حضرت سید احمد صاحب بریلوی شہیدؒ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ یکم دسمبر 2009ء میں حضرت سید احمد بریلوی شہید رحمۃاللہ علیہ کی سیرۃ و سوانح سے متعلق ایک مختصر مضمون مکرم نذیر احمد سانول صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
حضرت سید احمد صاحب بریلوی کے والد کا اسم گرامی سید محمدعرفان اوردادا جان کا نام سید نور محمد تھا۔ آپ کا نسب نامہ حضرت حسن ؓ بن علیؓ سے جا کر ملتا ہے۔ اس خاندان کی ہندوستان میں آمد کا زمانہ معلوم نہیں ہے۔ حضرت سید احمد صاحب نہایت حسین و جمیل تھے۔ بلند قامت، سرخ و سفید رنگت، بال سیاہ، قوی ہیکل، ابروپیوستہ، کشادہ پیشانی، دراز بینی، خنداں رو تھے۔ شخصیت بہت بارعب تھی۔
جب آپ کچھ بڑے ہوئے اور کھیل کود میں مشغول ہوئے تو بھی آپ کے کھیل باقی بچوں کے کھیل سے مختلف ہوتے، آپ بچوں کو جمع کرتے اور دو لشکر بنا لیتے ایک اسلامی اور دوسرا کفار کا، پھر ایک دوسرے پر حملہ ہوتا اور یہی آوازیں دیتے کہ مار دیا، فتح حاصل کرلی اور پھر بلند آواز سے تکبیریں کہتے۔ اس طرح آپ لشکر اطفال کی سرداری کیا کرتے تھے۔
ایک مرتبہ آپ رات کو سوئے ہوئے تھے تو آپ نے خواب میں دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے پاس تشریف لائے ہیں اور بڑی محبت سے ایک کے بعد ایک چھوارہ آپ کے منہ میں ڈالتے ہیں۔ جب آپ بیدار ہوئے تو آپ کے منہ میں ان چھواروں کی مٹھاس اسی طرح موجود تھی۔
شاہ صاحب کی زندگی کے اَن گنت واقعات کتب میں موجود ہیں جو آپ کی سیرت طیبہ پر روشنی ڈالتے ہیں۔ ہمدردی خَلق کا ایک واقعہ حضرت سید احمد صاحب ؒ خود فرماتے ہیں کہ جب میں دہلی کے لئے روانہ ہوا تو اس وقت میرے پاس صرف تین پیسے تھے۔ دہلی کا سفر چودہ، پندرہ منزل تھا۔ ایک منزل چل کر میں نے ایک پیسے کے ستّو اور گڑ خرید کیا اور ستو گھول کر مَیں پینا ہی چاہتا تھا کہ ایک مسکین نے صدا بلند کی کہ مَیں چار دن سے بھوکا ہوں۔ سید صاحب فرماتے ہیں کہ یہ صدا سن کر میرے دل میں خیال آیا کہ میں فوراً یہ ستّو پی جاؤں۔ پھر غور کیا اور سوچا کہ میں دو دن کا بھوکا ہوں اور یہ چار دن سے بھوکا ہے اس لئے اس کا حق پہلے ہے۔ اس پر میں نے وہ ستّو اس مسکین کو دیدئیے اور ساری رات مَیں نے ذکر الٰہی کرتے ہوئے گزار دی۔ صبح ہوئی تو پھر ایک پیسے کے ستّو خرید کئے اور بھوک مٹائی۔
آپؒ کی سوانح میں یہ واقعہ بھی درج ہے کہ ایک دفعہ آپؒ کے دو تین ساتھیوں نے کہا کہ دعا کریں کہ خداتعالیٰ غیب سے ہماری لئے کوئی رزق کا سامان کرے۔ پہلے تو آپؒ نے اپنے ساتھیوں کو کہا کہ آج کی رات بھوک کی سختی اٹھا لو صبح کوئی انتظام ہوجائے گا۔ لیکن بھوک اتنی زیادہ تھی کہ ساتھی بالکل اس کے لئے تیار نہ ہوئے اور آپ سے دعا کرنے پر زور دیتے ہوئے لشکر کی طرف چلے گئے۔ آپؒ ایک کمبل اوڑھ کر لیٹ گئے اور دعا کرنے لگے۔ کچھ دیر بعد آپ کو ایک شخص نے اٹھایا اور گرم حلوہ کا ایک بڑا تھال پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ حلوا خداتعالیٰ کی نذر ہے آپ اس کو لے لیجئے۔ آپؒ نے فرمایا کہ کچھ دیرٹھہر جاؤ، میرے ساتھی لشکر میں گئے ہوئے ہیں وہ واپس آتے ہیں تو یہ حلوا اپنے برتنوں میں ڈال کر برتن آپ کو واپس کر دیتے ہیں۔ اس پر اس شخص نے کہا یہ برتن بھی خدا کی نذر ہے اس کو آپ رکھ لیں اور مجھے رخصت دیجئے۔ میں زیادہ وقت یہاں ٹھہر نہیں سکتا۔ یہ کہتا ہوا کہ وہ شخص وہاں سے رخصت ہو گیا۔ اس شخص کے چلے جانے کے بعد آپ کے ساتھی آگئے تو سید صاحب نے اُن سے کہا کہ اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہونا چاہئے۔ اللہ جس کو چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے۔ چنانچہ سب نے شکر الٰہی کرتے ہوئے اس رزق کو کھایا۔
آپؒ کو ایک حاسد نے ایک مرتبہ زہر بھی دیدیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے آپؒ کو محفوظ رکھا۔ بیان کیا جاتا ہے کہ دوران جنگ ایک مرتبہ ایک مسلمان ہی کچھ کھچڑی بنا کر افسرانِ لشکر کے لئے لایا اور بڑی عقیدت سے پیش کی۔ باقی تو کسی نے وہ کھچڑی نہ کھائی البتہ حضرت سید احمدصاحبؒ نے کھا لی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا آپؒ کو زہر کا پوری طرح سے اثر ہو گیا۔ کچھ ہی وقت گزرا تھا کہ آپ کی طبیعت ناساز ہو گئی اور قے آنی شروع ہوئی۔ فوری علاج معالجہ کیا گیا تو زہر کا اثر کافی حد تک زائل ہو گیا لیکن وہ صورت نہ رہی جو ایک صحتمند آدمی کی ہوتی ہے۔ قریباً ایک ہفتہ تک بیہوشی کی کیفیت میں رہنے کے بعد جب آپ کو ہوش آیا تو آپ کو تمام حالات جنگ سے اطلاع دی گئی۔ اس پر آپؒ نے فرمایا کہ یہ جو ہمیں تکلیف پہنچی ہے یہ ہماری خطا کا نتیجہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس ذریعہ سے میرے جد امجد حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو مجھ پر جاری کر دیا ہے۔ اس کے بعد اُن لوگوں کو جنہوں نے آپ کو زہر دیا تھا گرفتار کرکے آپ کے پاس لایا گیا لیکن آپ نے اُن کو براہ حلم و ترحم کچھ نہ کہا۔ دوسرے سب لوگ ان کے قتل کے درپے تھے لیکن آپ نے انہیں رات کے اندھیرے میں فرار کر دیا۔ اس طرح سید صاحب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی پیروی کرتے ہوئے اپنے جانی دشمنوں کو معاف کر دیا۔
اس زمانہ میں سکھ مسلمانوں پر بے حد ظلم کر رہے تھے۔ اذان دینے کے لئے اجازت نہ تھی۔ مسلمانوں کا قتل عام کیا جا رہا تھا۔ بچوں کو ذبح کیا جاتا۔ عورتوں کو زبردستی اپنے قبضہ میں کیا جاتا۔ اس ظلم عظیم کو آپؒ نے برداشت نہ کیا اور سکھوں کے خلاف جہاد کیا۔ آخری معرکہ بالاکوٹ میں ہوا اور معرکہ ایسی جگہ ہوا تھا کہ دشمنوں پر حملہ سے روک کے لئے ایک طرف دلدل تھی اور پھر مدّمقابل پہاڑ پر چڑھے ہوئے تھے اور وہاں سے گولیاں برسا رہے تھے۔ کافی دیر مقابلہ کے بعد بھی جب کوئی کامیابی کی راہ دکھائی نہ دی تو حضرت سید صاحبؒ نے دشمن کے علاقہ میں پہنچنے کے لئے دلدل میں چھلانگ لگا دی اور اپنی جواں مردی اور شیرنَر حوصلہ کے ساتھ طاقت لگا کر دلدل سے پار ہو کر اکیلے ہی دشمن پر حملہ آور ہو گئے۔ اس کے بعد آپ کے ساتھی بھی اس دلدل میں سے پار ہو کر آپ سے ملنے لگے لیکن بہت سے اس دلدل میں پھنس بھی گئے اور بعض لوگوں کی بندوقیں گیلی ہو کر ناکارہ ہو گئیں۔ چنانچہ دشمن سے تو مقابلہ خوب ہوا لیکن دشمن پہاڑ پر تھا اور اُن کے لئے اوپر سے گولیاں برسانا آسان تھا ۔ حضرت سید احمد شہیدؒ کا مزار مبارک بالاکوٹ میں موجود ہے اور قبر کچی مٹی کی بنی ہوئی ہے۔
حضرت سید احمد شہیدؒ تیرھویں صدی کے مجدّد تھے۔ اس بارہ میں منشی جعفر صاحب تھانیسری لکھتے ہیں: ’’اگر اس بزرگ کو مجدد تیرھویں صدی یا مہدی وسط کہا جائے تو مبالغہ نہ ہو گا… نئی روشنی والوں کو ان واقعات سے سخت چڑہو گی مگر جبکہ وہ اپنے پیران پیر مسیح کی سوانح سے مقابلہ کریں گے تو مابین ہر دو سوانح سرمو تفاوت نہ پائیں گے بلکہ وقت موازنہ جان لیں گے کہ مسیح اور سید صاحب ایک ہی شاہراہ کے راہر و اور ایک استاد کے شاگرد تھے‘‘۔
(تواریخ عجیبیہ موسوم بہ سوانح احمدی صفحہ نمبر5)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’جس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے پہلے یوحناؑ نبی خداتعالیٰ کی تبلیغ کرتے ہوئے شہید ہوئے تھے اسی طرح ہم سے پہلے اسی ملک پنجاب میں سید احمد صاحب توحید کا وعظ کرتے ہوئے شہید ہوگئے۔ یہ بھی ایک مماثلت تھی جو خداتعالیٰ نے پوری کر دی‘‘۔
(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 356)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت بریلوی صاحب شہید کے کام کی نسبت فرماتے ہیں:
’’ہند میں دو واقعہ ہوئے ہیں۔ ایک سید احمد صاحب کا اور دوسرا ہمارا۔ ان کا کام لڑائی کرنا تھا انہوں نے شروع کر دی۔ مگر ا س کا اتمام ہمارے ہاتھوں مقدّر تھا جو کہ اب اس زمانہ میں بذریعہ قلم ہو رہاہے‘‘۔
(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 192۔ ایڈیشن 1984 مطبوعہ لندن)