حضرت سیّدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن21؍اگست 2023ء)

لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘ برائے۲۰۱۳ء نمبر1 میں مکرمہ فوزیہ ارشد صاحبہ کے قلم سے حضرت سیّدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کی سیرت شامل اشاعت ہے۔
حضرت سیّدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ ۲؍مارچ ۱۸۹۷ء (بمطابق ۲۷؍رمضان المبارک)پیدا ہوئیں۔ آپؓ کے بارے میں حضرت مسیح موعودؑ کو کئی بشارات ہوئیں۔ مثلاً فرماتے ہیں: ’’حمل کے ایّام میں ایک لڑکی کی بشارت دی اور اس کی نسبت فرمایا تنشأ فی الحلیۃ یعنی زیور میں نشوونما پائے گی یعنی نہ خوردسالی میں فوت ہوگی اور نہ تنگی دیکھے گی۔ چنانچہ بعد اس کے لڑکی پیدا ہوئی جس کا نام ’مبارکہ بیگم‘ رکھا گیا۔‘‘ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد۲۲صفحہ۲۲۷)
پھر ۱۹۰۱ء میں آپؑ کو اس دختر کے بارے میں الہام ہوا:’’نواب مبارکہ بیگم۔‘‘ نیز حضورؑ نے فرمایا کہ ’’میں نے خواب میں دیکھا کہ مبارکہ سلّمہاپنجابی زبان میں بول رہی ہے کہ مینوں کوئی نہیں کہہ سکدا کہ ایسی آئی جس نے ایہہ مصیبت پائی۔ ‘‘ (تذکرہ ایڈیشن پنجم صفحہ۲۷۷)
آپؓ اپنی تعلیم کے بارے میں فرماتی ہیں: مَیں نے کسی سکول میں تعلیم نہیں پائی نہ کوئی ڈگری ہے۔ پیر منظور محمد صاحبؓ کی اہلیہ محترمہ محمدی بیگم صاحبہؓ مرحومہ نے حضرت امّاں جانؓ سے ذکر کیا کہ پیر جی کہتے ہیں ایک نئے طریق سے صالحہ کو پڑھانا شروع کروں گا (صالحہ بیگمؓ کی شادی حضرت میر محمد اسحٰق صاحبؓ سے ہوئی)حضرت امّاں جانؓ نے فرمایا کہہ دو کہ مبارکہ کو بھی پڑھا دیا کریں۔ میری عمر بمشکل شاید تین سال کی ہوگی کہ یہ سلسلہ شروع ہوا۔ لکڑی کے بلاک تھے ان پر الف،ب وغیرہ لکھی ہوئی تھی۔ غرض میں نے ساڑھے چار سال کی عمر میں قرآن شریف ختم بھی کیا اور دہرا بھی لیا تھا۔ اردو حضرت پیر منظور صاحبؓ نے ساتھ ہی پڑھائی۔ حساب وغیرہ بھی سکھاتے مگر مجھے اس میں کوئی دلچسپی نہ ہوئی۔ فارسی کی بھی ایک دو کتابیں پڑھائی تھیں، انگریزی کا قاعدہ اور کتاب۔ حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ نے بہت توجہ سے پڑھایا۔ ان سے مَیں صرف تین سپارے اور چند ورق چوتھے سپارے کے پڑھ سکی۔ اُن کی وفات کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کے پاس بھیجا کہ وہ قرآن شریف کا ترجمہ پڑھائیں۔ وہ بھی ہم سے بہت پیار کرنے والے تھے۔ بہت پیار اور توجہ سے پڑھاتے۔ چند روز خود حضرت مسیح موعودؑنے فارسی پڑھائی۔پھر مَیں نے چھوٹے بھائی حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ سے کہا مجھے عربی پڑھا دیا کریں۔ مجھے علم تھا کہ ان کوعربی بہت اچھی آتی ہے اورطریق تعلیم بھی اچھا ہے، انہوں نے صرف و نحو وغیرہ سب سکھایا۔ پھر شوق اٹھا کہ انگریزی بھی سیکھ لوں۔ پہلے بچوں کے ایک استاد سے پڑھا۔ پھر ماسٹر محمد حسن تاج صاحبؓ جو بزرگ آدمی تھے، انگریزی میں بہت ماہر تھے۔ ان سے پڑھنا شروع کیا اور بہت جلد ترقی کی۔ انگریزی پر کافی عبور ہو گیا تھا ہر کتاب پڑھ لیتی تھی۔ سیناپرونا کچھ حضرت امّاں جانؓ سے اور کچھ سیّدہ صالحہ بیگم صاحبہؓ سے سیکھا۔ پھر اہلیہ صاحبہ بابو محمد افضل صاحبؓ کو حضرت امّاں جانؓ نے کہا کہ مبارکہ کو بُننا سکھا دو۔ چنانچہ ان سے کچھ بُننا سیکھا تھا۔ میرا صرف پڑھنے میں دل لگتا تھا سینے پرونے کے کام سے گھبراتی تھی۔ کھانا پکانا اپنے گھر میں پکتے ہوئے دیکھ کر سیکھ لیا۔ اخبار تہذیبِ نسواں کی طرف سے ایک کتاب کھانا پکانے کی چھپی۔ اس میں سے ترکیب دیکھ کر ایک دن آلو کی کھیر پکائی پر دیگچی ایلو مینیم کی تھی کالی ہو گئی۔ بھائی دیر تک چھیڑتے رہے کہ کالی کھیر پکائی ہے۔
حضرت سیّدہؓ بچپن سے ہی صاحبِ رؤیا وکشوف تھیں، مزید برآں حضرت اقدس علیہ السلام کی صحبت نے سونے پر سہاگے کا کام کیا۔ نمازوں اور دعاؤں میں شروع سے بہت لگاؤ تھا۔ فرماتی ہیں کہ’’بچپن کا سب سے پہلا خواب جو مجھے یاد ہے وہ یہ تھا کہ ایک چاند چکر لگا رہا ہے اور مجھ سے باتیں کرتا ہے چاند نے کہا: ’’اﷲ پر توکّل کر‘‘۔ دن کے وقت مَیں نے مبارک احمد کو بتایا کہ چاند نے مجھ سے باتیں کیں۔ ایک دن مبارک احمد کھلونوں سے کھیل رہاتھا اور ان سے باتیں بھی کررہا تھا۔ حضورعلیہ السلام تشریف لائے اور فرمایا ان سے کیا باتیں کرتے ہو، یہ توسنتے ہی نہیں۔ اس نے کہا آپا سے تو چاند باتیں کرتا ہے۔ اس پرحضرت مسیح موعودؑ نے مجھ سے پوچھا تو مَیں نے اپنا خواب سنایا جو آپؑ نے اسی وقت اپنی چھوٹی سی روایات اور رؤیا کی کاپی میں لکھ لیا۔‘‘
آپؓ فرماتی ہیں کہ میں نے خواب دیکھا تھا کہ میرا بھائی مبارک احمد بیمار ہے اورحضرت مسیح موعودؑ دعا و علاج کی کوشش میں بے حد توجہ سے مشغول ہیں۔ اس کے پلنگ کے ہی گرد اسی سلسلہ میں پھر رہے ہیں مگر اس کا انتقال ہو گیا۔ میں دروازے پر کھڑی ہوں بہت گھبراہٹ کی حالت میں۔ جب مبارک احمد کی وفات ہو گئی تو آپؑ دروازہ کھول کر میرے پاس آئے اور بڑی شاندار، بڑی پُر اثر آواز میں فرمایا کہ’’مومن کا کام ہے کہ دوا علاج کوشش ہر طرح کرے اور دعا میں آخر وقت تک لگا رہے مگر جب خدا تعالیٰ کی تقدیر وارد ہو جائے تو پھر اس کی رضا پر راضی ہو جائے۔‘‘ یہی الفاظ تھے اور وہ عجیب نظارہ تھا جو میں نے دیکھا اور دل پر نقش ہو گیا۔

حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ

۱۷؍ فروری ۱۹۰۸ء کو مسجد اقصیٰ میں حضرت نواب محمد علی خان صاحب رئیس اعظم مالیرکوٹلہ سے ۵۶ہزار روپے مہرمؤجل پر حضرت حکیم نورالدین صاحبؓ نے آپؓ کا نکاح پڑھا۔ رخصتانہ حضورعلیہ السلام کی وفات کے بعد ۱۴؍مارچ ۱۹۰۹ء کوعمل میں آیا۔ حضرت نواب صاحبؓ فرماتے ہیں: ’’رخصتانہ نہایت سیدھی سادی طرز سے ہوا۔ مبارکہ بیگم صاحبہ کے آنے سے پہلے مجھ کو حضرت اماں جانؓ نے فہرست جہیز بھیج دی اور دو بجے حضرت اماںجانؓ خود لے کر مبارکہ بیگم صاحبہ کو میرے مکان پر ان سیڑھیوں کے راستے جو میرے مکان اور حضرت اقدس کے مکان کو ملحق کرتی تھیں تشریف لائیں۔ میں چونکہ مسجد میں تھا اس لیے ان کو بہت انتظار کرنا پڑا اور جب بعد نماز آیا تو مجھ کو بلا کر مبارکہ بیگم صاحبہ کو بایں الفاظ نہایت بھرائی آواز سے کہا کہ ’’میں اپنی یتیم بیٹی کو تمہارے سپردکرتی ہوں‘‘۔ اس کے بعد ان کا دل بھر آیا اور فوراً سلام علیک کر کے تشریف لے گئیں۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے اس جوڑے کو دو بیٹوں اور تین بیٹیوں سے نوازا۔
حضرت سیّدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ ایک اعلیٰ پایہ کی شاعرہ تھیں۔ آپؓ کو حضرت امّاں جانؓ کے جد امجد حضرت خواجہ میر دردؒ کی طرف سے شاعرانہ صلاحیتیں خون میں ملی تھیں جن کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عارفانہ اور دردمندانہ دعائیہ شاعری نے جلا بخشی جو وقت کے ساتھ ساتھ چمکتی گئی۔ آپؓ کی شاعری آپؓ کے اعلیٰ اسلامی، روحانی و اخلاقی جذبات کی عکاسی کرتی ہے۔ کیونکہ آپؓ کے کلام میں قطعاً تصنّع اور بناوٹ نہیں، بےساختگی اور آمد ہے۔ جو خیالات قلب و ذہن میں بہ شدت آئے، اشعار کے جامع میں ڈھلتے چلے گئے۔ اکثر حضرت مصلح موعودؓ جو خود اعلیٰ پایہ کے قادرالکلام شاعر تھے، آپؓ کو اپنا کلام سناتے اور آپؓ انہیں سناتیں۔ حضورؓ نے کوئی نظم لکھی تو آپؓ نے اس کا جواب لکھا۔ حضورؓ نے کوئی مصرعہ کہا تو آپؓ نے اس پر گرہ لگائی۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ جو صنف سخن کے اعلیٰ ترین شہسوار اور نباض ہیںحضرت سیّدہ مبارکہ بیگم صاحبہؓ کے کلام کو بہت اونچا مقام دیتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’اِس دَور کے بڑے بڑے شاعر بھی فصاحت و بلاغت میں آپؓ کا مقابلہ نہیں کرتے۔ ذہن بھی روشن اور دل بھی روشن اور سکینت بھی۔ ہر ابتلا میں بھی ایک سکینت تھی کہ جو کبھی زندگی کا ساتھ نہیں چھوڑتی تھی۔‘‘
آپؓ کی شاعری میں صنف سخن کی تمام خوبیاں موجود ہیں۔ دعائیہ مناجات تو جیسے ہر دل کی آواز ہیں۔ آپؓ پر حضرت مسیح موعودؑ اور حضرت امّاں جانؓ کی عبادات کا گہرا اثر تھا۔ بہت چھوٹی عمر سے تہجد پڑھنے لگیں۔ چار سال کی تھیں حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ (جن کی رہائش دارالمسیح کے ایک حصہ میں تھی) کی بیوی کو کہا ہوا تھا کہ ’مجھے تہجد کے لیے اٹھا دیا کریں۔‘ بعض اوقات بچہ ہونے کی وجہ سے نہ اٹھا جاتا اور مولویانی جی اٹھاتی جاتیں تو حضرت مسیح موعودؑکبھی دیکھ لیتے تو فرماتے’’چلو نہ اٹھاؤ لیٹے ہی لیٹے تسبیح و تحمید پڑھ لو۔ ‘‘
نماز آپؓ کی روح کی غذا تھی۔ خاندان کی سب خواتین بتاتی ہیں کہ کس طرح ڈوب کر نماز پڑھتی تھیں۔ لمبی نمازوں کے بعد اکثر نہایت درجہ ضعف ہو جاتا۔ بالکل اُسی طرح جیسے حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’میں اتنی دعا کرتا ہوں کہ دعا کرتے کرتے ضعف کا غلبہ ہو جاتا ہے اور بعض اوقات غشی اور ہلاکت تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔ ‘‘
آپؓ کی بہو آپا طیبہ صدیقہ صاحبہ تحریر کرتی ہیں: مَیں نے تو انہیں ہمیشہ ہی بہت لمبی نمازیں پڑھتے اور دعائیں کرتے دیکھا ہے۔ جب کوئی زیادہ گھبراہٹ کا وقت ہوتا جیسا قادیان سے آنے سے پہلے کا تھا تو نمازوں کے علاوہ سارا دن ٹہل ٹہل کر دعائیں کرتی تھیں۔ آپؓ حضورعلیہ السلام کے اس ارشاد پر ہمیشہ عمل پیرا رہیں: ’’آپس میں محبت کرو اور ایک دوسرے کے لیے غائبانہ دعا کرو۔اگر ایک شخص غائبانہ دعا کرے تو فرشتہ کہتا ہے کہ تیرے لیے بھی ایسا ہو۔ کیسی اعلیٰ درجہ کی بات ہے۔ اگر انسان کی دُعا منظور نہ ہو تو فرشتہ کی تو منظور ہی ہوتی ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ۳۳۶ایڈیشن ۱۹۸۸ء)
آپؓ کوآنحضرت ﷺ سے حددرجہ عشق تھا۔ کثرت سے درود شریف پڑھتیں اور ہر ایک کو اس کی تلقین کرتیں۔ آپاطاہرہ صدیقہ صاحبہ کہتی ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت ﷺ کا ذکر تھا۔ کہنے لگیں آنحضرت ﷺ کو آخری بیماری میں تیز بخار تھا۔ اس وقت نہ پنکھے تھے نہ اے سی۔ اس شدید گرمی میں آپؐ کو کتنی تکلیف ہوتی ہوگی! یہ کہتے ہوئے آپؓ کی آنکھیں آنسوئوں سے لبریز ہوگئیں۔
حضرت مسیح موعودؑ کی وفات کے وقت آپؓ کی عمر قریباً گیارہ سال تھی لیکن حافظہ بلا کا اور مشاہدہ بےمثال تھا۔ آپؓ کو اپنے بچپن کی بےانتہا باتیں یاد تھیں جو آپؓ نے امانت کے ساتھ بحسن و خوبی بیان فرمائیں۔ ذکر حبیبؑ میں آپؓ ایک خاص لذت محسوس کرتیں۔ چنانچہ فرماتی ہیں: ’’میرا دل اس ذکر، ان یادوں اور ان تصورات سے کبھی بھر نہیں سکتا۔ آپؑ کاظاہر و باطن ایک آئینۂ شفاف کی مانند تھا جس میں سورج کی چمک سے نور ہی نور نظر آتا ہو۔ مگر آنکھ کے اندھوں کے لیے سو سو حجاب حائل ہوتے ہیں۔ آپؑ کا جسم بھی مصفّٰی تھا۔ گرمی اور پسینے کی شدت میں بھی کبھی بوئے ناخوش آپؑ میں سے نہیں آتی تھی۔ ہمیشہ ایک ہلکی مہک آتی رہتی، مشک کی خوشبو آپؑ کے سینہ میں معلوم ہوتی تھی۔ جب نہا کر نکلتے تو گیلا گیلا بدن ململ کے کرتے میں سے صاف و شفاف نظر آتا۔ نرم نرم بالوں میں نمی سی اور چند قطرے پانی کے جو بدن خشک کرنے کے بعد بھی سر میں باقی رہتے بہت ہی پیارے لگتے تھے۔‘‘
حضرت امّاں جانؓ سے اپنی عقیدت مندانہ محبت کا اظہار کرتے ہوئے آپؓ فرماتی ہیں کہ اس مبارک وجود کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو مصرعہ تحریر فرمایا وہی ایسا جامع ہے کہ اس سے بڑھ کر تعریف نہیں ہو سکتی، یعنی

‘‘چن لیا تُو نے مجھے اپنے مسیحا کے لئے’’

اﷲ تعالیٰ کا کسی کو چُن لینا کیا چیز ہے۔ اسی پر قیاس کیا جاسکتا ہے کہ اس محسن و رحمٰن خدا نے کیا کیا جوہر اس روح میں رکھ دیے ہوںگے جس کو اس نے اپنے مسیحا کے لیے تخلیق کیا۔ میں ان کی تعریف اس لیے نہیں کروں گی کہ وہ میری والدہ ہیں بلکہ اس نظر سے کہ وہ فی زمانہ (احمدیوں ) کی’’ماں‘‘ ہیں اور خدا کو حاضرو ناظر جان کر اس امر کی گواہی ہمیشہ دوں گی کہ وہ اس منصب کے قابل ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ تک بےشک ہمارے دلوں پر آپؑ کی شفقت کا اثر والدہ صاحبہ سے زیادہ تھا مگر آپؑ کے بعد والدہ صاحبہ کو دنیا کی بہترین شفیق ماں پایااور آج تک وہ شفقت و محبت روز افزوں ثابت ہورہی ہے۔ ہمیشہ آپؓ کی کوشش رہی ہے خصو صاً لڑکیوں کے لیے کہ ان کے مہربان باپ کی کمی کو پورا فرماتی رہیں۔ یہ تڑپ اس لیے بھی رہی کہ دراصل آپؓ کو حضرت اقدسؑ کی ہم پر مہر و محبت و شفقت کا خوب اندازہ تھا۔ مجھے آپؓ کا سختی کرنا کبھی یاد نہیں۔ پھر بھی آپؓ کا ایک خاص رعب تھا اور ہم بہ نسبت آپؓ کے حضرت مسیح موعودؑ سے دنیا کے عام قاعدہ کے خلاف بہت زیادہ بے تکلف تھے اور مجھے یاد ہے کہ حضور اقدسؑ کا حضرت والدہ صاحبہؓ کی بے حد قدرو محبت کرنے کی وجہ سے آپؓ کی قدر میرے دل میں بھی بڑھا کرتی تھی۔ ؎

درد کہتا ہے بہا دو خون ِدل آنکھوں سے تم
عقل کہتی ہے نہیں! آہ و فغاں بے سُود ہے
خوف ہے مجھ کو کہ لگ جائے نہ اشکوں کی جھڑی
آج میرا مطلعِ دل ، پھر غبار آلود ہے

آپؓ نے حضرت مسیح موعودؑ کے یہاں شہزادیوں جیسی زندگی گزاری اور پھر رئیس مالیرکوٹلہ کی بیگم بنیں۔ خدا تعالیٰ نے ’’نواب‘‘ اور ’’بیگم‘‘ دونوں ہی لقب سچ کر دیے لیکن آپؓ کے مزاج میں قطعاً کوئی غرور اور تکبر نہیں تھا۔ عاجزی اور انکساری کے ساتھ ایک خاص وقار اور تمکنت تھی۔
الغرض حضرت سیّدہ بیگم صاحبہؓ کی اسّی سالہ زندگی کے تمام پہلو عبارت ہیں محبت الہٰی، عشقِ رسولؐ اور شفقت علیٰ خلق اﷲ سے اور یہ ہی دین کا خلاصہ ہیں۔ منبع حیات یعنی ذات باری تعالیٰ کے ساتھ ایسا گہرا پیوند کہ ہر وقت اسی کے آگے جھکی ہوئی سراپا دعا،عاجزی و انکساری ؎

کیا التجا کروں کہ مجسّم دعا ہوں میں
سر تا بہ پا سوال ہوں ، سائل نہیں ہوں میں

اور ؎

مجھے تُو دامنِ رحمت میں ڈھانپ لے یونہی
حساب مجھ سے نہ لے ،بے حساب جانے دے

حضرت سیّدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کی وفات 22؍مئی 1977ء کی شب قریباً اسّی سال کی عمر میں ہوئی ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں