حضرت سیّدہ منصورہ بیگم صاحبہ حرم محترم حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 6؍مئی 2024ء)
لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘برائے2013ء نمبر1 میں مکرمہ صاحبزادی امۃالشکور صاحبہ نے اپنے مضمون میں اپنی والدہ محترمہ حضرت سیّدہ منصورہ بیگم صاحبہ حرم محترم حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کی چند یادیں بیان کی ہیں۔
آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سب سے بڑی نواسی تھیں۔ 27؍ستمبر 1911ء کو حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کے بطن سے پیدا ہوئیں جن کے متعلق حضورؑکو الہامات ہوئے: ’’تُنَشَّأُ فِی الْحِلْیَۃِ‘‘ اور ’’نواب مبارکہ بیگم‘‘۔


امی کے والد حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ ریاست مالیر کوٹلہ کے حکمران خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ جلال آباد (افغانستان) سروانی قوم کے پٹھان تھے اس لیے آپؓ کی جاگیر سروانی کوٹ کہلاتی ہے۔باوجود رئیس ہونے کے آپؓ بیعت کرنے کے بعد حضرت مسیح موعودؑ کی صحبت سے فیض یاب ہونے کے لیے قادیان تشریف لے آئے اور دارالمسیح کے ایک چھوٹے سے حصے میں قیام پذیر ہوئے۔ آپؓ نہایت اعلیٰ اخلاق کے مالک، متّقی پرہیزگار اور فدائی احمدی تھے۔ آپؓ کوشرک، بدعات اور بدرسومات سے بےحد نفرت تھی۔ آپؓ کے متعلق حضرت مسیح موعودؑ کو الہام ہوا: ’’حجّۃ اللّٰہ۔‘‘

حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ

امی بظاہر بہت رعب داب والی تھیں لیکن اندر سے بہت نرم محبت کرنے والی شفیق ہستی تھیں۔کسی سے کینہ، بغض اور نفرت نہ رکھتیں۔ کوئی شکوہ شکایت بھی نہ کرتی تھیں۔ کہا کرتی تھیں کہ شکوہ کرنے سے ناراضگیاں بڑھتی ہیں۔میرے ساتھ اللہ کا یہی سلوک ہے کہ مَیں کسی سے کوئی شکوہ نہیں کرتی اور اللہ تمام کدورتوں سے میرے دل کو پاک کر دیتا ہے۔
آپ اپنے تمام رشتوں میں بہت مخلص تھیں۔ خدا تعالیٰ سے بےحد پیار کرنے والی عاجز اور نیک بندی، دل آنحضرت ﷺ اور حضرت مسیح موعودؑ کی محبت سے مخمور، خلافت احمدیہ کی بےحد مطیع و فرمانبردار، ایک فرمانبردار بیٹی، وفا شعار اور خدمت گزار بیوی، بچوں کے لیے ٹھنڈی چھاؤں جیسی ماں۔ اپنے رشتہ داروں سے بھی بہت محبت کرتیں اور ان کی سچی غمگسار اور رازدار تھیں۔ کسی کو کوئی تکلیف ہوتی یا مشورہ کی ضرورت ہوتی تو وہ امی کے پاس آکراپنا دل ہلکا کرتے، آپ ان کا دکھ سکھ سنتیں، مشورے دیتیں اور ان کے رازوں کی ایسی امین تھیں کہ کبھی ہم بچوں کو بھی ہوا نہ لگنے دی حالانکہ ہم سب امی کے ساتھ بےتکلّف دوستوں والا تعلق رکھتے تھے۔
امی بہت غیرت والی اور حساس طبیعت کی مالک تھیں۔ حضرت چھوٹی آپا صاحبہ لکھتی ہیں کہ 1944ء میں آپ بہت بیمار ہو گئیں تو حضرت مصلح موعودؓ نے بغرض علاج دہلی بھیجا۔ علاج لمبا چلا تو آپ کو بہت احساس تھا کہ حضرت مصلح موعودؓپر میری وجہ سے بہت بوجھ پڑرہا ہے۔آپ نے اپنی امّی کو لکھا کہ ’’آپ پر اتنا خرچ میری وجہ سے پڑ رہا ہے مجھے بہت شرم آتی ہے۔‘‘ انہوں نے جواباً لکھا کہ تمہاری جان سے زیادہ مجھے روپیہ عزیز نہیں ہے۔ تم ہزاروں کا کہتی ہو اگر ایک لاکھ بھی علاج پر خرچ ہو جائے تمہاری صحت کی خاطر، مجھے پروا نہیں۔


آپ حضرت مصلح موعودؓ کی فدائی تھیں، خاصی بےتکلّف بھی تھیں۔ حضرت چھوٹی آپا صاحبہ لکھتی ہیں کہ جب آپ اپنی کوٹھی سے دارالمسیح آتیں تو اکثر حضورؓ کے لیے کچھ نہ کچھ پکاکر لایا کرتیں۔ حضرت اماں جانؓ کے گھر آکر رہیں تو کوئی نہ کوئی چیز ضرور تیار کرتیں جسے حضورؓ بہت خوشی سے کھاتے۔ ایک دو دفعہ اپنے ہاتھ سے سویٹر بھی بُن کر دیے۔ حضورؓآپ پر بہت اعتماد کرتے تھے۔ جب باہر تشریف لے جاتے تو گھر کا انتظام آپ کے سپرد کر جاتے۔ ربوہ بسنے کے بعد جب حضورؓ کبھی لاہور جاتے تو آپ کے پاس ہی قیام فرماتے اور آپ دل کھول کر سب کی مہمان نوازی کرتیں۔ (حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحبؒ لاہور میں کالج کے پرنسپل تھے۔)

حضرت مصلح موعودؓ تعلیم الاسلام کالج میں

حضرت چھوٹی آپا کا بیان ہے کہ قادیان سے ہجرت کے وقت جب حضرت مصلح موعودؓ نے خواتین اور بچوں کو لاہور بھیجنے کا فیصلہ کیا تو آپ کی خواہش پر آپ کو قادیان میں ہی ٹھہرنے کی اجازت دے دی اور سارے خاندان کے افراد جو دارالمسیح میں مقیم تھے ان کے کھانے کا انتظام آپ کے سپرد فرمادیا۔ آپ بہت احتیاط سے حضورؓ کا اور میرا کھاناو ناشتہ وقت پر دفتر بھجوا دیا کرتیں۔ پھر جب حضورؓ کے پاکستان آنے کا فیصلہ ہوا تو اس تاریخی سفر میں ایک طرف مَیں تھی اور ایک طرف منصورہ بیگم۔ درمیان میں حضورؓ بیٹھے ہوئے تھے۔ منصورہ بیگم نے ایک ٹوکری میں کھانے کی چیزیں رکھی ہوئی تھیں جو تھوڑی تھوڑی دیر بعد نکال کر اپنے ماموں جان (حضورؓ) کو پیش کردیتی تھیں۔ (ممکن ہے کسی کا خیال ہو کہ شاید آپ اپنے شوہر حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ کے لیے رُکنا چاہتی تھیں لیکن دراصل آپ حضورؓ کے لیے ٹھہری رہی تھیں۔)
حضرت چھوٹی آپا صاحبہ کی نظر میں آپ بہت بلند حوصلہ تھیں۔ کوہ وقار تھیں اور ایثار مجسم۔ آپ کے اخلاق کا بڑا پہلو توکّل علی اللہ اور صبر و رضا کا پہلو تھا۔ ہر ذمہ داری کو سنوار کر ادا کرنے والی، بےحد دعاگو، صدقہ خیرات کرنے والی اورنماز کو سنوار کر ادا کرنے والی تھیں۔ حضرت سیدہ اُمّ داؤد صاحبہؓ فرمایا کرتی تھیں کہ مجھے منصورہ کی یہ بات بہت پسند ہے کہ نہا دھو کر، اچھے کپڑے پہن کر خوب عطر لگا کر صاف جائے نماز بچھا کر نماز کے لیے کھڑی ہو جاتی ہے۔
امی حضرت مصلح موعودؓ کی بیویوں کے لیے بھی احترام اور محبت رکھتی تھیں اور ان کا خیال رکھتی تھیں۔ حضرت سیدہ مہرآپا صاحبہ فرماتی ہیں کہ جب حضرت مصلح موعودؓ بغرض علاج لندن روانہ ہوئے تو کراچی تک منصورہ بیگم بھی ساتھ تھیں۔ انہوں نے اپنی بہن محمودہ بیگم صاحبہ (بیگم ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب) کو کہا کہ ممانی بشریٰ (مہرآپا) کی تو کوئی بھی تیاری نہیں ہے ان کے دو دوپٹے لے کر ہم چُن کر ٹانک دیتے ہیں۔ یہ کہہ کر دونوں نے مجھ سے دوپٹے لے کر ٹانکے۔اُن کے اس جذبۂ احساس کی کیفیت مَیں آج تک نہیں بھول سکی۔پھر جب مَیں نے نئے گھر میں شفٹ ہونا تھا تو حضورؒ کے ہمراہ تشریف لائیں اور دعاؤں کے ساتھ مجھے موجودہ گھر میں یہ کہتے ہوئے شفٹ کیا کہ ’’مہر آپا! گھبرائیں نہیں، ہم آتے رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ آپ کا حامی وناصر ہو۔‘‘ اور مَیں نے دیکھا کہ میرے ساتھ ساتھ ان کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے۔
پھوپھی ناصرہ بیگم صاحبہ نے لکھا کہ محبت کا جذبہ خدا تعالیٰ نے انہیں بہت دیا تھا جس میں خلوص بھی شامل تھا۔ شکوہ شکایت اور پیچھے سے بات کرنے کی عادت نہیں تھی۔ہمارا بچپن بھی ساتھ گزرا اور بڑی عمر بھی، ہم گھنٹوں اکٹھے رہے اور دنوں بھی، مگر آپس میں سوائے محبت کے کچھ نہ تھا۔
پھوپھی باچھی صاحبہ لکھتی ہیں کہ ماں کی طرح چاہنے والی، بےحد پیار کرنے والی بہن ۔ اباجان (حضرت مصلح موعودؓ) سے بےحد پیار تھا۔ایک مرتبہ ڈلہوزی میں شدید بارشوں کی وجہ سے خطرہ پیدا ہوگیا کہ کوئی بڑا پتھر اچانک کوٹھی پر نہ آگرے۔ حضرت اباجانؓ نے اسی وقت سامان بندھوایا اور سیدی بھائی جانؒ (حضرت مرزا ناصراحمد صاحبؒ) کے ہاں چلے گئے۔ انہوں نے جس بشاشت سے مہمان نوازی کی، مَیں حیران رہ گئی۔ پھر 1944ء میں پیشگوئی مصلح موعودؓ کے جلسہ کے لیے ہم سب دہلی گئے اس وقت بھی سیدی بھائی جان دہلی میں تھے۔ قریباً دس پندرہ دن وہاں رہے حالانکہ اس وقت بھابھی جان بیمار تھیں اور علاج کے سلسلے میں وہاں گئی ہوئی تھیں مگر دن رات مہمان داری بےحد بشاشت سے کی۔ اسی طرح جب ہم ربوہ آگئے اور حضرت ابا جانؓ لاہور جاتے تو سیدی بھائی جان کے ہاں ہی ٹھہر تے تو سارے قافلے کی مہمان داری کرتیں ۔کسی کو کبھی احساس نہیں ہوا کہ خاطر میں کبھی معمولی سی کمی بھی آئی ہے (حالانکہ اُن دنوں کافی مالی پریشانی رہتی تھی۔) دعاؤں پر بےحد زور دیتیں۔ سیدی بھائی جانؒ کی اتنی فکرکہ شاید ہی دنیا میں کوئی ایسی مثال ہو۔ طبیعت بےحد حیا والی تھی، نفاست پسند، وفادار، غیرت مند، علم دوست۔ آپ کی مجلس سے اٹھنے کو دل نہیں چاہتا تھا ۔کبھی شکوہ شکایت نہیں، گلہ نہیں۔ اپنے دکھ پہنچانے والوں کے لیے بھی خیر چاہتی تھیں۔ کسی کی تکلیف کا سن لیتیں تو بےچین ہو جاتی تھیں اس کے لیے بھی دعا کرتی تھیں۔ ہم لوگوں کا روزانہ کا معمول تھا کہ سیدی بھائی جانؒ کے ہاں شام کو جاتے تھے۔ ہر ایک سے بڑی بشاشت سے ملتیں، بےحد میٹھی اور دھیمی آوازمیں باتیں کرتیں۔
ممانی طیبہ لکھتی ہیں کہ کالج کے زمانے میں گردے کی درد سے بیمار ہوئی تھیں۔ مَیں کئی کئی دن آپ کے پاس رہتی تھی سب کام کرتی تھی کیونکہ ان کے بچے ابھی چھوٹے تھے۔ کام تو سب کے کیے ہیں لیکن عزت دے کر کام انہوں نے ہی لیاتھا۔ خلافتِ ثالثہ کا دَور آیا تو یوں لگتا تھا کہ خدا تعالیٰ نے خود ہاتھ پکڑکر اپنے خلیفہ اور جماعت کے لیے کھڑا کردیا ہے۔ ہر رشتہ دار یہی سمجھتا تھا کہ صرف مجھ سے ہی یہ محبت ہے۔ میری بیٹی کی شادی ہونے والی تھی کہ ایک ایسی بات ہوگئی جس پر حضورؒ نے ناراضگی کا اظہار کیا۔ناراضگی میں بھی پیار تھا۔مجھے پتا لگا تو میں روتی ہوئی گئی۔ حضورؒ اور آپا بیٹھے ہوئے تھے۔ مَیں روتی رہی۔ آخر بڑی مشکل سے اصل بات بتائی۔ میرے کانوں میں آج بھی وہ دھیمی آواز رس گھول رہی ہے : اس کی تو سنیں کیا کہتی ہے۔ پھر اس خوبی سے معاملہ سلجھا دیا کہ مَیں آج تک حیران ہوں۔ اس وقت مجھے کہنے لگیں کہ ہر وقت یہ کہا کرو کہ سب کام خیر سے ہوں۔ خود بھی یہ کہنے کی بہت عادت تھی۔
امی کا نصیحت کا رنگ بہت پیارا تھا۔ کبھی کسی کو مجلس میں شرمندہ نہیں کیا۔ الگ بلا کر تنہائی میں نصیحت کرتیں یا پھر بڑوں کا کوئی واقعہ وغیرہ سنا دیتیں اور اگلا اپنی غلطی سمجھ جاتا۔ بچوں سے مذاق کرتیں لیکن مذاق اڑاتی نہیں تھیں۔
صاحبزادی امۃالقدوس صاحبہ لکھتی ہیں کہ ممانی جان سے بہت بےتکلفی تھی۔ بالکل سہیلیوں کی طرح۔ لیکن اس کے باوجود تربیت کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی تھیں۔ ایک دفعہ کالج میں مشاعرہ تھا۔ بڑے ماموںؒ پرنسپل تھے انہوں نے ہمارے لیے علیحدہ جگہ پر انتظام کر دیا۔ واپس آکر مَیں نے اور ان کی چھوٹی بیٹی حلمی نے ایک شاعر کی شکل کی تعریف کر دی اس پر ہمیں سمجھانے لگیں کہ شریف گھروں کی لڑکیاں غیرمردوں کی شکل کی تعریف نہیں کیا کرتیں۔ ہماری کچی عمر تھی۔ ہم ان سے ہنس کر بحث کرتے رہے مگر اتنا ہوا کہ دل نے یہ محسوس کرلیا کہ ہم نے غلط بات کردی ہے۔
صفائی پسند بہت تھیں۔ کراہت کا مادہ طبیعت میں کچھ زیادہ ہی تھا۔ اس لیے ہم اکثرچھیڑتے رہتے تھے کہ آپ کے پان دان یا کسی اََور چیز کو گندا ہاتھ لگا دیا ہے۔ مصنوعی غصے سے ڈانٹتیں لیکن ہماری باتوں کا مزہ بھی لیے جاتیں۔ لیکن جب خدا نے آپ کو خلیفۂ وقت کی بیوی بننے کا شرف عطا کیا تو اپنے آپ کو اس کے مطابق ڈھال لیا۔ جسے ایک دو عورتوں سے بھی مصافحہ کرنا مشکل لگتا تھا اس نے بڑی بشاشت کے ساتھ ہزاروں عورتوں سے مصافحہ کیا اور ان کو گلے لگایا۔
بہت مہمان نوازتھیں۔ گرمیوں میں کالج والی کوٹھی میں دو بڑے دیگچوں میں چینی گھول کر رنگ اور لیموں کا رس ملا دیتیں اور برف ڈال کر باہر رکھوادیتیں۔ اسی طرح باہر گیٹ پر بابا گل محمد مرحوم کے کمرے میں ٹھنڈے پانی کے گھڑے اور گلاس رکھے رہتے۔ سکول کے بچے اور دوسرے لوگ آتے جاتے پیاس بجھا تے۔ کالج والی کوٹھی میں لوگوں کا آنا جانا لگا رہتا تو سردیوں میں چائے سے تواضع ہوتی۔
مکرمہ امۃالعزیز ادریس صاحبہ لکھتی ہیں: ایک دفعہ میں کسی نجی پریشانی کی وجہ سے صبح کے وقت آپ کی خدمت میں (قصر خلافت میں) حاضر ہوئی۔ آپ نے نہایت شفقت سے اپنے ساتھ ناشتے کی میز پر بٹھالیا اور اپنے ہاتھ سے ڈبل روٹی کے توس پر ابلے ہوئے انڈوں کے سلائس لگاکر دیے۔ خود ہی چائے کی پیالی بنا کر دی اور بڑی ہمدردی سے فرمایا کہ تم اتنی صبح آئی ہو، مجھے پتا ہے کہ پریشانی میں ناشتہ بھی نہیں کرکے آئی ہوگی۔ پہلے چائے پی لو پھر مجھے ساری بات بتاؤ۔
آنے والی خواتین سے شفقت سے ملتیں، ان کے دکھ سکھ سنتیں اور مشوروں سے نوازتیں اور حضورؒ کو بھی ان کے مسائل بتا کر دعا کے لیے کہا کرتیں۔ پوری توجہ ان کو دیتیں اور کبھی از خود اُٹھ کرنہیں جاتی تھیں حتّٰی کہ ملنے والے خود احساس کرکے اٹھ جاتے۔ اپنی مصروفیت کے بارے میں ایک بارمسز ادریس کو بتایاکہ صبح سے جو کام شروع کرتی ہوں تو ایک منٹ کی بھی فرصت نہیں ملتی، لوگ تو یہ سمجھتے ہوں گے کہ آرام سے لیٹی رہتی ہوگی لیکن انہیں کیا معلوم کہ صبح سے رات تک مَیں تھک کر چور ہو جاتی ہوں۔
بی بی امۃالباسط صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ ایک صبح کسی کام سے گئی تو بھابھی جان چھوٹے سے باورچی خانہ میں برتن دھو رہی تھیں، پوچھا : آپ خود برتن دھو رہی ہیں؟ کہنے لگیں: ہاں صبح کا ناشتہ مَیں خود تیار کرتی ہوں، برتن بھی خود دھوتی ہوں۔ اس کے بعد باورچی خانہ صاف کیا پھر کمرے میں آکر میز صاف کی اور دوسری جھاڑ پونچھ بھی خود ہی کی۔
ہم نے بھی انہیں ہمیشہ مصروف دیکھا۔ کبھی سلائی کڑھائی کر رہی ہیں کبھی paintingsبنا رہی ہیں۔ ایک بار پڑھائی میں جُت گئیں اور منشی فاضل کا امتحان اچھے نمبروں سے پاس کیا۔ لکھنے لکھانے کا شوق بھی تھا اور شعروشاعری بھی کرتی تھیں۔ لیکن ان مشاغل کے باوجود کبھی گھر، شوہر اور بچوں کو نظر انداز نہیں کیا۔ مہمانوں کو بھی بھرپور توجہ دیتیں۔ خوش مزاجی سے آؤ بھگت کرتیں۔ بےحد مزیدار محفل جمتی اور کسی کو احساس تک نہ ہونے دیتیں کہ سارے دن کی کتنی تھکی ہوئی ہیں۔
خلافتِ ثالثہ کے انتخاب کے بعد آپ نے اپنے آپ کو کُلِّی طورپر خلافت اور جماعت کے لیے وقف کردیا۔ حضورؒ کے چھوٹے سے چھوٹے کام بھی خود کرتیں یہاں تک کہ دوا بھی خود نکال کر دیتیں کہ آپؒ کا قیمتی وقت ضائع نہ ہو۔کھانے پر بیٹھتے تو ہر چیز پہلے خود چکھتیں کہ نمک نہ زیادہ ہو، نرم ہو۔ چائے ناشتہ اپنے ہاتھ سے خود بناکر دیتیں ۔دھوبی سے کپڑے آتے تو ان کی سلوٹیں چیک کرکے فالتو مایا ہاتھوں سے مسل کر جھاڑتیں، الٹا کر کے دیکھتیں کہیں کوئی کانٹا وغیرہ نہ لگا ہو۔ غرض ہر قسم کا خیال رکھتیں، حفاظت کا خیال بھی ایسے کرتیں جیسے کوئی مستعد باڈی گارڈ ہو۔ زندگی کے ہر شعبہ میں حضورؒ کی مکمل معاون و مددگار تھیں اور صائب الرائے مشیر بھی۔
شادی کے ایک ماہ بعد حضورؒ تعلیم کے لیے لندن تشریف لے گئے۔ قریباً چار سال کا طویل عرصہ جس میں ایک بار ہی چھٹیاں گذارنے آئے، ایک نئی نویلی دلہن کے لیے بہت صبر آزما تھا۔ اسی دوران آپ کے بڑے بیٹے مرزا انس احمد کی پیدائش ہوئی۔ یہ مرحلہ بڑا تکلیف دہ تھا۔ بڑی پیچیدگی ہوگئی تھی لیکن آپ نے بےحد صبر سے یہ وقت گزارا۔ پھر ہجرت سے پہلے حضورؒ کو حضرت مصلح موعودؓ نے یہ کام سپرد کیا کہ مختلف دیہات سے عورتوں اور بچوں کو نکال کر لائیں۔ یہ بڑا خطرناک کام تھا لیکن آپ مسکراتے ہوئے انہیں رخصت کرتیں۔ حضورؒ بعض اوقات ساری رات نہ آتے تو آپ یہ وقت بڑی بہادری اور صبر کے ساتھ گذارتیں۔ پھرجب حضورؒ اسیر ہوئے تو آپ بیمار تھیں اور چھوٹا بیٹا لقمان ہو نے والا تھا لیکن یہ وقت بھی بڑے حوصلے اور صبر سے گزارا۔ کسی کے پوچھنے پر بتایا کہ یہ سب تکالیف اللہ تعالیٰ کی راہ میں آئی تھیں اور مجھے خداتعالیٰ پر پورا بھروسہ تھا کہ ان کا انجام بخیر ہوگا۔
حضورؒ بیان فرمایا کرتے تھے کہ ایک دن مَیں نے جب بطور صدر خدام الاحمدیہ کسی پروگرام میں شرکت کرنا تھی تو بڑی بچی سخت بیمار ہوگئی اور بچی کی حالت بہت خراب ہوگئی۔ مَیں نے بچی کی اس حالت کے باوجود پروگرام ملتوی کرنا مناسب نہ سمجھا اور منصورہ بیگم سے کہا کہ شفا دینا اور زندگی دینا اللہ کا کام ہے۔ مَیں رہوں نہ رہوں کوئی فرق نہیں پڑتا، اس لیے میں جارہا ہوں۔ اس وقت بھی آپ کے چہرے پر کوئی گھبراہٹ نہیں آئی اور مسکراتے ہوئے رخصت کیا۔ جب مَیں واپس آیا تو اللہ کے فضل سے بچی صحت یاب ہو چکی تھی۔
آپ کی شادی حضور ؒ سے ا لٰہی منشاء کے عین مطابق ہوئی تھی۔ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ فرماتی ہیں:جب منصورہ حمل میں تھی تو خواب میں حضرت مسیح موعودؑ نے مجھے فرمایا کہ تمہاری بیٹی ہوگی اس کی شادی محمود کے بیٹے سے کرنا۔
حضرت سیّدہ اُمّ داؤدؓ بیان کرتی ہیں کہ حضرت اماں جانؓ نے چھوٹی سی منصورہ کو اور حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ کو پاس لٹاتے ہوئے کہا کہ ان دونوں کی شادی ہوگی۔
حضورؒ خود فرماتے ہیں: ’’قریباً 47سال ہم میاں بیوی کی حیثیت سے اکٹھے رہے۔ ہمارا رخصتانہ 5؍ اگست 1934ء کو ہواتھا۔ 6؍اگست کو مَیں انہیں بیاہ کر قادیان پہنچا تھا اور ٹھیک ایک ماہ کے بعد 6؍ستمبر 1934ء کو مَیں اپنی تعلیم کے لیے انگلستان روانہ ہوا۔ یہ پہلی چیز تھی جس نے مجھے موقع دیا کہ میں ان کی طبیعت کو سمجھوں ایک ذرہ بھر بھی انقباض ان کے چہرے پر یا ان کی طبیعت میں پیدا نہیں ہوا کہ مَیں اپنی وہ تعلیم مکمل نہ کروں جس تعلیم نے آئندہ چل کر مجھ سے بہت سی خدمات لینی تھیں۔ ہماری شادی ان بہت سی بشارتوں کے نتیجے میں ہوئی تھی جو حضرت اماں جانؓ کوہوئی تھیں اور یہ رشتہ حضرت اماں جانؓ نے خود کروایا تھا۔جس کا مطلب یہ تھا کہ یہ انتخاب اللہ تعالیٰ نے بعض اغراض کے ماتحت خود کیا تھا اور مجھے ایک ایسی ساتھی عطا کی جو میری زندگی کے مختلف ادوار میں میرے بوجھ بانٹنے کی اہلیت بھی رکھتی تھی اور عزم اور ارادہ بھی رکھتی تھی۔ اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر کروں کم ہے۔‘‘
حضور ؒ مزید فرما تے ہیں کہ انہوں نے نہ دن کودن سمجھا نہ رات کو رات۔ میرے وقت کا خیال رکھا، میری صحت کا خیال رکھا، میری حفاظت کا خیال رکھا اور اتنی باریکیوں کے ساتھ میرا خیال رکھا کہ آپ اندازہ نہیں کر سکتے۔
حضورؒ نے حضرت سیّدہ محترمہ کی زیرکی اور دُوراندیشی کا ایک واقعہ بھی بیان فرمایا کہ جب ٹورانٹو (کینیڈا) میں حضورؒ پر حملے کی نیت سے آنے والے ایک شخص کی نشان دہی کرکے آپ نے اُسے پکڑوادیا۔
حضرت سیّدہ نے بےشمار سفر حضورؒ کے ساتھ کیے۔ کئی کئی گھنٹے کے طویل سفر بغیر آرام کے کیے۔ لیکن ہر دورے میں ہزارہا خواتین سے مصافحہ کیا، حالات پوچھے، مشورے دیے اور بےحد بشاشت کے ساتھ، بغیر پیشانی پر کوئی شکن لائے۔ احمدی خواتین کی نمائندہ کی حیثیت سے مسجد بشارت سپین کا حضورؒکے ساتھ سنگ بنیاد بھی رکھا۔ پس احمدی خواتین کے لیے آپ مشعل راہ تھیں کہ عملی طور پر پردہ پوش خاتون خدمت دین کا درخشندہ نمونہ پیش کر سکتی ہے۔ آپ نے لجنہ اماء اللہ کی کئی حیثیتوں میں خدمت کی۔ 1945ء تا 1947ء مرکزی سیکرٹری تربیت و اصلاح، 1948ء میں جنرل سیکرٹری و سیکرٹری خدمت خلق اور1952ء تا 1954ء صدر لجنہ لاہور رہیں۔
3؍دسمبر1981ء کی شب آپ کی وفات ہوئی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں