حضرت سیٹھ اسماعیل آدم صاحبؓ
حضرت سیٹھ صاحب کا تعلق میمن قوم سے تھا۔ آپ 1874ء میں بمبئی میں سیٹھ آدم صاحب کے ہاں پیدا ہوئے ، کاروباری ماحول میں پرورش پائی اور جامع مسجد بمبئی سے ملحقہ ایک دکان میں تجارت شروع کی اور نیلی چھتری والے تاجر مشہور ہوئے۔ آپ کے والد سندھ کے مشہور بزرگ پیر رشیدالدین صاحبؒ ’’صاحب العلم‘‘ عرف پیر جھنڈے والے کے مرید تھے جو آپ کو بھی بچپن میں ہی پیر صاحب کے پاس لے گئے اور پیر صاحب سے عرض کی کہ اس کی بیعت لے لیں۔ آپ نے پیر صاحب سے پوچھا کہ بیعت کرنے سے کیا فائدہ ہوگا؟ پیر صاحب نے آپ کو بغور دیکھا اور پانی منگواکر دم کرکے آپ کو پلایا اور آپ کے والد صاحب سے فرمایا کہ تمہارا یہ لڑکا ایک بڑے بزرگ انسان کی بیعت کا شرف حاصل کرے گا۔
حضرت سیٹھ صاحب کو دعویٰ مسیح موعودؑ کا علم 1893ء میں پنجاب کے ان اخبارات سے ہوا جن میں حضورؑ کے خلاف مضامین شائع ہوتے تھے۔ جب آپ نے چند تصانیف منگواکر مطالعہ کیں اور سچائی واضح ہوگئی تو پیر صاحب العلم کی خدمت میں آپ نے لکھا کہ آپ صاحب بصیرت ہیں ، حلفاً جواب دیں کہ مرزا صاحب اپنے دعویٰ میں صادق ہیں یا کاذب۔ پیر صاحب نے جواباً آپ کو اپنی تین شہادتیں لکھ کر بھیجیں۔ اول یہ تھی کہ ایک روز بحالت کشف آنحضرتﷺ کو دیکھا تو ہم نے آپؐ سے سوال کیا کہ یا حضرت یہ شخص مرزا غلام احمد کون ہے؟ تو آپؐ نے جواب دیا ’’از ماست‘‘ یعنی ہماری طرف سے ہے۔ دوم یہ کہ ایک روز خواب میں آنحضورﷺ سے عرض کیا کہ حضورؐ مولویوں نے اس شخص پر کفر کے فتوے لگائے ہیں اور اس کو جھٹلاتے ہیں تو آپؐ نے فرمایا ’’در عشق ما دیوانہ شدہ است‘‘ یعنی ہمارے عشق میں دیوانہ ہے۔ سوم یہ کہ ایک روز نیند اور بیداری کے درمیان غنودگی طاری ہوئی اور آنحضرتﷺ تشریف فرما ہوئے۔ ہم نے آپؐ کا دامن پکڑ لیا اور عرض کی کہ یارسول اللہ اب تو سارا ہندوستان چھوڑ عرب کے علماء نے بھی کفر کے فتوے دیئے ہیں تو آپؐنے بڑے جلال میں تین بار فرمایا ’’ھو صادق، ھو صادق، ھو صادق‘‘۔ یعنی وہ سچا ہے ، وہ سچا ہے، وہ سچا ہے۔… پیر صاحبؒ نے مزید تحریر فرمایا ’’یہ ہے سچی گواہی جو ہمارے پاس ہے، ہم آپ کی قسم سے سبکدوش ہوگئے۔ ماننا نہ ماننا آپ کا کام ہے۔
یہ پیر صاحب العلم ہی تھے جنہوں نے ایک موقعہ پر حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں خط لکھ کر خود کو آپؑ کی خدمت میں پیش کیا اور اپنے خلیفہ کو حضورؑ کی خدمت میں بھجواکر یہاں تک عرض کیا کہ جو کچھ آپ فرمائیں گے ہم وہی کریں گے۔
حضرت پیر صاحب کے خط کے بعد اگست 1896ء میں حضرت سیٹھ صاحبؓ نے تحریراً بیعت کرلی اور نتیجۃً شدید مخالفت کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا۔ 1898ء میں قادیان آئے اور 1900ء میں پھر حضورؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور خطبہ الہامیہ سننے کا شرف بھی حاصل کیا۔ اس موقعہ پر مسجد اقصیٰ میں ایک گروپ فوٹو لیا گیا جس میں آپ ؓ بھی موجود ہیں۔…آپکی تعلیم اگرچہ معمولی تھی لیکن وسیع مطالعہ اور حضرت مسیح موعودؑ کے عشق کے باعث آپ علم و عرفان میں ایک بلند مقام پر فائز تھے۔ آپؓ کے پاس حضورؑ کے متعدد خطوط تھے ۔ 1902ء میں حضرت مصلح موعودؑ کی پہلی شادی کے موقع پر حضرت سیٹھ صاحبؓ نے ایک سرخ رنگ کی ایک مخملی ٹوپی بھجوائی جس پر یہ الہام لکھوایا ’’مظھر الحق والعلا کأن اللہ نزل من السمآء‘‘ گویا آپ کی دوربین نگاہ نے حضرت مسیح موعودؑ کی حیات مبارکہ میں ہی پیشگوئی مصلح موعود کے حقیقی مصداق کو پہچان لیا تھا۔
حضرت سیٹھ صاحب کو مولانا ابوالکلام آزاد کے بڑے بھائی مولانا ابوالنصر آہ نے ایک خواب سنائی کہ دونوں بھائی قادیان گئے ہیں اور مرزا صاحب سے ملاقات کے دوران ابوالکلام آزاد نے سخت کلامی کی تو پاس ہی بیٹھے ہوئے ایک بزرگ نے ان کو زوردار آواز میں ڈانٹا۔ حضرت سیٹھ صاحب نے انہیں وہی گروپ فوٹو دکھایا تو مولانا نے حضرت مسیح موعودؑ اور ان بزرگ کو پہچان لیا جو خواب میں دکھائے گئے تھے۔ وہ بزرگ حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ تھے۔ اس خواب کے تین سال بعد وہ اپنے چھوٹے بھائی کو لے کر 2 مئی 1905ء کو نماز ظہر سے قبل قادیان پہنچے اور بیعت کی سعادت پائی۔
حضرت سیٹھ صاحبؓ کو یہ سعادت بھی حاصل تھی کہ جو احمدی سمندر پار جایا کرتے ان کی مہمان نوازی آپؓ فرمایا کرتے۔ حضرت مصلح موعودؓ جب حج کے لئے تشریف لے جانے لگے تو بمبئی میں آپؓ ہی کے ہاں قیام فرمایا۔ حضرت سیٹھ صاحبؓ 1935ء میں بمبئی کے پہلے امیر نامزد ہوئے اور 1948ء تک یہ خدمت آپؓ کے سپرد رہی۔ آپؓ بہت عبادت گزار، مہمان نواز اور مالی خدمت میں فیاض تھے۔
1938ء میں آپؑ نے کولمبو میں بھی کاروبار شروع کیا مگر 1942ء میں خسارہ کے ساتھ یہ کاروبار بند کرنا پڑا۔ اس صدمہ کو آپؑ نے بہت صبر کے ساتھ برداشت کیا۔ 1948ء میں آپ کراچی آگئے جہاں 7 دسمبر 1957ء کو وفات پائی اور وہیں دفن ہوئے۔ آپ موصی تھے اس لئے آپ کا یادگاری کتبہ بہشتی مقبرہ قادیان میں نصب کیا گیا۔
حضرت سیٹھ صاحبؓ کا ذکر خیر محترم ریاض محمود باجوہ صاحب کے قلم سے ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ ربوہ مارچ 1997ء میں الفضل کی ایک پرانی اشاعت سے منقول ہے۔