حضرت سیّدہ امتہ السبوح بیگم صاحبہ مد ظلہا کی خلفاء کرام سے وابستہ چند یادیں
حضرت سیّدہ امتہ السبوح بیگم صاحبہ مد ظلہا (حرم حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز) کے چار خلفائے احمدیت کے ساتھ روحانیت کے عظیم رشتے کے علاوہ جسمانی قریبی رشتہ داریوں کے بندھن بھی وابستہ ہیں۔ آپ کو اِن بابرکت وجود وں کے اعلیٰ اور پاک خصائل اور روحانی جلوے دیکھنے کے مواقع حاصل ہوئے اور ان کی شفقتیں، محبتیں اور نوازشیں نصیب ہوتی رہیں۔ جماعت احمدیہ برطانیہ کے ’’خلافت سوونیئر‘‘ کے ایک مضمون (مرتبہ مکرمہ امۃالمجیب جاوید صاحبہ) میں حضرت بیگم صاحبہ مدظلہا نے اس حوالہ سے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ
حضرت سیّدہ بیگم صاحبہ فرماتی ہیں کہ سندھ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کی زمینوں کی نگرانی میرے ابّا جان کے سپرد ہوتی تھی اور حضور ؓ اکثر ان زمینوں کے دورہ کے لئے سندھ تشریف لاتے تھے۔ ہمارے گھر کے ساتھ حضورؓ کا علیحدہ دو کمروں کا گھر تھا مگر صحن ایک تھا۔ جب سندھ کے آخری دورہ پر تشریف لائے تو میں اُس وقت بہت چھوٹی تھی لیکن حضور ؓ کے ساتھ زمینوں پر پھرا کرتی تھی۔ میرے بچپن کی یادوں میں حضور ؓ کا سراپا ایک بہت ہی پُرنور خاص قسم کی گلابی چمک سے دمکتا ہوا روشن چہرہ، سفید براق ململ کے سفید کُرتہ اور سفید شلوار میں ملبوس سادگی اور بے تکلفی سے گھر کے صحن میں بچھی چارپائی پر تشریف فرما ایک نورانی وجود، ایک مشفق و مہربان لیکن بہت بارعب شخصیت کا ہے۔
سندھ میں حضورؓ نے اپنی زمینوں پر پارٹیشن کے وقت ایک احمدی خاندان آباد کیا تھا۔ اُن کی ایک خاتون کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں تھی۔ اُس کو بوبو کہتے تھے۔ ایک دفعہ حضورؓ سندھ تشریف لائے تو نماز کا وقت ہونے پر پہریداروں نے بوبو سے کہا کہ حضورؓ کو جا کر کہو کہ حضور نماز تیار ہے۔ حضورؓ نے اس پیغام پر فرمایا کہ اچھا میں ابھی آتا ہوں۔ مگر بوبو نے پہریداروں سے کہہ دیا کہ حضور ؓ نے فرمایا ہے کہ آپ نماز پڑھ لیں۔ کچھ دیر کے بعد حضورؓ نماز پڑھانے تشریف لائے تو علم ہوا کہ نماز تو بوبو کے کہنے پر ہوگئی ہے۔ یہ سن کر حضورؓ خاموشی سے اندر چلے گئے تو پہریدارنے ڈانٹنے کیلئے بوبو کو آواز دی۔ اس پر حضور ؓ واپس تشریف لائے اور فرمایا کہ اس کو کچھ نہ کہیں یہ تو بیوقوف ہے۔ بوبو نے بہت مزے لے کر تالیاں بجاتے ہوئے یہ ساراقصّہ میری اُمّی کو سنایا۔
حضورؓ بچوں کی بہت دلجوئی فرماتے۔ اپنے آخری دورۂ سندھ میں حضور ؓ ہم بہنوں کے لئے فراکیں اور بھائیوں کے لئے کھلونے لائے۔ خوبصورت کھلونے پا کر بھائی مجھے چڑانے لگے تو میں بہت رنجیدہ ہوگئی۔ حضور ؓ نے میری اُمی سے میرے رنج اور اُداسی کی وجہ دریافت فرمائی۔ معلوم ہونے پر بہت ہی شفقت سے مجھے چاندی کے پانچ روپے دیئے۔ حضورؓ کی اس خصوصی شفقت نے میرے رنج کو ناقابل بیان خوشی میں بدل دیا۔
ربوہ میں ہم حضرت مہر آپا صاحبہ کے پاس آکر ٹھہرا کرتے تھے۔ حضورؓ کی رہائش قصر خلافت کے اُوپر والے حصّہ میں تھی۔ ایک دفعہ حضورؓ چھوٹا قرآن مجید ہاتھ میں لئے ٹہل ٹہل کر تلاوت کر رہے تھے۔ میرا بچپن کا زمانہ اور ناسمجھی کی عمر تھی۔ میں محویت سے حضور ؓ کی تلاوت سن رہی تھی کہ اچانک حضورؓکی توجہ اپنی جانب پاکر میں نے شرماکر دروازہ کے پیچھے منہ چھپا لیا۔ حضور ؓ میرے قریب آئے اور پیار بھرے لہجہ میں فرمایا کہ ہم تو قرآنِ کریم کی تلاوت کر رہے ہیں اور تم نے قرآن کی طرف پیٹھ کرلی، جاؤ ہم تم سے نہیں بولتے۔ حضرت مصلح موعود ؓ کی اس پیار بھری سرزنش میں بھی ایک محبت اور شفقت کے ساتھ تربیت کا پہلو نظر آتا ہے۔ آپؓ بچوں کے دل میں قرآنِ پاک کی عظمت و احترام پیدا کرنا چاہتے تھے۔
جب میں نے آٹھویں کا امتحان دیا ہو ا تھا تو حضرت سیّدہ مہر آپا صاحبہ کے ہاں حضورؓ کی باری تھی۔ انہوں نے حضورؓ کو بتایا کہ سبوح پاس ہو گئی ہے۔ ساتھ ہی میں نے بھی کڑک دار سلام کردیا۔ حضور ؓ نے ہنس کر فرمایا: ’’بشریٰ اس کو پاس ہونے کا انعام پانچ روپے دیدو۔‘‘ اپنی کامیابی کی خوشی تو تھی ہی مگر انعام پاکر میری خوشی کئی گنا بڑھ گئی۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ
ہم حضورؒ کو خلافت سے قبل بھی اکثر ملنے جایا کرتے تھے مگر انتخابِ خلافت کے بعد آپ ؒ کے چہرہ پر خاص قسم کا نور اور دلکش چمک نمایاں نظر آتی تھی۔ آپؒ نے جب حضور (حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد ایدہ اللہ تعالیٰ) کو غانا بھجوایا تو اُس وقت نائیجیریا میں حکومت کے سکول سے ڈیمانڈ آئی تھی لیکن حضورؒ نے فرمایا کہ یہ واقف زندگی ہے اس لئے اس کو اپنے سکول میں بھجوانا ہے۔ چنانچہ حضور ایدہ اللہ کو غانا روانہ کرتے ہوئے حضورؒ نے فرمایا کہ تمہارے پاؤں کی ٹھوکر سے وہاں سونا نکلے گا۔ حضور ایدہ اللہ کی رونگی 1977ء میں ہوئی تھی اور مَیں 1978ء میں غانا گئی۔ اس دوران عید آئی تو حضورؒ نے سب کو جن کے خاوند باہر گئے ہوئے تھے دو دو روپے عیدی دی لیکن مجھے چار روپے دیئے۔ دو میرے اور دو حضور ایدہ اللہ کے لئے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ جب غانا کے دورہ پر تشریف لائے تو آپؒ کے لئے ناشتہ، کھانا اور چائے وغیرہ کے سب انتظامات میرے سپرد تھے اور میں بہت خوشی اور شوق سے سب چیزیں تیار کر کے لے کر جاتی تھی۔ حضرت ممانی جان کی طبیعت بہت احتیاط والی تھی اس لئے میں روزانہ بہت احتیاط اور توجہ سے تازہ بتازہ کھانا تیارکرتی تھی۔ حضور ؒکی خدمت میں بھجوانے سے قبل خود چکھتی اور پوری تسلی کرکے بھجوایا کرتی تھی۔ میرے ہاتھ کا بنا ہوا کھانا پسند فرماتے۔حضور ؒ نے کبھی کسی کھانے والی چیز کی بُرائی نہیں کی۔ پہلے تھوڑا سا لیتے اور پسند آنے پر وہ چیز دوبارہ لے لیا کرتے تھے۔ حضورؒ کے ساتھ پانچ دن کے دورہ پر اور پکنک وغیرہ پر بھی ساتھ جانے کا موقع ملا۔ اُس وقت ہمارے دونوں بچے بہت چھوٹے تھے۔ سفر کے دوران بھی اگر کبھی کسی بچہ کے رونے کی آواز آتی تو بڑی شفقت سے دریافت فرماتے اور ہر طرح سے خیال رکھتے۔
حضرت خلیفہ ثالث ؒ اپنے دورہ کے دوران ایسارچر سکول ( جہاں حضور ایدہ اللہ پرنسپل تھے ) بھی تشریف لائے۔ استقبالیہ کا انتظام ہمارے گھر میں تھا۔ ہمارا بیڈ روم ایک بڑے ہال کے اندر تھا جہاں مرد مہمانوں کا انتظام تھا اس وجہ سے حضور ؒ کے بیٹھنے اور چائے وغیرہ کا انتظام برآمدہ میں Guest Room میں کروایا گیا تھا۔ حضور ؒ نے مجھ سے پوچھا کہ یہ تمہارا بیڈ روم ہے ؟ میں نے مجبوری بتا کر کہا کہ یہ گیسٹ روم ہے۔یہ سن کر حضور ؒ نے مسکرا کر شفقت بھرے لہجے میں فرمایا کہ تم ہمیں مہمان سمجھتی ہو ؟ دراصل اس پیار بھرے شکوہ میں بھی اپنائیت کا اظہار تھا۔اُس گھر میں پوری سہولیات نہیں تھیں۔ حضرت ممانی جان (حرم حضرت خلیفہ ثالثؒ) کو حالات دیکھ کر بہت رحم آیا اور فرمانے لگیں کہ یہ ٹھیک کیوں نہیں کرواتے ؟ میں نے بتایا کہ یہ گھر کسی کا ہے، اپنا نہیں ہے۔ اس پر حضورؒ نے حضور ایدہ اللہ کو مخاطب کرکے فرمایا کہ ’’جب میں اگلی بار آئوں تو آپ کو اپنے گھر میں ہونا چاہئے‘‘۔ اُن دنوں حالات ایسے تھے کہ سیمنٹ کی ایک بوری لینا بھی مشکل تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے بندہ کے منہ کی بات (جس میں یقینا دعا بھی شامل ہوگی) کو یوں پورا فرمایا کہ جب حضورؒ کی وفات ہوئی تو اُن دنوں ہم اپنے مکان میں شفٹ ہو رہے تھے۔
حضورؒ واقفین زندگی کے لئے بہت درد مند دل رکھتے تھے اور چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کا خیال فرماتے۔ غانا سے روانگی کے وقت Nappies وغیرہ رکھنے کے لئے کچھ shoppers اور خالی شیشیاں مصالحے رکھنے کے لئے دیں۔ میںنے اور واقفین کی بیویوں نے مِل کر حضرت ممانی جان کو تحفہ دیا تو حضور ؒ نے فرمایا کہ چپکے سے میرے کان میں بتا دو کہ کتنے کا ہے ؟ منصورہ بیگم کو پتہ نہ لگے۔ حضور ؒ کی یہ پیاری سی بات آج بھی مجھے خوب یاد ہے کہ تحفے کی قدرافزائی کے ساتھ ہی یہ احساس بھی کہ کہیں زیادہ بوجھ تو نہیں پڑا۔
غانا میں مَیں نے ایک مُنذر خواب دیکھی تو شدید گھبراہٹ ہوئی جو باوجود دعا کے ختم نہیں ہو رہی تھی۔ مجھے حضرت مصلح موعودؓ کا فرمان یاد آیا کہ احمدی جب خلیفۂ وقت کو خط لکھتا ہے تو خط پہنچنے سے پہلے ہی دعا کی تحریک ہوجاتی ہے۔ تو میں نے فوراً حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی خدمت میں دعا کا خط لکھا اور اپنی کیفیت بھی لکھی۔ ابھی خط پوسٹ بھی نہیں ہو اتھا کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے بےچینی اور گھبراہٹ ختم ہوگئی۔
حضور ؒ کی وفات کی اطلاع ہمیں امیر صاحب کے خط کے ذریعہ رات کو ملی۔ حضور ایدہ اللہ ٹارچ کی روشنی میں وہ خط پڑھ رہے تھے اور پڑھتے ہوئے آپ کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ حالانکہ حضور ایدہ اللہ بہت مضبوط حوصلے کے مالک ہیں۔یہ دیکھ کر میں بھی پریشان ہو گئی اور فوراً میرا دھیان اپنے اور حضور کے والدین کی طرف گیا لیکن اصل حقیقت کا علم ہونے پر میری بھی وہی کیفیت ہو گئی اور شدت سے یہ احساس ہوا کہ خلیفۂ وقت کے ساتھ محبت و اخوت کا تعلق ایسا بے لوث جذبات سے پُر روحانی باپ کا ساہوتا ہے جو تمام دنیوی محبتوں کے رشتوں پر حاوی ہوجاتا ہے۔ صبح نمازِ فجر کے بعد ہم روانہ ہوئے۔غم سے بوجھل دل اور لبوں پر دعائیں۔ اُس وقت میرے دل میں یہ خیال آنا شروع ہوا کہ حضرت مرزا طاہر احمد اگلے خلیفہ ہوں گے۔ میرے دماغ نے حضرت علیؓ کا موازنہ حضرت خلیفہ رابعؒ سے کرنا شروع کردیا اور حضرت علیؓ کی خصوصیات مجھے تصور میں حضورؒ کی ذات با برکات میں محسوس ہونے لگیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ (ماموں حضورؒ) کی شفیق ہستی کی شفقتوں اور خُلق کے بے شمار واقعات ہیں۔ غرباء پروری اور صلہ رحمی آپؒمیں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ غیرمعمولی طور پر مہمان نواز تھے۔ گھر سب کے لئے کھلا رہتا۔ جلسہ سے مہینہ پہلے سے ہی تیاریوں میں مصروف ہو جاتے۔ گھر میں ہومیوپیتھک کلینک کھول رکھا تھا۔ خدا تعالیٰ نے ہاتھ میں شفاء بھی بہت دی ہوئی تھی۔ بے حد مصروف زندگی تھی لیکن نماز باجماعت ادا کرنے کی کوشش کرتے۔ خاندان میں دعوتوں کے دوران بھی نماز کے لئے اُٹھ کر چلے جاتے۔ بعض اوقات ہم نے یہ بھی دیکھا کہ واپسی تک سب افراد کھانا کھاچکے ہوتے اور آپؒ کے لئے بچا کھچا کھانا ہی ہوتا مگر ماموں حضورؒ نے ان باتوں کی کبھی پرواہ نہیں کی۔
ماموں حضور ؒ ہمیشہ خود بھی سیدھی اور صاف بات کرتے تھے اور دوسروں سے بھی صاف گوئی کی توقع رکھتے۔ اگر اس کے برعکس بات ہوتی تو آپؒ کی طبیعت پر ناگوار گزرتی۔ میں نے حضور ؒکو کبھی کسی کی بُرائی کرتے نہیں دیکھا۔ اگر بعض لوگ بُرے رنگ میں کسی کا ذکر کرتے تو آپؒ بڑی عمدگی سے بات کوٹال دیتے یا اُس مجلس سے اُٹھ جاتے۔ سوائے اس کے کہ کسی کے چندہ نہ دینے یا نماز نہ پڑھنے پر غصّہ یا بیزاری کا اظہار کیا ہو۔
واقفین زندگی کے متعلق بے انتہا غیرت تھی۔ ایک دفعہ کسی شخص نے کسی واقف زندگی کے متعلق سخت اور بُرے الفاظ کہے تو حضورؒ اُس سے شدید ناراض ہوئے۔ اسی طرح نظامِ جماعت کے لئے بھی ایک پُرجوش غیرت آپؒ میں جھلکتی تھی۔ گھریلو ملازمین کے ساتھ بہت شفقت کا سلوک رکھا۔ اُن کے کھانے پینے اور دوسری ضروریات کا خود خیال رکھتے اور اس بات پر بھی نظر رکھتے کہ گھر والے بھی اُن کے ساتھ سختی سے پیش نہ آئیں۔
حضور ؒ ایک بہادر اور شجاع انسان تھے۔ ایک دفعہ آپؒ خالہ سلام صاحبہ کے گھر لاہور میں ٹھہرے ہوئے تھے جو آپ ؒ کی خوشدامن بھی تھیں۔ اس دوران ڈاکو آگئے تو آپ ؒ اکیلے ہی باہر نکلے اور اُن سے تن تنہا مقابلہ کرکے اُن کو واپس بھاگنے پر مجبور کردیا۔
ماموں حضورؒ خود بھی امین تھے اور امانت کی حفاظت دوسروں سے بھی کروانے کی کوشش کرتے۔ کالج کے زمانہ میں ایک سہیلی سے بات کررہی تھی کہ کینٹین کی انچارج نے مجھے 25 پیسے واپس نہیں دیئے۔ ہماری لاعلمی میں حضور ؒ نے یہ بات سُن لی اور کہا کہ مَیں ابھی پرنسپل کو فون کرکے کہتا ہوں کہ تمہارے پیسے واپس دلوائیں۔ ہم نے گھبرا کر کہا کہ یہ فون نہ کریں مگر آپؒ نے اصرار کیا کہ یہ ایمانداری کے خلاف ہے۔ اگلے دن کلاس میں کینٹین کی انچارج داخل ہوئی اور زور سے کہنے لگی: ’’کتھے وے سبوحی ؟ اک چونی دے واسطے میاں صاحب نوں میری شکیت لا دتی اے‘‘ (یعنی صبوحی کہاں ہے جس نے صرف چار آنے کے لئے میاں صاحب کو میری شکایت لگائی ہے)۔ یہ کہہ کر بڑی ناگواری سے میز پر چونی پھینک کر چلی گئی۔ حالانکہ کسی شکایت کے بغیر ماموں حضور ؒ نے صرف اس لئے فون کیا تھا کہ آپؒ کی طبیعت ایمانداری کی باریک راہوں کو اپنانے والی تھی۔
ماموں حضور ؒ میں صلہ رحمی کی صفت بھی بڑی روشن تھی۔ میری اُمی ایک دفعہ بیمار ہوئیں تو ماموں خود آپ کو لاہور لے کرگئے اور چیک اَپ کا انتظام بھی خود کیا۔ معائنہ کے بعد ڈاکٹر نے کینسر کا خدشہ ظاہر کیا اور تین ہفتوں بعد فائنل ٹیسٹ کے لئے آنے کو کہا۔ اِن تین ہفتوں میں ماموں نے اُمی کا اس طرح خیال رکھا جیسے ماں بچے کا رکھتی ہے۔ یہ میں کبھی نہیں بھول سکتی۔ روزانہ ہومیوپیتھی ادویات کے علاوہ سُچی بوٹی خود بنا کر لاتے اور ساتھ بٹھا کر پلاتے۔ کوشش کرتے کہ اُمی کو بہترین غذا باقاعدگی سے ملتی رہے۔ دعائیں بھی شامل رہیں۔ ڈاکٹر نے دوبارہ ٹیسٹ کیا تو کہا کہ شاید پہلی دفعہ مجھے غلطی لگی تھی، کینسر کا کوئی نام و نشان بھی موجود نہیں ہے۔
ماموں حضورؒ بہت سادہ اور منکسرالمزاج تھے۔ دفتر سے گھر آتے تو کھانا خود ہی گرم کر لیتے حتیٰ کہ ملازمین کو بھی اس کام کے لئے نہ بلاتے۔
ایک دفعہ ماموں حضورؒ گھر آئے تو سب ٹی وی پر کوئی ڈرامہ دیکھ رہے تھے۔ آپؒ نے کہا تم لوگ کیا یہ فضول چیزیں دیکھتے رہتے ہو۔ اس پر ممانی ہنس پڑیں اور کہنے لگیں کہ ٹی وی پر تو یہی کچھ آتا ہے، اگر کبھی احمدیوں کا ٹی وی چینل آگیا تو آخر اُس پر کس قسم کے پروگرام آیا کریں گے؟ ماموں حضور ؒ نے اُس وقت تو زیادہ بات نہیں بڑھائی لیکن چہرہ سے اس بات کا اظہار ہوتا تھا کہ کاش جلدی شروع ہو اور یقینا دعا بھی کرتے ہوں گے۔ ممانی کے تصور میں بھی نہ ہو گا کہ اُن کا اولوالعزم اور باہمت شوہر ایک دن تمام دنیا کو یہ نظارہ دکھائے گا کہ احمدیہ ٹی وی چوبیس گھنٹے اپنی نشریات تمام دنیا میں پیش کرے گا۔
1992ء میں مجھے شدید بے چینی اور گھبراہٹ کا دورہ ہوا۔ جماعتی حالات کی وجہ سے حضورؒ کو خط لکھنے میں ہچکچاہٹ تھی کہ حضور ؒ پہلے ہی فکر مند ہیں اور میں اگر اپنی تکلیف کا لکھ دوں تو کہیں حضورؒ کو یہ خیال نہ ہو کہ اسے اپنی پڑی ہوئی ہے۔لیکن ایک دن شدید گھبراہٹ میں مَیں نے اپنی تمام کیفیت لکھ کر فیکس بھجوادی اور خود حضور ایدہ اللہ کے ساتھ باہر فارم پر ٹہلنے کے لئے چلی گئی۔ وہاں پہنچ کر مجھے احساس ہوا کہ رفتہ رفتہ طبیعت سنبھل رہی ہے اور یک لخت ٹھہراؤ آگیا ہے۔ دل اس یقین سے پُر ہو گیا کہ ماموں حضور ؒ کی دعا کام کر رہی ہے۔ جب واپس گھر پہنچے تو جوابی فیکس آئی رکھی تھی جس میں دعا اور دوا دونوں لکھی ہوئی تھیں۔
ایک دفعہ مجھے حضور ؒ نے دس دن کے لئے ایک دوا لینے کی ہدایت فرمائی جس سے مجھے فرق محسوس ہوا۔ ان دنوں جلسہ سالانہ کی غیرمعمولی مصروفیات کی وجہ سے ایم ٹی اے پر اعلان ہو رہا تھا کہ حضور کے دستخط سے خطوط کے جواب نہیں آئیں گے۔ تاہم میں نے دوا کے مثبت اثرات کے بارہ میں فیکس بھجوا دی تو دو دن کے اندر حضورؒ کے دستخط سے جواب آگیا۔ حضورؒ نے باوجود اس قدر مصروفیت کے اتنی جلدی میری فیکس کا جواب دعاؤں اور ہدایات کے ساتھ ارسال فرمادیا۔ یہ آپ ؒ کی بے انداز شفقت کی ایک مثال ہے۔
حضور ؒ تمام عمر تقویٰ کی باریک راہوں پر چلتے رہے۔ جیسی آپ ؒکی زندگی قابل رشک تھی ویسا ہی انجام قابل رشک ہوا۔