حضرت سیّدہ اُمّ متین مریم صدیقہ صاحبہ
(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 3؍جون 2024ء)
لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘برائے2013ء نمبر1 میں مکرمہ روبینہ احمد صاحبہ اور مکرمہ درّثمین احمد صاحبہ کے قلم سے حضرت سیّدہ مریم صدیقہ صاحبہ (المعروف چھوٹی آپا) کی سیرت پر مضمون شامل اشاعت ہے۔
حضرت سیّدہ مریم صدیقہ صاحبہ فرماتی ہیں کہ درج ذیل شعر حضرت مسیح موعودؑ کا ہے جوآپؑ نے بزبان حضرت اماں جانؓ فرمایا تھا۔ ’’اپنے مسیحا‘‘ کی جگہ ’’ابن مسیحا‘‘ لگا کر میں بھی جتنا خداتعالیٰ کاشکر ادا کر سکوں کم ہے۔ ؎
چُن لیا تُو نے مجھے ’’اپنے مسیحا‘‘ کے لیے
سب سے پہلے یہ کرم ہے مرے جاناں تیرا
آپ حضرت اماں جانؓ کے بڑے بھائی حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ کی بڑی صاحبزادی تھیں۔آپ خود بیان فرماتی ہیں کہ میرے والد صاحب کی پہلی بیوی سے ایک لمبا عرصہ تک کو ئی اولاد نہیں ہو ئی۔حضرت (اماں جانؓ) کی خواہش تھی کہ میرے بھائی کے ہاں اولاد ہو۔بھائی سے محبت بھی بہت زیا دہ تھی۔تو حضرت اماں جانؓ اور حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے زور دینے پرمیرے ابا جان نے مکرم مرزا شفیع محمد صاحبؓ کی بڑی لڑکی امۃاللطیف صاحبہ سے 1917ء میں شا دی کی۔ یہ رشتہ بھی حضورؓ کا ہی طے کردہ تھا۔ 7؍اکتوبر 1918ء کومیری پیدائش ہوئی۔ چونکہ اَور کوئی پہلے اولاد نہ تھی اس لیے میرے ابا جانؓ نے مجھے ہی خداتعالیٰ کے حضور وقف کر دیا۔
جب میری شادی ہوئی تو آپؓ نے مجھے کچھ نصائح نوٹ بک میں لکھ کر دیں۔ ان میں آپؓ نے تحریر فرمایا: مریم صدیقہ! جب تم پیدا ہوئیں تو میں نے تمہارا نام مریم اس نیت سے رکھا تھا کہ تم کو خدا تعالیٰ اور اس کے سلسلہ کے لیے وقف کردوں اسی وجہ سے تمہارا دوسرا نام نذرِ الٰہی بھی تھا۔ اب اس نکاح سے مجھے یقین ہو گیا کہ میرے بندہ نواز خدا نے میری درخواست اور نذر کو واقعی قبول کر لیا تھا اور تم کو ایسے خاوند کی زوجیت کا شرف بخشا جس کی زندگی اور اس کا ہر شعبہ اور ہر لحظہ خدا تعالیٰ کی خدمت اور عبادت کے لیے وقف ہے پس اس بات پر بھی شکر کرو کہ تم کو اللہ تعالیٰ نے قبول فرمالیا اور میری نذر کو پوراکردیا۔ فالحمدللّٰہ۔ خدا تعالیٰ کا شکر کرو کہ اس نے اپنے فضل سے تم کو وہ خاوند دیا ہے جو اس رُوئے زمین پرمعتبر ترین شخص ہے اور جو دنیا میں اس کا خلیفہ ہے۔ دنیا اور دین دونوں کے علوم کے لحاظ سے کوئی اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ خاندانی عزت اس سے بڑھ کر کیا ہوسکتی ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بیٹا ہے۔پس اس مبارک وجود کو اگر تم کچھ بھی خوشی دے سکو اور کچھ بھی ان کی تھکان اور تفکرات کو اپنی بات چیت، خدمت گزاری اور اطاعت سے ہلکا کرسکو تو سمجھ لو کہ تمہاری شادی اور تمہاری زندگی بڑی کامیاب ہے اور تمہارے نامۂ اعمال میں وہ ثواب لکھا جائے گا جو بڑے سے بڑے مجاہدین کو ملتا ہے۔
30؍ستمبر1935ء کو حضرت چھوٹی آپا صاحبہ کی شادی حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ سے ہوئی۔ اس شادی کا پس منظر آپ یوں بیان فرماتی ہیں کہ حضرت اماں جانؓ نے میری شادی کے بعد کئی دفعہ مجھ سے یہ ذکر فرما یا کہ جب میاں محمود چھوٹے تھے تو میرے دل سے بار بار یہ دعا نکلتی تھی کہ الٰہی! میرے بھائی کے ہاں بیٹی ہو تو میں اس کی شادی میاں محمود سے کر وں۔
آپ فرماتی ہیں کہ میری عمر شادی کے وقت سترہ سال تھی اور یہ سترہ سالہ زمانہ جو میں نے میکے میں بسر کیا، اس کا ایک ایک دن شا ہد ہے کہ میری تر بیت کرتے ہو ئے حضرت ابا جانؓ نے ہر وقت یہی کان میں ڈالا کہ ہر صورت میں دین کو دنیا پر مقدّم رکھنا ہے۔ میں جب چھوٹی تھی تو میرے لیے اباجان نے ایک دعا ئیہ نظم بھی کہی تھی جس کا آ خری شعر یہ تھا ؎
میرا نام ابّا نے رکھا ہے مریم
خدایا تُو صدیقہ مجھ کو بنا دے
ابا جانؓ کی یہ دعا ظاہری رنگ میں بھی اس طرح پوری ہوئی کہ جب میری شادی ہوئی تو حضرت اُمِّ طاہرؓ زندہ تھیں اور چونکہ حضورؓ ان کو مریم کے نام سے بلاتے تھے اور ایک ہی نام سے دونوں بیویوں کو بلانا مشکل تھا۔ آپؓ نے شروع شادی سے ہی میرے نام کے دوسرے حصہ سے مجھے بلایا اور ہمیشہ ’صدیقہ‘ کہہ کر ہی بلایا۔ مَیں بجا طور پر کہہ سکتی ہوں کہ میں نے جو بھی حاصل کیا اور جو کام بھی کیا وہ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی تربیت، صحبت، فیض اور توجہ سے حاصل کیا۔
حضرت سیّدہ کی خوبیوں کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ یوں بیان فرماتے ہیں: مریم بیگم (اُمّ طاہرؓ) کی وفات کے بعد پہلے کچھ دن تو اس قسم کی بات کا احساس ہو ہی نہ سکتا تھا مگر کچھ دنوں کے بعد مجھے یہ احساس ہوا کہ وہ گھر اس لحاظ سے ویران ہے کہ اس میں ماں ہے اور نہ باپ۔ ایک شادی شدہ انسان کی راتوں پر اس کی زندہ بیویوں کا حق ہوتا ہے۔ اور پہلے میری راتیں جو چار حصوں میں تقسیم ہوتی تھیں اب تین حصوں میں تقسیم ہونے لگیں۔ دن کے و قت تو مَیں کام کی وجہ سے گھر جا سکتا ہی نہیں اور اب رات کو بھی اس گھر میں نہ جاسکتا تھا اور اس طرح مریم بیگم مرحومہ کے بچے نہ دن کو میرے پا س رہ سکتے تھے اور نہ را ت کو۔ اس احساس کے بعد مجھے خیال ہوا کہ ان بچوں کو کسی دوسری بیوی کے سپرد کردوں تا جب مَیں اس کی باری میں اس کے گھر جاؤں تو ان کی نگرانی بھی کرسکو ں اور ان کے حالات سے باخبر رہ سکو ں۔ یہ خیال آنے پر مَیں نے غور کیا کہ کس بیوی کے پاس ان کو رکھ سکتا ہوں تو میں نے سمجھا کہ میری چھوٹی بیوی مریم صدیقہ ہی ہیں جو مریم بیگم مرحومہ کے گھر میں جا کر رہ سکتی ہیں اور ان کے بچوں کا محبت کے سا تھ خیال رکھ سکتی ہیں مگر سا تھ ہی مجھے یہ بھی خیال آیا کہ وہ حضرت (اماں جا نؓ ) کے سا تھ رہتی ہیں اور ان کی خدمت کا ان کو موقع ملتا ہے۔ دوسرے میں نے دیکھا کہ ان کے متعلق بھی ڈاکٹروں کی یہی را ئے ہے کہ وہ بھی اس مرض میں مبتلا ہیں جو اُمّ طاہر مرحومہ کو تھا۔ ایک لڑکی کی پیدائش کے بعد سات سال سے ان کے ہاں اَور اولا د نہیں ہوئی اور پھر ان کی طبیعت ایسی ہے کہ میری رضاجوئی کے لیے جب بچے آپس میں لڑ پڑیں تو چاہے ان کی لڑکی کا قصور ہو اور چاہے کسی دوسرے بچے کا وہ اپنی لڑکی کو ہی سزا دیتی ہیں تا دوسرے بچوں کے دل میں یا میرے دل میں احساس پیدا نہ ہو کہ وہ اپنی لڑکی کی طرفداری کرتی ہیں اور بوجہ بنت العم ہونے کے مجھ سے دوہرا تعلق رکھتی ہیں اور اس لیے دوہری محبت۔…پس میں نے خیال کیا کہ یہ بہت ظلم ہوگا کہ جس کے ہاں ایک ہی بچہ ہے اور بظاہر اَور ہونے کا احتمال کم ہے (گو ہم اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہیں) اس کے ایک ہی بچے کو دکھ میں ڈال کر ماں کو دکھ میں ڈال دیا جائے۔ (خطبا تِ نکا ح صفحہ 585،584)
حضرت مریم صدیقہ صاحبہ فرماتی ہیں کہ حضرت ابا جانؓ کی وقتِ رخصت نصیحت اور شادی کے معاً بعد حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی آرزو دونوں نے مل کر سونے پر سہاگہ کا کام کیا اور زندگی کا نصب العین صرف اسلام کی خدمت اور حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی خدمت اور اطاعت بن کر رہ گیا۔ شروع شروع میں غلطیاں بھی ہوئیں، کوتاہیاں بھی ہوئیں لیکن آپؓ کی تربیت اور سکھانے کا بھی عجیب رنگ تھا آہستہ آہستہ اپنی مرضی کے مطابق ڈھالتے چلے گئے۔ شادی کے بعد آپؓ نے میری تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور خود اس میں راہ نمائی فرماتے اور دلچسپی لیتے ر ہے۔ بی اے پاس کرنے کے بعد آپؓ نے دینی تعلیم کا سلسلہ شروع کروادیا۔ قرآن مجید خود پڑھانا شروع کیا لیکن سبقاً سارا نہیں پڑھا۔ سورت مریم سے سورت سبا تک حضورؓ سے سبقاً قرآن مجید پڑھا اور چند ابتدائی پارے اور آخری دو پارے۔ شروع میں ہمیں گھر پر پڑھانا شروع کیا تھا۔ مجھے، عزیزہ امۃالقیوم سلّمہا، عزیزم مبارک احمد اور عزیزم منور احمد کو پڑھاتے تھے۔ آہستہ آہستہ دوسرے لوگوں کی خواہش پر پھر وہ باقاعدہ درس کی صورت اختیار کرگیا اور تفسیر کبیر کی صورت میں شائع بھی ہوچکا ہے۔ اتنا پڑھا کر پھر کبھی سبقاً نہیں پڑھایا، ہاں عورتوں میں بھی اور مردوں میں بھی درس ہوتا تھا وہ سنتی تھی اور باقاعدہ نوٹس لیتی تھی جو بعد میں حضورؓ ملاحظہ فرمایا کرتے۔ نوٹس لینے کی عادت بھی آپؓ نے ہی ڈالی۔ جب درس ہوتا تو آپؓ فرماتے ’’ایک ایک لفظ لکھنا ہے بعد میں مَیں دیکھوں گا۔‘‘ آہستہ آہستہ اتنا تیز لکھنے کی عادت پڑگئی کہ حضورؓ کی جلسہ سالانہ کی تقریر بھی نوٹ کرلیتی تھی اور حضورؓ بھی وقتاً فوقتاً کوئی مضمون لکھوانا ہوتا تو عموماً مجھ سے ہی املاء کرواتے۔1947ء کے بعد سے تو قریباً ہر خط، ہر مضمون ہر تقریر کے نوٹ مجھ سے ہی املاء کروائی۔ اِلَّامَاشَاءَاللّٰہ۔ تفسیر صغیر کے مسوّدہ کا اکثر حصہ حضورؓ نے مجھ سے ہی املاء کروایا۔ ٹہلتے جاتے تھے قرآن مجید ہاتھ میں ہوتا تھا اور لکھواتے جاتے تھے۔ جب خاصا مواد لکھا جاچکا ہوتا تو پھر محکمہ زودنویسی کو صاف کرنے کے لیے دے دیتے۔ قرآن مجید پڑھاتے ہوئے بھی اس بات پر زور دیتے تھے کہ خود غور کرنے کی عادت ڈالو۔ اگر پھر بھی سمجھ نہ آئے تب پوچھو۔ عربی کی صرف ونحومکمل مجھے آپؓ نے خود پڑھائی اور ایسے عجیب سادہ طریق سے پڑھائی کہ یہ مضمون کبھی مشکل ہی نہ لگا۔ عام طور پر عربی کے طالب علم صرف ونحو سے ہی گھبراتے ہیں مگر آپؓ کے پڑھانے کا طریق اتنا سادہ اور عام فہم ہوتا تھا کہ یوں لگتا تھا کہ یہ کوئی مشکل چیز ہی نہیں ہمیں پہلے سے آتی تھی۔
آپ کو قرآن مجید سے شدید عشق اور تعلق تھا اور بلا شبہ آپ کی زندگی اس عظیم کتاب کے علوم سیکھنے اور سکھانے میں ہی گزری۔ 1954ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے قرآن شریف پڑھانے کا کام آپ کے سپرد کیا جس کو آپ تمام زندگی باَحسن انجام دیتی رہیں۔ربوہ میں حضرت چھوٹی آپا بہت صبح سویرے مختلف محلوں سے آئی ہوئی لڑکیوں کو قرآن مجید کا ترجمہ پڑھانا شروع کردیتیں اور یہ بات مشہور ہوگئی تھی کہ جو لڑکی آپ سے ترجمہ پڑھ لیتی اس کی شادی (غیر متوقع طورپر) ہوجاتی۔
ضیاءالحق کے آرڈیننس کے بعد جب ربوہ کی مساجد میں لاؤڈسپیکر پر پابندی لگ گئی اور رمضان المبارک کے ایام میں درس القرآن کا سلسلہ ممکن نہ رہا تو خواتین کی طرف سے آپ کی خدمت میں درخواست پر فرمایا کہ ’’میں ضرور درس دوں گی لیکن شعبہ اصلاح و ارشاد کی اجازت سے۔‘‘ چنانچہ بعدازاں بہت تیاری کر کے عمدہ درس دیا کرتیں۔ بعد میں جب حضرت خلیفۃالمسیح الرا بعؒ نے ایم ٹی اے پر درس القرآن کا آغاز فرمایا تو آپ نے خلافت سے محبت اور اطاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ درس بند کردیے۔
خلافت احمدیہ کی اطاعت اور ادب و احترام میں حددرجہ بلند مقام حاصل تھا۔ آپ دربارِ خلافت کے ہر حکم کو شرح صدر کے ساتھ ماننا اپنی سعادت سمجھتی تھیں اور ایسا ماحول قائم کرتیں جس سے یہ روح زندہ رہے۔ مکرمہ امۃاللطیف خورشید صاحبہ لکھتی ہیں کہ آپ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ سے لائحہ عمل اور ضروری کاموں کی منظوری کے لیے باقاعدگی سے تحریری اجازت لیتی تھیں۔ حضورؓکی وفات کے بعد آپؓ کے دو بیٹے یکے بعد دیگرے خلیفہ ہوئے۔ آپ نے ان دونوں کا بےحد احترام کیا۔ لجنہ کے اور دیگر سب دینی اور دنیاوی کاموں میں ان کا مشورہ اور اجازت حاصل کرتی تھیں۔
خداتعالیٰ نے آپ کو ایک صاحبزادی امۃالمتین صاحبہ (اہلیہ محترم سیّد میر محمود احمد نا صر صاحب) سے نوازا۔
محترم سید میر محمود احمد ناصر صاحب فرماتے ہیں حضرت چھوٹی آپا کو ایک سعادت جو سالہا سال تک حاصل رہی وہ حضرت اماں جانؓ کی خدمت اور معیت تھی۔حضرت چھوٹی آپا کے پاس قادیان میں حضرت اماں جانؓ کے گھر کے جملہ انتظامات کی ذمہ داری تھی اور یہ خدمت ربوہ میں بھی جاری رہی۔ حضرت مصلح موعودؓ حضرت چھو ٹی آپا کو حضرت اماں جانؓ کی خدمت کی خاص تا کید فرماتے۔ اس کا علم مجھے اس طرح بھی ہوا کہ حضرت مصلح موعودؓ کی وفات کے بعد جب حضرت چھوٹی آپا پہلی دفعہ حضورؓ کے مزار پر دعا کے لیے گئیں تو ہاتھ اٹھا کر دعا شروع کی مگردو ایک منٹ کے بعد وہاں سے ہٹ کر حضرت اماں جانؓ کے مزار کے سامنے کھڑی ہوئیں اور لمبی دعا کی پھر حضرت مصلح موعودؓ کے مزار پر واپس جا کر دعا کی۔ بعد میں بتایا کہ جب مَیں نے حضورؓ کے مزار پر دعا شروع کی تو ایسا محسوس ہوا کہ حضرت مصلح موعودؓ سامنے آ کر کھڑے ہوگئے اور گھور کر مجھے دیکھا کہ ساری عمر تو میں یہ سبق دیتا رہا ہوں کہ پہلے اماں جانؓ کا خیال رکھنا ہے اور پھر اس کے بعد میرا مگر تم ان کے مزار پر دعا سے پہلے میرے مزار پر دعا کر رہی ہو۔
احمدی خواتین اور بچیوں کے لیے مادرانہ شفقت کا انداز تھا۔ ہر ایک سے یکساں انداز میں ملتیں۔ہر ایک کی شادی میں شرکت کرتیں۔ ہر مریض کی عیادت کرتیں۔ ولادت پر گھر جاکر مبارکباد دیتیں۔ خوشی کے مواقع پر گھروالوں کو تحفہ دیتیں۔غمی کے مواقع پر گھروں میں جا کر دلجوئی کرتیں۔
آپ کا مطالعہ بہت وسیع تھا رات کو خاصی دیر سے سوتی تھیں اور رات گئے تک مطالعہ کرتی تھیں مگر نمازوں میں ناغہ کا کو ئی تصور نہ تھا۔ الحاح کے ساتھ اوّل نماز ادا کرتی تھیں۔ گھٹنوں میں شدید درد کی تکلیف تھی لیکن نماز میں تساہل کا کوئی سوال نہ تھا اور روزہ کی پا بندی تو اس حد تک پہنچ گئی کہ ڈاکٹر کو کہہ کر آپ کو طبّی ہدایت دلوانی پڑی کہ روزہ رکھنا مناسب نہیں ورنہ آپ اس پر بھی راضی نہیں ہوتی تھیں۔
آپ نے لجنہ کے کئی اہم کام شروع کیے۔آپ جامعہ نصرت کی ڈائریکٹر تھیں اور اس میں سائنس بلاک کے اجرا کے لیے آپ نے بہت کوشش کی۔ آپ کی یادگار نصرت انڈسٹریل سکول، فضلِ عمر سکول، مریم میڈیکل سکول گھٹیالیاں، چک منگلا سکول، دفتر لجنہ اماءِاللہ مر کزیہ، مسجد مبارک ہیگ ہالینڈ اور مسجد نصرت جہاں ڈنمارک احمدی خواتین کے چندہ سے تعمیر ہوئیں۔ آپ کی ہدایت اور نگرانی میں جو لٹریچر شائع ہوا اس میں تاریخِ لجنہ (پانچ جلدیں)، ’الازھارُلِذواتِ الخمار‘ (حضرت مصلح موعودؓ کی عورتوں کے متعلق تقاریر کا مجموعہ)، المصابیح (حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی خواتین سے تقاریر کا مجموعہ)، تربیتی نصاب (دو حصے)، یادِمحمودؓ، رسومات کے متعلق اسلامی تعلیم، مقاماتُ النساء، ہمارا دستور، راہ ِایمان، مختصر تاریخ احمدیت اور قواعدوضوابط وغیرہ شامل ہیں۔
آپ نے 1942ء میں لجنہ اماءاللہ مرکزیہ میں جنرل سیکرٹری کے طور پر خدمات شروع کی تھیں۔ 1958ء میں آپ صدر لجنہ مرکزیہ منتخب ہوئیں اور یہ شاندار دَور 1997ء تک جاری رہا۔ پا کستان بننے کے بعد یہاں آپ نے لجنہ کی از سرنو ترتیب و تنظیم کا کٹھن فریضہ انجام دیا۔پاکستان کے طول و عرض میں لجنہ کی بیداری اور تربیت کے لیے بلامبالغہ ہزاروں دورے کیے۔ آپ کی تقاریر نہایت دلکش اور مؤثر ہوا کرتی تھیں۔ غیر از جماعت خواتین کے سوالات کا جواب بڑی وضاحت اور تسلّی بخش انداز میں دیتیں۔آپ نے بیسیوں پیغامات لجنہ اماءاللہ کی مجالس کی تقریبات کے مواقع پر بھجوائے جو نہایت فکرانگیز، قا بل عمل اور اثر انگیز ہیں۔آپ کا دَور بلا شبہ لجنہ اماءاللہ کا ایک زرّیں دَور تھا۔
3؍نومبر1999ء کو آپ نے وفات پائی۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؒنے 5؍نومبر1999ء کے خطبہ جمعہ میں آپ کی خوبیوں کا ذکر فرمایا اور غائبانہ نمازجنازہ پڑھائی۔