حضرت سیٹھ عبدالرحمٰن صاحب رضی اللہ عنہ

حضرت سیٹھ عبدالرحمٰن صاحبؓ مدراس کے ایک مشہور تاجر خاندان کے چشم وچراغ تھے جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ’’فتح اسلام‘‘ کے ذریعہ حضورؑ کے دعویٰ کا علم ہوا۔ چنانچہ آپؓ حضرت مولوی حسن علی صاحب بھاگلپوریؓ کی رفاقت میں عازم قادیان ہوئے اور11؍جنوری1894ء کو بیعت کی سعادت پائی۔
حضرت مسیح موعودؑ کی آپؓ سے محبت کا اظہار اُن القابات سے ہو سکتا ہے جو حضرت اقدس علیہ السلام نے آپ کے نام خطوط میں تحریر فرمائے۔ مثلاً’’مشفق مکرمی ہمارے بہادر پہلوان حاجی سیٹھ عبدالرحمن صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ‘‘۔ ’’مخلص ومحب یکرنگ حاجی سیٹھ عبدالرحمن سلمہ‘‘ اور ’’مخدومی مکرم اخویم سراپامحبت واخلاص‘‘وغیرہ۔
حضرت سیٹھ صاحبؓ کے نام مختلف خطوط سے حضورؑ کی تحریرات کے نمونے ذیل میں ملاحظہ فرمائیں:-
’’یہ ایک الطاف رحمانیہ ہے اور قبولیت خدمت کی نشانی ہے کہ آپ کی خدمات مالی سے اکثر پیش ازوقت مجھ کو خبر دی جاتی ہے‘‘۔
’’سو آپ کی خدمت کیلئے یہ اجر کافی ہے کہ خداتعالیٰ آپ سے راضی ہے۔ اس کی رضا کے بعد اگر تمام جہان ریزہ ریزہ ہو جائے تو کچھ پرواہ نہیں۔ یہ کشف اور الہام آپ ہی کے بارہ میں مجھ کو دو دفعہ ہوا ہے۔ فالحمدللہ۔ الحمدللہ‘‘۔
’’میں آپ سے دلی محبت رکھتا ہوں‘‘۔
’’آپ کی نہایت محبت اس خط کے لکھنے کا موجب ہوئی۔ ورنہ میں اپنے ہاتھ سے بباعث ضعف کے خط نہیں لکھ سکتا‘‘۔
’’آپ حمایتِ سلسلہ میں ایسے سرگرم ہیں کہ دل وجان سے آپ کے لئے دعا نکلتی ہے‘‘۔
’’ایک دفعہ شدت بیماری میں ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آخری دم ہے ان حالات میں بھی آپ کے لئے دعا کرتا رہا‘‘۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت سیٹھ صاحبؓ کو صدر انجمن احمدیہ کا ٹرسٹی بھی مقرر فرمایا اور آپؓ اپنی وفات تک صدر انجمن احمدیہ کے ممبر رہے۔ آپؓ نے حضورؑ کے ارشاد پر اپنی آپ بیتی بھی تحریر فرمائی جسے حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ نے حضورؑ کے ارشاد پر اخبار’’ الحکم‘‘ میں شائع فرمایا۔ اسی مضمون کو ماہنامہ’’انصاراللہ‘‘ نومبر1996ء میں مکرر شائع کیاگیا۔
حضرت سیٹھ صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ مَیں ابتدائی عمر میں کئی صلحاء وعلماء کی صحبت میں رہا۔ بنگلورکے قریب ایک خراسانی بزرگ تھے جو ’’دودو میاں‘‘ کہلاتے تھے۔ متقی وخوش رُو تھے۔ جب بنگلور آتے تو میرا اکثر وقت ان کے پاس گزرتا ان سے کچھ وظائف بھی سیکھے۔ 14برس کی عمر میں میری شادی ہوئی لیکن مجھے یہ بات زیادہ مرغوب تھی کہ میں تنہا رہوں اور مصلّے پر ہی صبح کروں۔ لیکن کچھ عرصہ بعد حالات بدل گئے اور مجھے کاروبارکو سنبھالنا پڑا۔ اسی دوران والد کا حج کے بعد مکہ میں انتقال ہوگیا اور ذمہ داری بڑھ گئی۔ پھرشراکت داروں نے علیحدگی اختیار کرلی اور مَیں مزید بوجھ تلے دب گیا اور تجارت کی حالت ایسی نازک ہونے لگی کہ 1891ء اور1892ء میں دولاکھ روپے کا نقصان ہوا مگر خدانے ٹھوکر سے بچالیا۔ لیکن میری ایسی حالت ہوگئی کہ مَیں زندگی پر موت کو ترجیح دیتا تھا اور خود کو بدترین مخلوق سمجھتا تھا۔ انہی دنوں میراچھوٹا بھائی بیمار ہوگیا جس کی تبدیلی آب وہوا کیلئے بنگلور میں ایک مکان خریداگیااور میں وہاں ہر ہفتہ دوروز گزارتا تھا۔ ایک مرتبہ میرا دوسرا بھائی وہاں’’فتح اسلام‘‘ لایا جو دعویٰ مسیحیت کے بعد حضورؑکی پہلی کتاب تھی۔ اس کے دوورق پڑھتے ہی ہم سب موجود افراد کا دل قائل ہوگیا۔ مجھے اگرچہ مسیحیت کے دعویٰ پر اپنے عقائد کی وجہ سے تعجب ہوا۔ میں دوسرے ہی دن مدراس روانہ ہوا اور مزید کتب کے حصول کیلئے خط لکھا۔
مسلمانوں کے حالات پر میری گہری نظر تھی۔ کبھی دو مسلمانوں میں اتفاق نہ دیکھا، نوبت کچہری تک بھی جایا کرتی۔ ایسے میں کتابیں آگئیں اور میرا فہم بڑھنے لگا۔ اور میں دوسرے لوگوں کو بھی یہ خوشخبری پہنچانے لگا۔ ایک روزاخبار’’آزاد‘‘ میں خبرپڑھی کہ مرزا صاحب دعویٰ مسیحیت سے دستبردار ہوگئے ہیں۔ یہ پڑھ کر بہت دکھ ہوا۔ کچھ روز بعد بمبئی میں میرے ایک دوست نے اس خبر کی تردید کی اور میری ملاقات حضرت شیخ رحمت اللہ صاحبؓ سے کرادی جن سے مفصل حالات معلوم ہوئے۔ پھر مزید کئی کتب پڑھیں اور زیارت کا شوق بڑھنے لگا۔
کوشش کی کوئی ہمسفر بھی مل جائے۔ ایک مولوی جن سے زیادہ تعلق تھا ان سے ذکر کیاکہ زادراہ میرے ذمہ ہوگا۔مگر ان کو مخالفت میں زیادہ فائدہ دکھائی دیا۔ پھر مولوی حسن علی صاحب بھاگلپوری کو ہمراہ لیا جو حضورؑ کے دعویٰ سے کئی سال قبل آپ کی خدمت میں حاضرہوچکے تھے۔ انہوں نے کئی فال قرآن میں دیکھے اور استخارے بھی کئے، ہرپہلو سے یہی جواب ملا کہ چلے چلئے۔ لیکن وہ کہتے تھے کہ مرزا صاحب بے شک نیک آدمی ہیں لیکن یہ دعویٰ ان کی ظاہری وجاہت سے بڑا دکھائی دیتا ہے۔
جب ہم امرتسر پہنچے تو مولوی محمد حسین کا کوئی چیلا ہم کو مل گیا اور اس نے بہت روکا اور بلائے بد کی طرح دُور تک ہمارا پیچھا کیا اور جھڑک کھا کر دفع ہوا۔ صبح بٹالہ روانہ ہوئے تو وہاں بھی ایک سدراہ ہوا۔ پھریکہ میں قادیان روانہ ہوئے۔
قادیان میں عجیب وغریب لذت سے دل بھرگیا۔ ہمارا سامان ایک مکان میں لگایا گیا اور مَیں (حضرت) مولوی نورالدین صاحبؓ کے پاس بیٹھ گیاکہ کسی نے آکر خبر دی کہ حضورؑاس مکان میں جلوہ فرما ہیں۔ مَیں جلدی سے وہاں پہنچا۔ حضورؑ کا سراپا نورمجسم نظرآیا اور میںدست بوسی کرنے لگا اور جوش محبت سے آنکھوںسے آنسو نکل پڑے۔
حضورؑ رخصت ہوئے تو مولوی حسن صاحب نے بلند آواز سے کہا ’’اللہ اکبر!خدا کی قسم! یہ وہ مرزا نہیں جن کو کچھ برس پہلے میں نے دیکھا تھا۔ یہ تو کوئی اور ہی وجود نظر آرہاہے۔ بیشک اب یہ وہی نظر آرہے ہیں جس کا ان کودعویٰ ہے‘‘۔ اُنہوں نے مجھے کہا کہ بیشک بیعت کرلو۔ اور خود استخاروں کی طرف جھک گئے۔ آخر کامل یقین کے ساتھ بیعت کی اور ہم واپس مدراس روانہ ہوئے۔
مدراس میں میرا بہت استقبال ہوا لیکن مخالفت کی آگ بھی تیز ہوگئی۔ میرا یہ حال تھا کہ ایسی برائیاں جن کاخیال کرکے میں رودیا کرتا تھا ان سے کیسے نجات ملے گی، بیعت کے بعد یکے بعد دیگرے دُور ہوگیئں۔ اگرچہ اب تک خود کو ایک گندہ بشر سمجھتا ہوں مگر اس مولا کریم کی جناب میں قوی امید رکھتاہوں کہ وہ اپنے حبیبؑ کی جوتیوں کے صدقے میری مغفرت کردے گا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں