حضرت شیخ سعدی شیرازیؒ
ایران کے عظیم صوفی شاعر حضرت سعدی شیرازی کے بارہ میں مکرم توقیر احمد آصف صاحب کا ایک مضمون ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ جون 2003ء میں شامل اشاعت ہے۔ آپؒ کا نام مشرف الدین بن مصلح الدین عبداللہ ہے۔ سن ولادت قریباً 606ھ بنتا ہے۔ شیراز کے ایک بااثر خاندان سے تعلق تھا۔ والد کا تعلق فارس کے دربار سے تھا، وہ ایک عالم باعمل انسان تھے جو سعدیؒ کے بچپن میں ہی فوت ہوگئے۔ آپؒ کی والدہ ایک دیندار خاتون تھیں۔
سعدیؒ نے ابتدائی تعلیم شیراز میں حاصل کی۔ اُس وقت شیراز میں کئی بڑے مدرسے موجود تھے لیکن امن و سکون نہ تھا اس لئے سعدیؒ نے بغداد کا رُخ کیا اور مدرسہ نظامیہ میں علم حاصل کیا۔ بعد میں انہوں نے عمر کا ایک بڑا حصہ سیر و سیاحت میں گزارا۔ بڑے وسیع تجربہ اور مشاہدات کے مالک تھے۔ لمبے عرصہ بعد واپس وطن لَوٹے۔ اُس وقت وہاں امن و امان تھا۔ آخری عمر میں سعدیؒ شیراز کے قریب ایک خانقاہ میں گوشہ نشین ہوگئے اور 691ھ میں وہیں وفات پائی۔
آپؒ کی کتب ’’گلستان‘‘ اور ’’بوستان‘‘ بہت معروف ہوئیں۔ ان کے علاوہ بھی عربی و فارسی کے قصائد اور غزلوں کے دیوان ملتے ہیں۔ لیکن مذکورہ کتب کی زبان سادہ، آسان مگر دلکش ہے، انداز بیحد پُراثر ہے۔ آپؒ کے زیادہ مخاطب بادشاہ ہیں جنہیں سمجھانا کسی کے بس کی بات نہیں۔ مثلاً وہ یہ حقیقت بیان کرنا چاہتے ہیں کہ بادشاہ اچھی بات پر ناراض اور بُری بات پر خوش ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ لکھتے ہیں: ’’کبھی تو وہ سلام کرنے پر ناراض ہوجاتے ہیں اور کبھی گالی پر خلعت دیدیتے ہیں‘‘۔ اسی طرح ایک فقیر آدمی کی غربت کی تصویر کشی کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جب بادشاہ نے اُس سے خوش ہوکر انعام دینا چاہا اور کہا کہ دامن پھیلا تو اُس نے جواب دیا کہ دامن کہاں سے لاؤں، میرے پاس تو کپڑا ہی نہیں۔
’’گلستان‘‘ کے کُل آٹھ ابواب ہیں اور اس میں 180 سے زائد حکایتیں ہیں۔ اس کی ایک خوبی یہ ہے کہ اس میں نثر کے ساتھ ساتھ نظم کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔ فارسی اشعار کے ساتھ عربی اشعار، آیات قرآنی، احادیث نبویہؐ اور بزرگوں کے اقوال بھی استعمال کئے ہیں جو آپؒ کی وسعت علم اور قادرالکلامی کی دلیل ہیں۔ آپؒ کے بہت سے اشعار اورمصرعے اب محاورہ کا درجہ پاچکے ہیں۔ آپؒ کی ہر بات اپنے اندر سبق رکھتی ہے اور حقیقت کے قریب تر ہوتی ہے۔ بطور مثال ملاحظہ فرمائیں:
٭ جب بلی عاجز آجاتی ہے تو پنجے سے چیتے کی آنکھ نکال لیتی ہے۔
٭ بھیڑیئے کا بچہ بالآخر بھیڑیا ہی ہوتا ہے خواہ وہ آدمی کے ساتھ رہ کر بڑا ہو۔
٭ سچائی خدا کے راضی ہونے کا سبب ہے، مَیں نے کسی کو نہیں دیکھا کہ سیدھے راستہ پر چل کر بھٹکا ہو۔
٭ امارت دل سے ہوتی ہے مال سے نہیں اور بزرگی عقل سے ہوتی ہے عمر سے نہیں۔
٭ یہ ناممکن ہے کہ ہنرمند مر جائیں اور بے ہنر اُن کی جگہ لے لیں۔