حضرت سید محمود شاہ صاحبؓ اور حضرت میاں عبدالکریم صاحبؓ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 16؍جون 2007ء میں مکرم بشارت احمد صاحب کے قلم سے دو صحابہ کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔
حضرت سید محمود شاہ صاحبؓ موضع فتح پور ضلع گجرات کے رہنے والے تھے اور اپنے زمانہ میں علاقہ میں ولی اللہ مشہور تھے۔ اردگرد کے چار پانچ دیہات میں آپ کا درس مشہور تھا اور ان دیہات کے بعض بچے آپ کے پاس قرآن کریم پڑھنے آیا کرتے تھے جن میں ہمارے والد حضرت میاں عبدالکریم صاحبؓ بھی شامل تھے۔
ایک رات حضرت سید محمود شاہ صاحب نے ہمارے دادا محترم میاں علی احمد صاحب کو چھت پر بلایا اور بتایا کہ وہ دیکھو آسمان پر دمدار ستارہ نکلا ہے، یہ امام مہدی کے آنے کی ایک نشانی ہے۔
حضرت شاہ صاحب عموماً فتح پور سے نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے نو میل پیدل چل کر گجرات جایا کرتے تھے۔ ہمارے والد محترم بھی ہمراہ ہوتے تھے۔ ایک دن آپ کو ایک اشتہار ملا جس پر حضرت مسیح موعودؑ کا پتہ بھی تھا۔ چنانچہ آپ گجرات سے پیدل قادیان چلے گئے۔ وہاں مسجد مبارک میں حضورؑ تشریف فرما تھے۔ آپ نے سلام عرض کیا اور بیعت کے لئے ہاتھ بڑھادیا۔ اورکوئی بات نہ پوچھی۔ آپ کا نام حضورؑ نے کتاب ’’انجام آتھم‘‘ میں 313 اصحاب کی فہرست میں 206ویں نمبر پر درج فرمایا ہے۔
جب آپؓ بیعت کرکے واپس فتح پور آئے تو مخالفت شروع ہوگئی لیکن آپ کی تبلیغ سے جلد ہی ایک نمبردار اور بعض دیگر افراد احمدی ہوگئے۔ ایک جمعہ کے دن آپؓ جمعہ پڑھنے کیلئے مسجد میں آئے اور کہا کہ نماز چھوٹی کرلیں آج ہماری تیاری ہے۔ اُسی روز رات کو آپؓ کی وفات ہوگئی۔ اُس وقت گاؤں کے کافی لوگ آپؓ کے پاس جمع تھے اور ہمارے والد صاحب آپؓ کا سر دبا رہے تھے۔ آپؓ نے حضرت والد صاحب سے فرمایا: عبدالکریم آج سے میرے گھر سے درس اٹھ گیا ہے اور تمہارے گھر لگ گیا ہے۔ اس کے بعد والد صاحب نے پڑھانا شروع کر دیا۔ درس آج بھی جاری ہے جس سے ابھی تیسری نسل مستفید ہو رہی ہے۔
ہمارے والد حضرت میاں عبدالکریم صاحبؓ نے 1903ء میں اُس وقت دستی بیعت کا شرف حاصل کیا جب حضرت مسیح موعود مقدمہ کرم دین بھیں کے سلسلہ میں جہلم تشریف لائے۔ آپؓ پیدل چل کر جہلم گئے تھے۔ لاہور جاکر بھی زیارت کی جب حضورؑ پر ایک لیکچر کے دوران کسی دشمن نے حملہ کرنے کی کوشش بھی کی تھی۔ قادیان جاکر جلسہ سالانہ میں بھی شرکت کی توفیق پاتے رہے۔
محترم والد صاحب بہت متقی اور بزرگ انسان تھے۔ نماز جمعہ اور تہجد میں باقاعدگی تھی۔ لمبا عرصہ اپنی جماعت کے سیکرٹری مال رہے اور روزانہ دوپہر بارہ بجے تک ہل چلانے کے بعد پھر کھانا کھا کر گدھی لے کر نکل جاتے اور قریبی گاؤں سے چندہ جمع کرتے جو عموماً اجناس کی شکل میں ہوتا۔ آپؓ کو سب لوگ میاں جی کہتے تھے۔ گھر میں قرآن کریم کا درس بھی ہوتا تھااور ہماری دو مائیں بچوں کو قرآن کریم پڑھایا کرتی تھیں۔
جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں پہلا بچہ عطا فرمایا تو وہ تین چار ماہ کی عمر میں اتنا بیمار ہو گیا کہ آخری وقت معلوم ہوتا تھا۔ محلہ کی تمام عورتیں اور عزیز رشتہ دار بھی آ گئے۔ ایسے میں والد صاحب نے بچے کے پاس بیٹھ کر اُس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور مجھے اور بچے کی امی کو مخاطب کر کے فرمایا: اگر کہو تو یہ بچہ ہم خدا کو دے دیں۔ جس پر ہم سب نے کہا بچہ تو کیا ہم سب تو خدا کے ہی ہیں۔ آپ نے فرمایا: نہیں میرا مقصد ہے کہ اس بچے کو وقف کر دیں تاکہ وہ دین کی خدمت کرے۔ آگے خدا کی مرضی اس کو رکھے یا لے جائے۔ ابھی یہ بات ہورہی تھی کہ گلی سے ایک ڈاکٹر صاحب گزرے۔ مَیں بھاگا اور اُنہیں بلا لایا۔ انہوں نے بچے کو دیکھا اور تین پڑیاں کھلانے کے لئے دیں۔ پہلی پڑیا کے پانچ منٹ بعد بچے نے آنکھ کھول دی۔ دوسری پڑیا دینے پر شام تک بچہ خدا کے فضل سے ٹھیک ہوگیا۔ تیسری پڑیا پھر نہیں دی۔ یہ بچہ (مکرم منور احمد خورشید صاحب) بعد میں سینیگال میں امیر و مبلغ انچارج رہا۔
خلیفۂ وقت کی اطاعت کا یہ حال تھا کہ حضرت مصلح موعودؓ کے نوجوانوں کو فوج میں بھرتی کروانے کا ارشاد سن کر آپؓ نے مجھے بھرتی کروادیا اور یوں 1943ء سے 1946ء تک مَیں فوج میں رہا۔ آپؓ اپنے خاندان میں اکیلے احمدی تھے اور آپؓ نے دین کی خاطر ساری برادری چھوڑ دی۔ کئی ابتلاء بھی آئے اور شدید مخالفت بھی ہوئی لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ مدد فرمائی۔ ایک بار گاؤں میں ہمارا سوشل بائیکاٹ کیا گیا تو ایک دھڑلے والی عورت ہمارا سودا اور پانی بھرکے لاتی رہی۔ اسی طرح ایک بڑا بدمعاش جو اگر کسی زمیندار کو کہتا تھا کہ اپنی فصل کاٹ کر میری گھوڑی پر رکھ دو تو زمیندار کو انکار کی جرأت نہیں ہوتی تھی۔ اُس نے ایک رات ہمارے والد صاحبؓ کو اپنی فصل کی طرف جاتے دیکھا تو وہ آپ سے کہنے لگا: آپ واپس گھر چلے جائیں اگر آپ کا ایک گانٹھ نقصان ہوا تو میں دس گانٹھ آپ کو دوں گا، رات کو سردی میں آپ نہ آیا کریں۔
حضرت میاں جیؓ کی عزت و تکریم صرف احمدی ہی نہ کرتے تھے بلکہ غیر از جماعت افراد کے دلوں میں قرآن کریم کی تعلیم دینے کی وجہ سے بڑی تو قیر تھی۔