حضرت سید محموداللہ شاہ صاحبؓ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 24؍اپریل 2003ء میں حضرت سید محموداللہ شاہ صاحبؓ کا ذکر خیر کرتے ہوئے مکرم مولوی محمد ابراہیم بھامبڑی صاحب رقمطراز ہیں کہ آپؓ خوبیوں کا حسین مرقع اور فضائل کا شیریں جام تھے۔ مجھے آپؓ کے ساتھ 1947ء تا 1952ء کام کرنے کا موقع ملا جب آپؓ تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ہیڈماسٹر تھے اور مَیں دینیات کا استاد تھا۔ سکول قادیان سے چنیوٹ منتقل ہوا تو ہر چیز اُلٹ پلٹ ہوچکی تھی۔ سکول میں نہ فرنیچر تھا نہ بورڈنگ ہاؤس، اساتذہ بکھر چکے تھے۔ آپؓ نے چند ہی روز میں سب کچھ تیار کرلیا۔ بورڈنگ کے لئے تین عمارتیں مل گئیں جس کا کام آپؓ نے میرے سپرد کردیا۔ آپؓ کی دعاؤں اور مقناطیسی کشش سے سکول اور بورڈنگ طلباء سے بھر گیا۔ سکول کی نیک نامی تھی کہ اسلامیہ ہائی سکول چنیوٹ کے طلباء اپنا سکول چھوڑ کر ہمارے سکول میں داخل ہونے لگے اور چنیوٹ کے مقامی طلباء گھروں میں رہنے کی بجائے بورڈنگ میں داخل ہونے لگے۔ کام اور نگرانی کو بہتر بنانے کے لئے روزانہ ایک ٹیچر کو ’’ڈے ماسٹر‘‘ مقرر کیا جاتا تھا جس سے سکول میں نظم و نسق بہت بہتر ہوتا تھا۔
آپؓ قرآن کریم کے حافظ تھے اور قرآن کریم سے آپؓ کو عشق تھا۔ چھٹی سے دسویں تک کی ہر کلاس کے ذمہ آپؓ نے چھ چھ پارے حفظ کے لئے کر رکھے تھے اور اس طرح ہر طالبعلم کو قرآن کریم کا کچھ حصہ زبانی یاد ہوتا تھا۔ چنانچہ اگر سارے طلباء اکٹھے ہوں تو سارا قرآن مجید زبانی سنا جاسکتا تھا۔ نمازوں کی حاضری لگتی تھی۔ آپؓ نے مجھے امام الصلوٰۃ مقرر کیا ہوا تھا بلکہ شہر کی مسجد میں جمعہ بھی پڑھانے کی ذمہ داری میری تھی۔
آپؓ اپنے ماتحت ساتھیوں کا بہت خیال رکھتے تھے اور اُن کی دلجوئی فرمایا کرتے تھے۔ ایک بار مجھے شاٹیکا کے درد کا عارضہ ہوا تو آپؓ میری عیادت کے لئے آئے اور پوچھا کہ اگر مَیں پسند کروں تو مجھے لاہور بھجوادیا جائے۔ مَیں نے کہا کہ مجھے یہاں زیادہ آرام ہے۔ اسی طرح ساتھیوں پر بہت اعتماد تھا۔ ایک بار خاصی بڑی رقم لاکر مَیں نے آپؓ کو دی اور کہا کہ اسے گِن لیں۔ آپؓ نے رقم جیب میں رکھتے ہوئے کہا کہ آپ نے جو گِنی ہوئی ہے۔
اساتذہ کی کارکردگی کا باقاعدگی سے جائزہ لیا کرتے تھے۔ آپؓ کا طریق تھا کہ کلاس کے عقبی دروازہ سے داخل ہوکر خاموشی سے طلباء کے ساتھ آکر بیٹھ جاتے تھے اور جائزہ لیتے کہ استاد کیسے پڑھاتے ہیں۔ پھر حوصلہ افزائی بھی فرماتے اور اگر کوئی کمزوری دیکھتے تو بغیر نام لئے واعظانہ طور پر سمجھا دیتے۔ کبھی آپؓ کو ماتحت اساتذہ پر ناراض ہوتے نہیں دیکھا۔ اُن کے وقار اور عزت کے محافظ تھے۔ ایک بار کسی استاد نے ایک لڑکے کی نازیبا حرکت پر اُس کو بید مارے۔ اُس نے حکام بالا کے پاس شکایت کی۔ حکام نے وہ معاملہ آپؓ کی خدمت میں بغرض تحقیق بھجوایا۔ آپؓ نے استاد اور پھر لڑکے کو بلاکر پوچھا اور پھر حکام کو لکھ دیا کہ مکرم استاد صاحب نے عین میری منشاء کے مطابق اصلاح اور تادیب کی خاطر مناسب سزا دی ہے۔ چنانچہ شکایت داخل دفتر ہوگئی۔ سکول میں جو انسپکٹر آتے وہ بھی آپؓ کے اخلاق سے بہت متأثر ہوتے۔ شروع شروع میں طلباء کے پاس پوری کتابیں بھی نہیں تھیں، کھانے پینے کی اشیاء کی بھی دقّت تھی، چنیوٹ میں بجلی بھی نہیں تھی لیکن آپؓ کی مساعی اور دعاؤں سے ہمارا سکول ہر میدان میں ضلع بھر میں اوّل آتا۔ میٹرک کا نتیجہ شاندار ہوا کرتا۔
آپؓ کی رہائش شہر سے باہر تھی۔ آپؓ وہاں سے روانہ ہوتے تو سالم تانگہ کروالیتے اور راستہ میں جو استاد بھی ملتا اُسے بھی اپنے ساتھ بٹھالیتے۔ مجھے بھی کئی بار یہ موقع ملا۔ حقیقت یہ ہے کہ آپؓ سیدالقوم خادمھم کی عملی تفسیر تھے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں