حضرت سید تفضل حسین صاحبؓ اٹاوی
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 8؍مارچ 2007ء میں حضرت سید تفضّل حسین اٹاوی صاحبؓ کا تفصیلی ذکرخیر مکرم غلام مصباح بلوچ صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
’’براہین احمدیہ‘‘ کی اشاعت ہوئی تو طالبان حق کی ایک کثیر تعداد حضرت مسیح موعودؑ کی معتقد ہو چکی تھی۔ انہی میں ایک حضرت سید تفضل حسین صاحب بھی تھے جو اٹاوہ شہر کے باشندے تھے لیکن بسلسلہ ملازمت علی گڑھ میں مقیم تھے۔ جب حضورؑ نے دعویٰٔ ماموریت فرمایا تو آپ بلاتردّد 7؍ اپریل 1889 ء کو حضورؑ کے دست مبارک پر بیعت سے مشرف ہوئے۔ حضورؑ اُن دنوں علی گڑھ کے سفر پر تھے۔ آپؓ کی بیعت کا اندراج رجسٹر بیعت اولیٰ میں محفوظ ہے:
78۔ یکشنبہ 7 اپریل 1889ء مولوی محمد تفضل حسین صاحب علی گڑھ ولد الطاف حسین صاحب مرحوم – رئیس اٹاوہ سرشتہ دار کلکٹر
بیعت کے وقت آپؓ علی گڑھ میں دفتر ضلع میں بطور سپرنٹنڈنٹ ملازمت کر رہے تھے۔
حضرت سید تفضل حسین صاحبؓ نے کئی بار حضرت اقدسؑ کی خدمت میں علی گڑھ تشریف لانے کی درخواست کی تھی جسے آخر حضورؑ نے قبول فرمایا اور اپریل 1889 ء میں علیگڑھ تشریف لے گئے اور آپؓ کے ہاں ہی ٹھہرے۔ علیگڑھ میں ایک تحصیلدار نے حضرت اقدسؑ کی دعوت کی اور شہر کے معززین کو بھی مدعو کیا۔ حضورؑ قریباً ایک ہفتہ وہاں قیام فرما رہے اور پھر واپس تشریف لے آئے۔ چنانچہ حضورؑ نے اپنی کتاب ’’ازالہ اوہام‘‘ میں اپنے سلسلہ کے بعض معاونین کا تذکرہ کرتے ہوئے اس سفر کا ذکر بھی فرمایا۔ حضورؑ فرماتے ہیں: ’’(39) حبّی فی اللہ مولوی محمد تفضل حسین صاحب۔ مولوی صاحب ممدوح میرے ساتھ سچے دل سے اخلاص و محبت رکھتے ہیں میں نے اُن کے دل کی طرف توجہ کی تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ در حقیقت نیک فطرت آدمی اور سعیدوں میں سے ہیں اورقابل ترقی مادہ اپنے اندر رکھتے ہیں اگر وہ بشریت کی کمزوری کی وجہ سے کسی خلجان میں پڑیں تو میں امید نہیں رکھتا کہ اسی میں وہ بند رہ جائیں کیونکہ ان کی طینت صاف اور فراست ایمانی اور اسلام کے نور کا ان کو حصہ ہے اور کسی امر کے مشتبہ ہونے کے وقت قوت فیصلہ اپنے اندر رکھتے ہیں اور اس لائق ہیں کہ اگر وہ کچھ عرصہ صحبت میں رہیں تو علمی اور عملی طریقوں میں بہت ترقی کر جائیں۔ مولوی صاحب موصوف ایک بزرگ عارف باللہ کے خلف رشید ہیں اور پدری نور اپنے اندر مخفی رکھتے ہیں اور امید کی جاتی ہے کہ کسی وقت وہ روحانیت اُن پر غالب ہوجائے۔ یہ عاجز جب علیگڑھ میں گیا تھا تو درحقیقت مولوی صاحب ہی میرے جانے کے باعث ہوئے تھے اور اس قدر انہوں نے خدمت کی کہ میں اس کا شکریہ ادا نہیں کر سکتا۔ اس سلسلہ کے چندہ میں بھی انہوں نے دو روپیہ ماہواری مقرر کر رکھے ہیں۔ مولوی صاحب موصوف اگرچہ تحصیلداری کے عہدے پر ہیں مگر ایک بھاری بوجھ عیال کا ان کے سر پر ہے اور وہ دور و نزدیک کے خویشوں اور اقارب بلکہ دوستوں کی بھی اپنے مال سے مدد کرتے ہیں اور بڑے مہمان نواز ہیں اور درویشوں اور فقیروں اور غریبوں سے بالطبع اُنس رکھتے ہیں اور سادہ طبع اور صاف باطن اور خیر اندیش آدمی ہیں با ایں ہمہ ہمدردیٔ اسلام کا جوش پورے طور پر اُن میں پایا جاتا ہے۔ جزاھم اللّٰہ خیراً۔‘‘
اسی کتاب میں حضورؑ نے دوبارہ آپؓ کے چندہ (دو روپے) کا ذکر بھی شکریہ کے ساتھ فرمایا۔ یہ آپ کا ماہوار چندہ تھا۔ اسی طرح حضورؑ اپنی تالیفات کی اشاعت کے سلسلہ میں بھی تحریک فرماتے رہتے تھے۔ چنانچہ کتاب ’’نشان آسمانی ‘‘کے لئے بھی حضورؑ نے آپؓ کے نام بھی دو خط روانہ فرمائے جس پر آپؓ نے فوراً لبیک کہا۔ چنانچہ حضورؑ نے ’’نشان آسمانی‘‘ کے آخر میں مخلص دوستوں کے خطوط کے خلاصہ میں سب سے پہلا خط آپ ہی کا درج فرمایا ہے :
’’خلاصۂ خط اخویم مولوی تفضل حسین صاحب تحصیلدار علیگڑھ ضلع فرخ آباد سلمہٗ اللہ تعالیٰ
دو والا نامے بندگانِ عالی شرف ورود لائے باعثِ عزّت ہوئے۔ مجھ کو بہت شرم ہے کہ عرصہ سے مَیں نے کوئی عریضہ حضور میں نہیں بھیجا مگر ہر وقت یاد بندگان والا میں رہا کرتا ہوں۔ حضور کا نام نامی میرا وظیفہ ہے اور اکثر حضور کی کتب دیکھا کرتا ہوں اور ان کو ذریعہ بہتری دارین سمجھتا ہوں۔ پچاس جلد رسالہ نشان آسمانی یا جس قدر حضور خود چاہیں میرے پاس بھجوادیں میں ان کو خرید لوں گا اور اپنے دوستوں میں تقسیم کر دوں گا۔ مجھے حضور کی کتابوں کی اشاعت سے دلی خوشی پہنچتی ہے اور میرے سب اہل عیال خوشی اور اچھے ہیں اور حضور کو یاد کرتے ہیں۔
عریضہ نیاز کمترین تفضل حسین از علیگڑھ ضلع فرخ آباد 31 مئی 1892ء ‘‘۔
’’نشان آسمانی‘‘ میں حضورؑ نے آپؓ کے بارہ میں مزید فرمایا کہ: ’’مولوی صاحب موصوف چندہ امدادی دیتے ہیں اور امداد کے طور پر اپنی تنخواہ میں سے رقم کثیر دے چکے ہیں‘‘۔
اخبار ’’الحکم‘‘ 24؍ جولائی 1901ء میں بھی آپؓ کے مساکین فنڈ میں پانچ روپے چندہ کا اندراج موجود ہے۔
حضورنے کتاب ’’انجام آتھم‘‘ میں اپنے 313 صحابہ کی فہرست درج کی ہے آپ کا نام درج ہے:
’’137۔ مولوی سید تفضل حسین صاحب اکسٹرا اسسٹنٹ۔ علیگڑھ ضلع فرخ آباد ‘‘۔
کتاب ’’آریہ دھرم‘‘ میں حضورؑ نے قریباً سات سو افراد کے نام درج فرمائے ہیں جس میں بلاد متفرقات کے تحت آپؓ کا نام بھی ’’سید تفضل حسین صاحب تحصیلدار شکوہ آباد ضلع مین پوری ‘‘ مذکور ہے۔
حضورؑ نے اشتہار (24 فروری 1898ء) میں 316؍احمدی احباب کے نام گورنمنٹ کو پیش کیے ہیں جس میں آپ کا نام چھٹے نمبر پر موجود ہے۔ (کتاب البریہ)
حضورؑ نے ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ (حصہ عربی) میں ’’ذکر بعض الانصار – شکرًا لنعمۃ اللہ الغفار‘‘ کے تحت اپنے چند صحابہ کا ذکر کیا ہے جس میں آپ کو ’’حبّی فی اللہ السید محمد تفضل حسین اتاوی ‘‘ کے الفاظ سے یاد کیا ہے۔
حضرت خانصاحب ذوالفقار علی خانصاحب گوہرؓ کو حضرت سید صاحبؓ کے ذریعہ قبولِ احمدیت کی سعادت عطا ہوئی۔ حضرت خانصاحبؓ لکھتے ہیں کہ ’’ایک سادہ مزاج انسان، لباس صاف مگر سادہ، سانولا رنگ، چھریرہ جسم متین چہرہ تشریف لائے، ایڈیٹر صاحب ’البشیر‘ نے مجھ سے ان کا تعارف مستہزانہ لب و لہجہ میں کرایا ’’آپ قادیانی ہیں تفضل حسین صاحب شکوہ آباد ضلع مین پوری میں تحصیلدار ہیں ‘‘۔ میں پہلے تو معمولی طریق سے کھڑے ہوکر مصافحہ کر کے خاموش بے تعلق سا بیٹھ گیا تھا مگر اس تعارف کے بعد میں کھڑا ہوا اور نہایت ادب سے مصافحہ کرکے عرض کیا کہ ’’حضرت مرزا صاحب کا احترام میرے دل میں کافی ہے، عین سعادت ہے کہ آپ کی زیارت نصیب ہوئی۔‘‘ ایڈیٹر صاحب کا چہرہ حیرت کی تصویر تھا، منہ کھلا ہوا اور لب خشک، مجھے گھبرائی ہوئی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے … مولوی تفضل حسین صاحب مرحوم و مغفور حضرت کے بہت پرانے صحابی تھے اور ان کا عشق سلسلہ کے ساتھ مجنونانہ رنگ رکھتا تھا … بہت ہی محبت سے ملے اور فرمایا میرا گھر اسی شہر میں ہے کوئی شے درکار ہو تو منگوا لیا کرنا، وہ وقت گزر گیا پھر ان سے ملاقات عرصہ تک نہ ہو سکی۔
اکتوبر 1900ء میں بھون گاؤں تحصیل میں نائب تحصیلدار ہوکر تین ماہ کے لئے گیا۔ تحصیلدار مولوی تفضل حسین صاحب تھے۔ ہم دونوں کو جو خوشی حاصل ہوئی وہ ہر احمدی اندازہ کر سکتا ہے۔ … میری مدت نومبر کے اخیر میں ختم ہوتی تھی مگر تحصیل میں چارج لیتے ہی بعد وقت کچہری تحصیلدار صاحب مرحوم نے ’’ازالہ اوہام‘‘ مجھے دیا اور کہا کہ ہمیں پڑھ کر سناؤ۔ میں ان کے مردانہ نشست میں رہتا تھا کیونکہ تنہا تھا میرے لئے جو مکان تھا اُسے میں نے استعمال نہیں کیا۔ ازالہ اوہام دو تین دن میں ختم کردی … مطالعہ نے تسکین کردی اور بیعت کا سوال دل میں فوراً پیدا ہوگیا۔ میں نے استخارہ کیا… تبلیغ بھی شروع کردی۔ شرفائے قصبہ کہنے لگے کہ تحصیلدار صاحب کے ماتحت لوگ محض ان کے خوش رکھنے کے لئے عقیدت بدل لیتے ہیں بعد میں پھر ویسے ہی ہو جاتے ہیں اور ایک حکیم صاحب کی نظیر بھی پیش کی جو اٹاوہ کے تھے اور بعد میں فرخ آباد جاکر سلسلہ کے مخالف ہوگئے۔ … ایک دن تحصیلدار صاحب مرحوم و مغفور نے فرمایا کہ بیعت کا خط کیوں نہیں بھیج دیتے ہو۔ میں نے کہا کہ میں تو بیعت کر چکا ہوں، مبلغ بنا ہوا ہوں۔ رسمی خط ابھی نہیں بھیجا ہے کسی مصلحت سے۔ فرمایا یہ تو نفاق ہے۔ مجھے اس لفظ سے بہت تکلیف ہوئی۔ میں نے کہا کہ آپ اپنے عہدہ سے ناجائز فائدہ نہ اٹھائیں میری حالت کو نفاق سے اگر کوئی دوسرا تعبیر کرتا تو بہت سخت جواب پاتا۔ یہ کہہ کر میں اٹھ کھڑا ہوا اور اپنا اسباب ان کی مردانہ نشست سے اٹھا کر اپنے مکان میں رکھ لیا۔ دوسرے دن صبح ہی انہوں نے معذرت کا پرچہ لکھا اور معافی کی خواہش کی۔ میں نے ان کے محسن ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے ادب و احترام سابق کو پیش کیا وہ میرے پاس فوراً آگئے اور زبانی عذر کرنے لگے۔ میں نے وجہ عدم تحریر خط بیعت ہنوز ان سے مخفی رکھی۔ میں نے اسی شب میں کہ صبح اس تحصیل کو چھوڑ رہا تھا ایک چو ورقہ خط اپنے مفصل حال کا حضرت مسیح موعودؑ کو لکھا اور عرض کیا کہ میرا ایمان ہے کہ حضور کا دعویٰ بر حق اور صحیح ہے ۔۔۔۔ حضور اقدس نے قبولیت بیعت کا اظہار فرمایا ۔۔۔۔ یہ خط لکھ کر مولوی صاحب مرحوم کو جو 7 میل کے فاصلہ پر مصروف تحقیقات سرکاری تھے، دے دیا اور عرض کیا کہ اس نے بیعت کو بدنام ہونے سے بچانا تھا ۔۔۔۔ یہ بیعت کا پروانہ آغاز دسمبر 1900ء میں ملا تھا‘‘۔
حضرت منشی صادق حسین صاحبؓ ولد حکیم وارث علی صاحب یکے از 313 ( بیعت 7 اپریل 1889 ء ) بھی آپؓ کے ذریعہ داخل احمدیت ہوئے اور حضور کے سفر علی گڑھ کے موقع پر ہی بیعت کی۔
حضرت تفضل حسین صاحب غالباً 1896 ء میں تحصیل بہوگام میں بطور تحصیلدار متعین ہوئے۔ آپ کی تبلیغ سے قاضی تونگر علی صاحب نے (وفات 1928ء) احمدیت قبول کی لیکن اُنہیں حضرت مسیح موعودؑ کی زیارت کا موقعہ نہیں ملا۔
فروری 1904ء میں آپؓ گیارہ سال بعد قادیان تشریف لائے اور حضرت اقدس کی خدمت میں حاضری دی جس کی خبر اخبار ’’البدر‘‘ میں شائع ہوئی۔ قادیان کے اس سفر کے موقع پر آپؓ نے آٹھ افراد کے اسماء برائے بیعت حضورؑ کی خدمت میں پیش فرمائے جن میں آپؓ کے بیٹے سید سراج الحسن صاحب کلرک پولیس سٹیشن گرور ضلع مین پوری اور ان کے اہل خانہ کے علاوہ آپ کے اہل خانہ بھی شامل تھے۔
27 فروری 1904ء کو عید الاضحی تھی۔ اُسی شام جب آپؓ نے بعض دیگر مہمانوں کے ہمراہ واپسی کی اجازت چاہی تو حضورؑ نے آپؓ سے خطاب کرکے فرمایا کہ ’’آمدن بارادت رفتن باجازت ۔ آپ تو سمجھتے ہی ہیں کہ کب تک آپ کو ٹھہرنا چاہئے‘‘۔ پھر مزید فرمایا: ’’اب تو ان کو بھی فراغت ہے اور ایک عرصہ کے بعد آئے ہیں یہ بھی چند دن رہیں‘‘۔ ’’ضروری نصیحت یہ ہے کہ ملاقات کا زمانہ بہت تھوڑا ہے خدا معلوم بعد جدائی کے دوبارہ ملنے کا اتفاق ہو یا نہ ہو یہ دنیا ایسی جگہ ہے کہ دم بھر کا بھروسہ نہیں‘‘۔
چنانچہ آپؓ نے حضورؑ کے ارشاد پر کچھ دن مزید قیام کیا۔ جب آپؓ واپس تشریف لے گئے تو اُسی سال 3؍ نومبر 1904ء کو اٹاوہ میں وفات پائی۔