا تھا۔ پس با اصرار مجھے واپس اپنے کمرہ میں بھجوا دیا کر تی تھیں مگر اپنے کمرہ میں جاتے ہی مجھے ہزار اندیشے گھیر لیتے تھے چنانچہ بعض اوقات میں دبے پاؤں واپس جاکر دروازے سے کان لگا کر سنتا تو وہی کراہنے کی دردناک آواز یں آتیں جن کا چند منٹ پہلے ضبط کی قوتوں سے گلا گھونٹ رکھا تھا۔ آخر ایک دن علاج کی غرض سے امی کو لاہور لے جایا گیا اور حضرت ابّا جانؓ نے دین و دنیا کے سارے جتن کر ڈالے، کوئی راہ نہ چھوڑی جس پر دوڑ کر اس ہاتھ سے جاتے ہوئے مریض کو لَوٹایا جاسکتا تھا۔ اُن ایام میں ہر جمعہ کے روز مَیں عیادت کی خاطر لاہور جایا کرتا تھا۔ حضورؓ کے فکر اور بےچینی کو دیکھ کر تکلیف بھی بہت تھی خصوصاً اس خیال سے بےحد فکرمند ہوجاتی تھیں کہ باوجود مالی تنگی کے حضوؓران کی بیماری پراس طرح بےدریغ خرچ کر رہے ہیں اور حضورؓ کی اس قربانی پر دل دُکھتا تھا لیکن اس تکلیف کے پس پردہ ایک موہوم سی لذّت، ایک سکون کا سایہ بھی دیکھا کرتا تھا جو اس وہم کے ہمیشہ کے لیے مٹ جانے کی وجہ سے تھا کہ حضرت صاحب کو آپ کی کماحقّہٗ فکر نہیں ہے۔ حضرت صاحب نے اس بیماری میں آپ کا جس رنگ میں خیال رکھا وہ ایسا نہیں تھا کہ اس کے بعد کوئی نا شکری بھی کسی قسم کا شکوہ باقی رکھتی اور امّی تو ہرگز ناشکری نہیں تھیں۔ حضور کے فکر، حضور کے ایثار، حضور کی دعاؤں، صدقات اور سعی پیہم کو دیکھ کر مجسّم جذبۂ شکر بن گئی تھیں اور ہر دوسرے فکر سے بیگانہ ہوگئی تھیں۔آخر خدا تعالیٰ کی تقدیر مبرم مالک حقیقی کا آخری بلاوا لے کر آن پہنچی اور 5؍مارچ 1944ء کو اللّٰھُمَّ لَبَّیْک کہتے ہوئے آپ نے اپنی جان جان آفرین کے سپرد کر دی۔ مَیں اس وقت قادیان میں تھا۔ مَیں نہیں جانتا کہ آخری وقت میں میرا نام بھی ان کے ذہن میں آیا تھا یا نہیں لیکن یہ توقع ضرور رکھتا ہوں کہ اپنی آخری سانسوں میں انہیں یاد ضرور رکھوں گا۔ وفات کی خبر سن کہ میرے جذبات ظفرؔ کے اس شعر کی تصویر بن گئے کہ ؎
مَیں نے چاہا تھا کہ اس کو روک رکھوں
میری جان بھی جائے تو جانے نہ دوں
کیے لاکھ فریب کروڑ فسوں
نہ رہا ، نہ رہا ، نہ رہا ، نہ رہا!
لیکن اس شدید صدمہ کے باوجود اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے صبر کی توفیق بخشی اور منہ سے کوئی ناشکری کا کلمہ ایسا نہیں نکلا جو بعد میں اپنے خالق ومالک کے حضور شرمندگی کا موجب بنتا۔ ہاں ایک غم تھا جو میرے قبضہ و قدرت میں نہیں تھا او ر بعض یادیں اس غم کو آزاد ہواؤں کی طرح ہر سمت سے آکر انگیخت کر جاتی تھیں۔ اپنی مرحومہ ماں کے وہ الفاظ مجھے باربار یاد آ آ کر دکھ دیتے تھے جو ایک دفعہ تکلیف کی شدّت میں موت کو سرہانے کھڑے دیکھ کر مجھ سے کہے تھے: ’طاری! مجھے یہ بہت احساس ہے کہ میں تمہارا خیال نہیں رکھ سکی اور جیسا کہ حق تھا تم سے پیار نہیں کیا بلکہ ہمیشہ سختی کی۔ یہ صرف تمہاری تربیت کی خاطر تھا لیکن اس کی بھی مجھے تکلیف ہے۔ تم دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس بیماری سے شفا دیدے۔ میں وعدہ کرتی ہوں کہ اب تمہارا بہت خیال رکھوں گی اور گذشتہ ہر کمی کو پورا کروں گی۔‘ جب یہ الفاظ مجھے یاد آتے تھے تو دل بےطرح بےقابو ہو جاتا تھا کہ پیار کی خاطر نہیں، سختی ہی کی خاطر آئیں لیکن ایک بار واپس آجائیں۔ یا اب بھی خوابوں میں کبھی آتی ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اسی وعدہ کے ایفاء کے لیے آتی ہیں لیکن خوابوں سے بھی دل بہلے ہیں کبھی!
آپؓ کی وفات پرحضرت مصلح موعودؓ نے ’’میری مریم‘‘ کے عنوان سے ایک نظم کہی جس میں اپنی محبت کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
گھر سے میرے وہ گلعذار گیا
دل کا سکھ ، چین اور قرار گیا
ہو گیا گُل دیا میرے گھر کا
امن اور چین کا حصار گیا
نیز عربی زبان میں ’’مرثیہ حضرت سیدہ اُمّ طاہر‘‘ بھی کہا جس کے چند اشعار کا ترجمہ درج ذیل ہے:
میری بیوی مَیں تجھ پر ہر دن رات روتا ہوں
میں خون آلودہ دل سے تیرا مرثیہ کہتا ہوں
اے میرے ربّ! اس پر ہمیشہ لطف کرتے رہنا
اور اس کا ٹھکانہ ایک بلند شان قبر میں بنانا