حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب رضی اللہ عنہ
حضرت سید محمد سرور شاہ صاحبؓ کا ذکر خیر روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 28 و 29؍جنوری 1999ء میں مکرم مرزا محمد اقبال صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
حضرت مولوی صاحبؓ 10؍ستمبر 1855ء میں ضلع مظفر آباد (کشمیر) کے قصبہ گھنڈی میں محترم سید محمد حسن شاہ صاحب کے ہاں پیدا ہوئے جو حضرت عبدالقادر جیلانیؒ کی اولاد میں سے تھے۔ اس خاندان کو ہزارہ اور شمالی کشمیر میں بہت توقیر حاصل تھی۔ قرآن کریم ناظرہ اور ابتدائی تعلیم کے بعد آپ کے والد نے آپ کو زمینداری کے کام پر لگادیا۔ ایک روز آپ نے اپنے والد کو ’’گلستان‘‘ کی مدد سے فارسی میں خط لکھا تو انہیں دوبارہ آپ کی تعلیم کی طرف توجہ ہوئی۔ چنانچہ آپ 13؍سال کی عمر میں مزید تحصیل علم کے لئے اپنے وطن سے نکلے اور مختلف اساتذہ سے صرف و نحو، منطق و فلسفہ اور طب کی تعلیم حاصل کرکے دیوبند تشریف لے گئے اور حدیث کی تعلیم حاصل کی۔ پھر لاہور اور بعض دیگر جگہوں پر جاکر قرآن کریم، ہدایۃالنحو، مشکوٰۃ اور بہت سی کتب پڑھیں۔ تحصیل علم کی خاطر آپؓ نے بہت صعوبتیں برداشت کیں۔ فارغ ہوکر آپ مدرسہ مظاہرالعلوم سہارنپور میں دو سال مدرس رہے۔
آپ کے والد صاحب حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کے معتقد تھے اور اُن کے ارشاد پر آپ اپنے لاہور میں قیام کے دوران حضرت مولوی صاحبؓ کے لاہور تشریف لانے پر اُن کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے تھے۔ آپؓ نے حضرت مسیح موعودؑ کا نام بھی سن رکھا تھا اور تلاش حق شروع کردی تھی۔ 1892ء میں دیوبند جاتے ہوئے جب آپ ایک دفعہ لدھیانہ میں ٹھہرے تو حضور علیہ السلام بھی وہاں تشریف لائے ہوئے تھے۔ چنانچہ آپؓ تین گھنٹہ تک حضرت اقدسؑ کی صحبت سے فیضیاب ہوتے رہے۔ بعد میں مختلف خوابوں سے دل نے تسلی پائی اور پھر ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ کا مطالعہ کیا تو یکم مارچ 1897ء کو احمدیت قبول کرلی۔ آپؓ کے اعلانِ بیعت کے ساتھ ہی آپؓ کو ملازمت سے برخواست کردیا گیا چنانچہ آپ مشن کالج پشاور میں پروفیسر مقرر ہوگئے اور آپ کی تنخواہ 180؍روپے مقرر ہوئی۔ یہیں سے حضرت مسیح موعودؑ کے ارشاد پر آپؓ ملازمت ترک کرکے قادیان چلے آئے اور نہایت قلیل گزارہ پر قانع ہوکر نہایت خلوص اور فدائیت کے ساتھ سلسلہ کی خدمت بجالانے لگے۔ حضرت اقدسؑ نے ایک بار حضرت مولوی صاحبؓ سے فرمایا کہ خدا نے مجھے جو فراست دی ہے اس کے ساتھ میں آپؓ میں رشد اور سعادت دیکھتا ہوں۔
آپؓ کے والد حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کی محبت کی وجہ سے پہلے مخالفت نہیں کرتے تھے لیکن بعد میں دیگر علماء کی طرح حد سے زیادہ مخالف ہوگئے۔ مگر حضرت مولوی صاحبؓ کی دعائیں آپ کے والد صاحب کے حق میں قبول ہوئیں اور بالآخر انہوں نے بھی احمدیت قبول کرلی۔
حضرت اقدسؑ کے بعض سفروں میں آپؓ کو رفاقت کی سعادت نصیب ہوئی۔ چنانچہ 1903ء میں جہلم بھی تشریف لے گئے۔ 1907ء میں جب حضرت مسیح موعودؑ کی وقف کی تحریک پر آپؓ نے لبیک کہا تو حضورؑ نے آپؓ کی درخواست پر تحریر فرمایا: ’’آپ کو اس کام کے لائق سمجھتا ہوں۔‘‘
مُدّ کے مباحثہ میں آپؓ کو حضورؑ نے جماعت کا نمائندہ بناکر بھجوایا اور آپؓ کی مباحثہ میں کامیابی کا ذکر اپنی کتاب ’’اعجاز احمدی‘‘ میں یوں فرمایا کہ ’’ اللہ تعالیٰ نے آپ کو روح امین سے قوت دی‘‘ اور آپؓ کو غضنفر یعنی شیر کا خطاب بھی دیا ۔ اسی طرح نواب صاحب رامپور نے جب احمدی مسائل پر گفتگو کرنے کی خواہش کی تو حضورؑ نے آپؓ کو منتخب فرمایا۔
حضرت اقدسؑ کے بعض نشانات کا گواہ بننے کا اعزاز بھی آپ کو حاصل ہوا۔ چنانچہ ’’حقیقۃالوحی‘‘ کے صفحہ 57 پربھی آپؓ کا نام تحریر ہے۔ حضورؑ کے دور میں آپؓ کو نمازیں اور جمعے پڑھانے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ حضورؑ نے آپؓ کو مسجد اقصیٰ کا امام مقرر فرمایا۔ حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کی غیرحاضری میں آپؓ ہی قرآن شریف کا درس بھی دیا کرتے تھے۔ آپؓ کی قرآن کریم کی تفسیر حضور علیہ السلام اور حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کے عہد کے دوران جماعتی رسائل میں شائع ہوتی رہی۔
خلافت اولیٰ کے دور میں بھی آپؓ کو متعدد نمازیں پڑھانے اور خطبات دینے کی سعادت عطا ہوئی اور مجلس نصاب مدرسہ احمدیہ کے رکن بھی منتخب ہوئے۔
حضرت مولوی صاحبؓ نہایت عابد و زاہد اور متقی بزرگ تھے۔ آپؓ کی نماز کی پابندی کے بارے میں یہ واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ جب آپؓ کی بیٹی حلیمہ بیگم صاحبہ نزع کی حالت میں تھیں تو نماز کا وقت ہوگیا۔ آپؓ نے بچی کا ماتھا چوما اور سر پر ہاتھ پھیرا اور خدا کے سپرد کرکے مسجد چلے گئے۔ نماز کے بعد جب جلدی سے واپس آنے لگے تو کسی نے وجہ دریافت کی۔ آپؓ نے فرمایا کہ نزع کی حالت میں بچی کو چھوڑ آیا تھا۔ اب فوت ہوچکی ہوگی، اس کے کفن دفن کا انتظام کرنا ہے۔ چنانچہ بعض دوست گھر تک ساتھ آئے توبچی وفات پاچکی تھی۔
حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحبؓ ابھی بچہ ہی تھے کہ اُن کے بلند مرتبہ و مقام کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مولوی صاحبؓ کو خبر دیدی تھی چنانچہ آپؓ فرماتے ہیں کہ اس بات کا علم ہونے کے بعد سے مَیں نے اُس کلاس میں ہمیشہ کھڑے ہوکر پڑھایا ہے اور بیٹھ کر پڑھانے کو سُوئے ادب خیال کیا ہے جس میں حضرت میاں صاحبؓ موجود ہوتے۔
حضرت مولوی صاحبؓ نے حضرت مصلح موعودؓ کے حضرت مریم صاحبہ (سیدہ امّ طاہر صاحبہؓ) اور حضرت سیدہ عزیزہ بیگم صاحبہ کے ساتھ نکاحوں کا اعلان بھی کیا۔ آپؓ نے تربیت اور دعوت الی اللہ کے لئے ہندوستان میں متعدد مقامات کے بے شمار سفر کئے۔ دور خلافت ثانیہ میں آپؓ رکن مجلس معتمدین، افسر مدرسہ احمدیہ، پروفیسر اعلیٰ، سیکرٹری بہشتی مقبرہ، جنرل سیکرٹری، ناظر تعلیم و تربیت، ناظم جلسہ سالانہ اندرون شہر، افسر مال، رکن شوریٰ، 1924ء میں انتظامیہ کمیٹی کے رکن، افسر مساجد مرکزیہ، مفتی سلسلہ، امیر مقامی، پرنسپل جامعہ احمدیہ اور پرنسپل جامعۃالواقفین بھی رہے۔
حضرت مولوی صاحبؓ نے دو شادیاں کیں جن سے کُل چار بیٹیاں اور دو بیٹے اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائے۔
یکم جون 1947ء کو پیرانہ سالی کے باعث آپؓ پر اُس وقت بے ہوشی کی کیفیت طاری ہوگئی جب آپ حضرت مصلح موعودؓ کی ایک مجلس عرفان میں شریک تھے اور پھر 3؍جون1947ء بروز جمعہ اسی حالت میں وفات ہوگئی۔ حضرت مصلح موعودؓ نے آپؓ کا جنازہ پڑھایا، نعش کو کندھا دیا، اپنے دست مبارک سے قبر پر مٹی ڈالی اور قبر تیار ہونے پر دعا کروائی۔ قطعہ خاص بہشتی مقبرہ قادیان میں آپؓ کی تدفین ہوئی۔
6؍جون 1947ء کو خطبہ جمعہ میں حضورؓ نے حضرت مولوی صاحبؓ کا تفصیلی ذکر خیر کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ: ’’میں نے کئی دفعہ دیکھا کہ حضرت خلیفہ اول درسی کتب کے بعض مشکل مقامات کے متعلق مولوی سید سرور شاہ صاحبؓ سے فرماتے کہ آپ اس کا مطالعہ کرکے پڑھائیں، مجھے اس کی مشق نہیں۔ چنانچہ مولوی صاحب وہ مشکل مقامات طالبعلموں کو پڑھاتے۔ … ان میں محنت کی عادت تھی کہ میں نے جماعت کے اور کسی شخص میں نہیں دیکھی۔ اگر مجھے کسی کی محنت پر رشک آتا تھا تو وہ مولوی صاحب ہی تھے۔ … وصیت کا انتظام مولوی سید سرور شاہ صاحب کا ممنون احسان ہے‘‘۔