حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ رضی اللہ عنہا
حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حرم حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام 1865ء میں حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ کے ہاں پیدا ہوئیں جو محکمہ انہار میں اوور سیر تھے اور ان کی دیانت داری اور راست بازی کا محکمہ بھر میں شہرہ تھا آپ کی پیدائش گھر کے لئے بہت بابرکت ثابت ہوئی اور آپ کے والد کو خاندانی جائیداد کا بلاکوشش ایک حصہ مل جانے سے گھر میں فراوانی آ گئی۔
آپؓ بہت ذہین اور سلیقہ شعار تھیں۔ ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی آپؓ کے والد محترم سے ایک بار حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ نے دریافت فرمایا کہ کیا آپ کوئی ایسی نیکی بتاسکتے ہیں جس کے باعث آپ کی صاحبزادی حضرت اقدسؑ کے نکاح میں آئیں۔ حضرت میر صاحبؓ نے فرمایا: ’’اور تو مجھے کچھ یاد نہیں البتہ جب سے یہ پیدا ہوئی ہیں اس دن سے لے کر جس دن میں نے ان کو ڈولی میں ڈالا، یہی دعا روزانہ کرتا رہا ہوں کہ اے خدا! تُو اس کو کسی بہت نیک کے پلے باندھیو‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک اور نئی شادی اور بابرکت نسل کا وعدہ دیا ہوا تھا اور اشارہ فرمایا تھا کہ یہ رشتہ دہلی میں رہنے والے خاندان سادات میں ہو گا۔ انہی دنوں حضرت میر ناصر صاحب نے (جو قادیان حضور کی صحبت سے فیض یاب ہونے جایا کرتے تھے) حضور کی خدمت میں نیک اور صالح داماد کے لئے دعا کی درخواست کی تو حضورؑ نے خدا تعالیٰ کی دی ہوئی بشارات کی روشنی میں اپنے لئے رشتہ کی تحریک فرمائی جسے خط و کتابت کے بعد حضرت میر صاحبؓ نے منظور کر لیا۔ چنانچہ آٹھ روز بعد حضور اپنے چند خدام پر مشتمل بارات لے کر دہلی تشریف لے گئے جہاں 17؍نومبر1884ء کو خواجہ میر درد کی مسجد میں مولوی نذیر حسین محدث دہلوی نے گیارہ سو روپے حق مہر پر آپؓ کے نکاح کا اعلان فرمایا۔ حضور اپنے ہمراہ زیور اور کپڑے کی بجائے صرف دو سو پچاس روپے نقد لے کر گئے تھے۔ میر صاحب کے خاندان کی بعض نا سمجھ عورتوں نے زیور اور کپڑا نہ لانے پر طعن و تشنیع کی جنہیں حضرت میر صاحب نے سمجھایا کہ حضور کے حالات ایسے ہیں کہ سارا خاندان آپ کا مخالف ہے اور پھر یہ شادی جلدی میں ہورہی ہے۔ چنانچہ رخصتی نہایت سادگی سے انجام پائی اور جہیز کا سامان ایک صندوق میں بند کر کے چابی حضور کو دیدی گئی۔
نئی دلہن کے ساتھ جب بارات واپس قادیان پہنچی تو گھر میں بھی کوئی استقبال کے لئے موجود نہ تھا۔ حضرت اماں جانؓ خود بتاتی ہیں کہ میں اکیلی حیران و پریشان ایک کمرہ میں اتری جس میں ایک کھردری چارپائی تھی اور اس کی پائنتی پر ایک کپڑا پڑا ہوا تھا اس پر تھکی ہاری جو پڑی ہوں تو صبح ہو گئی۔ صبح حضورؑ نے ایک خادمہ کو بلوا دیا اور گھر میں آرام کا سب بندوبست کر دیا۔
اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو دس بچوں سے نوازا جن میں سے پانچ نے لمبی عمر پائی جن میں وہ موعود بیٹے بھی شامل تھے جو خلیفتہ المسیح الثانی اور مصلح موعود بنے اور جن کی وجہ سے آپؓ کی کنیت امّ محمود ہوئی۔
آپؓ کی ساری اولاد خدائی بشارات کے مطابق پیدا ہوئی تھی لیکن آپؓ نے ان کی تربیت میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ آپؓ کی صاحبزادی حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ تربیت اولاد کے بارہ میں آپؓ کے اصول یوں بیان فرماتی ہیں کہ بچے پر ہمیشہ بہت پختہ اعتبار ظاہر کر کے اس کو والدین کے اعتبار کی شرم اور لاج ڈال دینا آپ کا بڑا اصول تھا۔ جھوٹ سے نفرت اور غیرت و غنا بھی آپؓ کا اول سبق ہوتا تھا چنانچہ کبھی ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں آ سکتا تھا کہ ہم والدین کی عدم موجودگی میں بھی اُن کے منشاء کے خلاف کر سکتے ہیں۔ آپ ہمیشہ فرماتیں کہ میرے بچے جھوٹ نہیں بولتے اور یہی اعتبار تھا جو ہم کو جھوٹ سے بچاتا تھا بلکہ زیادہ متنفر کرتا تھا۔
خدا تعالیٰ کے لئے آپ بہت غیرتمند تھیں۔ آپؓ کی بہو حضرت سیدہ مہر آپا اپنے والد صاحب کی وفات کی خبر سن کر بے ہوش ہو گئیں اور جب ہوش میں آئیں تو دیکھا کہ حضرت سیدہ اماں جانؓ آپ کا سر اپنی گود میں رکھے دعائیں کر رہی ہیں۔ آپ کہتی ہیں کہ میرے مونہہ سے بے اختیار یہ الفاظ نکلے: ’’اللہ میاں میرے چھوٹے چھوٹے بھائی ہیں، ان کا کیا ہوگا…؟‘‘۔ حضرت اماں جانؓ یہ سنتے ہی بولیں: ’’تمہارے ابا رازق نہ تھے، اُن کی زندگی میں بھی خدا تعالیٰ ہی بچوں کا رازق تھا، اُن کے بعد بھی وہی اُن کا کفیل ہوگا‘‘۔ یہ سن کر بے حد حوصلہ ملا۔
حضرت اماں جانؓ کی سیرت پر محترمہ ستارہ مظفر صاحبہ کی کتاب ’’ہراول دستہ‘‘ کے حوالہ سے یہ مضمون روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے جون 1996ء کے بعض شماروں میں شائع ہوا ہے۔
حضرت سیدہ مہر آپا کی والدہ ماجدہ کی دو بیٹیاں تھیں اور بظاہر بیماری کی وجہ سے آپ کے والد صاحب کو دوسری شادی کا مشورہ دیا جا رہا تھا۔ تب آپ کی والدہ نے حضرت اماں جانؓ کی خدمت میں ساری بات عرض کر کے دعا کی درخواست کی تو آپؓ نے فرمایا: ’’تم دعائیں، علاج اور صدقات سے کام لیتی جاؤ۔ خدا تعالیٰ تمہیں نرینہ اولاد سے نوازے گا، انشاء اللہ، اور ایسا ہوتے ہوئے میری آنکھیں دیکھ رہی ہیں‘‘۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں تین بیٹوں سے نوازا۔
بہوؤں سے حسن سلوک کا ذکر کرتے ہوئے حضرت سیدہ مہر آپاؒ بیان فرماتی ہیں کہ کسی ضرورت کے تحت مجھے کچھ زیور فروخت کرنا پڑا۔ جب حضرت اماں جانؓ کو اس کا علم ہوا تو افسردہ ہو کر کہنے لگیں: ’’کوئی ضرورت تھی تو مجھے بتاتیں … اگر آئندہ ضرورت پیش آئے تو چپکے سے مجھے کہہ دیا کرو لیکن زیور کبھی نہ بیچنا۔ ‘‘
حضرت سیدہ چھوٹی آپا جو آپؓ کی بھتیجی بھی ہیں، فرماتی ہیں کہ شادی کے وقت میری عمر سترہ سال تھی اور اس وقت مجھے کچھ بھی آتا جاتا نہ تھا مگر حضرت اماں جانؓ نے مجھے اس طرح سکھایا کہ معلوم بھی نہیں ہوا۔ یہ کہہ کر کہ آؤ کھانا بنائیں اپنے ساتھ بٹھالیتیں، خود ہانڈی پکاتیں اور میں دیکھتی رہتی۔ پھر بعد میں کسی روز کہتیں کہ اس روز تم نے بہت اچھا کھانا بنایا تھا، آج بھی ویسے ہی بناؤ… مجھے ماں سے بڑھ کر محبت دی۔ نصیحت کا انداز بہت دلنشیں تھا۔
جماعت پر حضرت اماں جانؓ کے احسانات ہیں۔ سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ آپؓ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت کے بعض ایسے پہلوؤں کو بیان فرمایا جو ایک رازدان بیوی ہی بہتر طور پر بیان کرسکتی ہے۔ جماعت کے افراد سے آپؓ کو بہت محبت تھی اور بلا امتیاز ہر ایک کی تکالیف کا ازالہ کرنا اور سب کے لئے دعائیں کرنا آپؓ کا شعار تھا۔ آپؓ کا وجود احمدی مستورات کے لئے محبت اور شفقت کا بلند اور مضبوط مینار تھا۔ غرباء سے ہمدردی آپؓ کا نمایاں خلق تھا، اپنی طاقت سے بڑھ کر مدد فرماتیں اور کئی دفعہ اتنی خفیہ مدد کرتیں کہ کسی اور کو پتہ بھی نہ چلتا۔ ماہ رمضان کے دوران اور عید کے موقعہ پر غرباء کی امداد کا زیادہ اہتمام کرتیں۔ آپؓ نے ایک بھینس کرم دین جولا ہے کے پاس فروخت کی جو دو ماہ بعد مر گئی۔ آپؓ کو علم ہوا تو آپؓ نے اسی وقت 70 روپے (جو غالباً بھینس کی پوری قیمت تھی) اسے بھجوا دئیے۔ مزدوروں کو مزدوری بھی زیادہ دیتیں اور قرض مانگنے والوں کو فراخدلی سے قرض بھی دیتیں اور اگر اپنے پاس گنجائش نہ ہوتی تو کسی اَور سے کہہ کر اس کی ضرورت پوری فرما دیا کرتیں۔
حضرت امّاں جانؓ کی نصائح
حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کی رخصتی کے موقع پر حضرت اماں جانؓ نے آپؓ کو جو بیش قدر نصائح فرمائیں وہ ماہنامہ ’’مصباح‘‘ اپریل 1996ء کی زینت ہیں۔ آپؓ نے فرمایا:-
’’اپنے شوہر سے پوشیدہ یا وہ کام جس کو ان سے چھپانے کی ضرورت سمجھو ہر گز کبھی نہ کرنا۔ شوہر نہ دیکھے مگر خدا دیکھتا ہے اور بات آخر ظاہر ہو کر عورت کی وقعت کو کھودیتی ہے۔
اگر کوئی کام ان کی مرضی کے خلاف سرزد ہو جائے تو ہر گز کبھی نہ چھپانا۔ صاف کہہ دینا کیونکہ اس میں عزت ہے اور چھپانے میں آخر بے عزتی اور بے وقری کا سامنا ہے۔
کبھی ان کے غصہ کے وقت نہ بولنا، تم پر یا کسی نوکر یا بچہ خفا ہوں اور تم کو علم ہو کہ اس وقت یہ حق پر نہیں جب بھی اس وقت نہ بولنا، غصہ تھم جانے پر پھر آہستگی سے حق بات اور ان غلطی پر ہونا اس کو سمجھا دینا۔ غصہ میں مرد سے بحث کرنے والی عورت کی عزت باقی نہیں رہتی۔ اگر غصہ میں کچھ سخت کہہ دیں تو کتنی ہتک کا موجب ہو۔
ان کے عزیزوں کو عزیزوں کی اولادوں کو اپنا جاننا۔ کسی کی برائی تم نہ سوچنا خواہ تم سے کوئی برائی کرے۔ تم دل میں بھی سب کا بھلا ہی چاہنا اور عمل سے بھی بدی کا بدلہ نہ کرنا۔ دیکھنا پھر ہمیشہ خدا تمہارا بھلا ہی کرے گا‘‘
حضرت اماں جانؓ کی مالی قربانی
مینارۃ المسیح کی تعمیر کے لئے ایک خاص تحریک بذریعہ اشتہار سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 28 مئی 1900ء کو فرمائی۔ اس تحریک پر لبیک کہتے ہوئے حضرت اماں جان سیدنا حضرت نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ نے کْل اندازہ خرچ جو دس ہزار روپے تھا کا دسواں حصہ ادا کیا اور اس کے لئے دہلی میں واقع اپنی ایک جائیداد فروخت کر دی۔
1898ء میں بھی ایک ضرورت کے وقت آپؓ نے حضورؑ کی خدمت میں ایک ہزار روپیہ تحفتہً پیش کیا تھا جسے حضورؑ نے بطور قرضہ قبول فرمایا تاکہ لوگوں کو یہ سبق دیا جائے کہ بیویوں کا مال ان کا اپنا مال ہوتا ہے۔
حضرت سیدہ اماں جانؓ کی سیرت مبارکہ کے بعض واقعات محترمہ ستارہ مظفر صاحبہ کی قلم سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 23؍ مئی 1996ء کی زینت ہیں۔