حضرت شیخ عبدالرحیم شرما صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 20 اور 21؍اگست 2003ء میں حضرت شیخ عبدالرحیم شرما صاحبؓ کی سیرۃ پر ایک مضمون شامل اشاعت ہے جسے مکرم خالد محمود شرما صاحب نے ’’اصحاب احمد‘‘ جلد دہم (مرتبہ محترم ملک صلاح الدین صاحب) سے تلخیص کرکے پیش کیا ہے۔
حضرت شیخ صاحب کا سابق نام کشن لعل تھا اور آپ پنڈت رلیا رام اور جمنا دیوی کے بیٹے تھے۔ نسلوں سے ہندوؤں کے ایسے پروہت خاندان سے تعلق رکھتے تھے جن کے مرید کئی قریبی اضلاع میں موجود تھے۔ آپ کے والدین کے ہاں کُل آٹھ بچے پیدا ہوئے جن میں سے آپ کے علاوہ ایک بڑا بھائی اور ایک بہن زندہ رہے باقی بچپن میں ہی فوت ہوگئے۔ آپ 1887ء یا 1888ء میں پیدا ہوئے۔ زمانہ طالب علمی میں ہی شادی ہوگئی۔
آپ کے گھر میں بھی ایک مندر بنا ہوا تھا۔ سب لوگوں کا اعتقاد تھا کہ آپ کے بڑے بھائی میں دیویوں اور دیوتاؤں کی روح حلول کرجاتی ہے ۔ بہت ساری مشرکانہ رسوم کا آپ کا خاندان پابندی کرتا تھا۔ ایسے حالات میں آپ نے جوانی میں قدم رکھا تو طاعون کا مرض پھیل گیا۔ ایسے میں کسی نے افواہ پھیلادی کہ بسنتی دیوی کو بھلانے سے یہ مرض پھیلا ہے اس پر ہر جگہ بسنتی دیوی کی پوجا ہونے لگی، آپ کے گھر میں بھی خصوصیت سے دیوی کی پوجا ہوتی تھی اور آپ کے بھائی کے جسم میں یہ دیوی بھی حلول کرجایا کرتی تھی۔ لیکن اس پوجا کے باوجود آپ کے والد اور بھاوجہ کی طاعون سے وفات ہوگئی۔ پھر چند دن بعد بھتیجا بھی طاعون سے بیمار ہوا تو اُس کی خاطر خاص طور پر پوجا اور منتیں شروع ہوئیں لیکن اُس کی موت کے بعد آپ کا اعتقاد دیویوں سے اُٹھ گیا اور بے چینی رہنے لگی۔
علاقہ کے اکثر لوگ آپ کے والد کے سودی کاروبار کا شکار تھے۔ دو مسلمان کاشتکار بھی اُن میں شامل تھے جن کا سارا غلہ آپکے والد اٹھوا لیا کرتے تھے لیکن سود کی رقم بڑھتی ہی چلی جاتی تھی۔ ایک بار جب اپنے بھائی کے کہنے پر اُن کے ہاں رقم لینے آپ خود گئے تو اُن کے گھر میں غربت کی انتہائی حالت اور فاقے دیکھ کر سخت تکلیف محسوس کی۔ مقروض نے جب رو رو کر قرض کی مدت میں اضافہ مانگا تو آپ نے اُن کا قرض ہی معاف کردیا۔
دوسری طرف بڑے بھائی کی عیاشیوں کی وجہ سے خاندانی کاروبار خسارہ کا شکار ہوگیا یہاں تک کہ اپنے خاندان میں آپ پہلے فرد تھے جسے ملازمت کرنا پڑی۔ لیکن چونگی خانہ میں بطور چپڑاسی ملازم ہونا آپ کی ہدایت کا باعث بن گیا۔ وہاں ایک احمدی منشی عبدالوہاب صاحب محرر تھے۔ شیخ صاحب اکثر اُن کے پاس جا بیٹھتے ۔ آہستہ آہستہ دعوت الی اللہ کا اثر ہونے لگا، البدر اور الحکم کا مطالعہ بھی ہوتا رہا۔ آپ احمدیت کے قریب ہونے لگے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کے حالات تیزی سے بہتر کرنے شروع کردیئے، گھر میں دفن شدہ کافی روپیہ اچانک مل گیا، بہن کی اچھی طرح شادی ہوگئی، چپڑاسی سے جلد ترقی کرکے سپرنٹنڈنٹ بنادیئے گئے۔
انہی دنوں جب حضرت منشی عبدالوہاب صاحبؓ نے آپ سے اپنے قادیان جانے کے ارادہ کا ذکر کیا تو حضرت مسیح موعودؑ کی زیارت کا شوق آپ کو اتنا پیدا ہوا کہ فوراً تیار ہوگئے اور جون یا جولائی 1904ء میں جمعہ کے روز قادیان پہنچے۔ اُس وقت آپ کے کان میں سونے کی بالیاں تھیں۔ لنگر سے کھانا کھاکر مسجد مبارک آگئے۔ جمعہ سے پہلے حضرت مسیح موعودؑ تشریف لائے تو آپ نے مصافحہ کیا اور حضورؑ کی زیارت سے دل بہت متأثر ہوا۔ اگرچہ آپ کی نیت بیعت کی نہیں تھی اور منشی صاحب نے بھی یہی کہا تھا کہ آپ نوعمر ہیں اس لئے ابھی بیعت نہ کریں تاکہ ہندو کوئی فتنہ نہ کھڑا کردیں۔ لیکن دیدار کرتے ہی آپ اس کوچہ کے اسیر ہوچکے تھے۔ چنانچہ مغرب کے بعد خود آگے بڑھ کر بیعت کرلی اور اپنا نام رحیم بخش لکھوادیا جو خلافت اولیٰ میں بدل کر عبدالرحیم کردیا۔ سات روز قادیان میں گزار کر آپؓ واپس آگئے۔ پھر اگرچہ حضورؑ کی زندگی میں دوبارہ قادیان نہ جاسکے لیکن خط و کتابت ہوتی رہی۔
ایک عرصہ تک آپ نے احمدیت خفیہ رکھی۔ چھپ کر نمازیں پڑھتے رہے۔ ایک روز دفتر سے گھر آتے ہوئے آپؓ کی طبیعت خراب ہوئی اور ایسا لگا گویا آخری وقت ہے۔ اُس وقت آپؓ نے نماز میں دعا کی کہ خدا تعالیٰ آپؓ کو اتنی مہلت دیدے کہ اپنے دین کا اظہار اعلانیہ کرسکیں۔ چنانچہ نماز میں ہی آپؓ کی حالت سنبھلنے لگی۔ بعد میں سوچنے لگے کہ اگر اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کیا تو ماں، خاندان حتیٰ کہ بیوی بچے بھی ساتھ چھوڑ دیں گے، جائیداد اور ملازمت سے بھی ہاتھ دھونا پڑیں گے، … لیکن پھر خدا تعالیٰ سے کیا ہوا عہد یاد آتا تو زیادہ پریشان ہوجاتے۔ چنانچہ سارے حالات حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل کی خدمت میں لکھ دیئے۔ حضورؓ نے فرمایا کہ کچھ دیر توقف کرو اور اپنی اہلیہ کو تبلیغ کرکے اپنے ساتھ لانے کی کوشش کرو۔
لیکن تبلیغ کے بعد جب آپ کی بیوی دونوں لڑکے لے کر اپنے باپ کے ہاں چلی گئی کہ وہ اپنا مذہب نہیں بدلے گی تو آپؓ نے سوچا کہ اسی عورت کے لئے رُکا ہوا تھا جب اس نے ساتھ نہیں دیا تو مزید توقف کی ضرورت نہیں۔ چنانچہ تین چار قلمی اشتہار لکھے کہ اپنی خوشی سے مسلمان ہوتا ہوں اور رات کو شہر کی مختلف جگہوں پر یہ اشتہار چسپاں کردیئے۔ اس پر برادری نے آپؓ کے خاندان کا بائیکاٹ کردیا ۔ بعد میں اس شرط پر معافی ملی کہ خاندان آپؓ سے قطع تعلق رکھے گا۔
آپ کی والدہ کو آپؓ سے بہت محبت تھی۔ اگرچہ برادری کے ڈر کی وجہ سے آپ دونوں کی ملاقات نہ ہوسکتی لیکن وہ روزانہ آپؓ کے راستہ میں کھڑی ہوکر بلند آواز میں رویا کرتیں۔ جب اُن کی حالت بگڑنے لگی تو آپؓ نے ایک مسلمان عورت کے ذریعہ انہیں پیغام بھیجا کہ رات کو اُس عورت کے گھر آکر ملاقات کرلیں۔ پھر بعد میں اسی طرح چھپ کر ملاقاتیں ہونے لگیں۔
ایک بار آپؓ شدید بیمار ہوئے تو شیطانی وساوس آنے لگے کہ احمدی ہوکر تم نے کیا لیا، سب نے ساتھ چھوڑ دیا، ہندو ہوکر بھی عبادت کرتے رہتے…۔ اس پر آپؓ نے نماز شروع کردی اور رو رو کر دعا کی کہ اے اللہ! تیرا ساتھ کبھی نہ چھوٹے۔ پھر نماز ختم کی تو آپؓ کا بخار بھی اُتر چکا تھا۔
جب آپؓ کے دل میں قرآن کریم کا ترجمہ سیکھنے کی خواہش پیدا ہوئی لیکن اس کی کوئی صورت اپنے علاقہ میں نہیں نکل سکتی تھی۔ انہی دنوں رسالہ ’’تشحیذالاذہان‘‘ کیلئے ایک آسامی نکلی تو آپؓ نے بھی درخواست دیدی کہ دین کی تعلیم سیکھنے کیلئے قادیان آنے کو تیار ہوں۔ اُس وقت ایک رؤیا بھی دیکھا کہ قادیان میں ہیں اور ایک کتب خانہ کی چابیاں آپ کو دی گئی ہیں۔ چنانچہ جب بلانے پر آپؓ قادیان پہنچے تو تشحیذ الاذہان کی لائبریری کی چابیاں آپؓ کے سپرد کردی گئیں۔ آپؓ اپنی ملازمت سے چھ ماہ کی بلاتنخواہ رخصت لے کر قادیان گئے تھے اور حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحبؓ کے پوچھنے پر عرض کیا تھا کہ دس روپیہ ماہوار مل جائے تو اُس میں سے پانچ روپے اپنی والدہ کو بھیج کر باقی پیسوں میں گزارا کرلوں گا اور اگر اُس سے کم میں بھی گزارا ہوسکتا ہو تو بھی کرلوں گا۔ 26؍دسمبر 1910ء کو آپؓ نے قادیان میں ملازمت کا آغاز کردیا۔
آپؓ کی بیوی کے احمدی نہ ہونے کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اپنے باپ کی جائیداد کی وہ اکیلی وارث تھی جو احمدی ہونے کی صورت میں اس کو نہ مل سکتی لیکن 1930ء میں آپؓ کی پہلی بیوی اور دونوں لڑکے اور خسر بھی طاعون سے فوت ہوگئے۔ 1914ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے آپؓ کی دوسری شادی کا انتظام حضرت عائشہ بیگم صاحبہؓ کے ساتھ کیا جو 1904ء میں اپنے والد حضرت کرم داد خان صاحبؓ کی وفات کے بعد حضرت اماں جانؓ کے سایہ میں پرورش پاتی رہی تھیں۔ اس بیوی سے اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو پانچ بیٹے اور چار بیٹیاں عطا فرمائیں۔ سب سے بڑے بیٹے محترم مولوی عبدالکریم شرما صاحب سابق مبلغ مشرقی افریقہ (حال لندن) ہیں، دوسرے بیٹے محترم میجر عبدالحمید شرما صاحب بھی لمبا عرصہ وقف جدید کے تحت نگرپارکر مٹھی میں خدمت بجالاتے رہے ہیں۔ تیسرے بیٹے مکرم عبدالرشید شرما صاحب سندھ میں کئی اضلاع کے امیر جماعت رہ چکے ہیں اور اُن کے دو بیٹوں محترم مبارک احمد شرما صاحب اور محترم مظفر احمد شرما صاحب کو شہادت کا رتبہ بھی عطا ہوا ہے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے دونوں شہداء کا ذکر کرتے ہوئے خطبہ جمعہ میںفرمایا تھا: ’’ان کے دادا منشی عبدالرحیم شرما ہندو سے مسلمان ہوئے تھے اور بہت ہی اخلاص رکھتے تھے۔ یہ انہی کا اخلاص ہے جو آج ان کے پوتوں کی شہادت کی صورت میں بول رہا ہے۔
آپؓ کو دفتر تشحیذالاذہان کے بعد نظارت امور عامہ اور نظارت بیت المال میں کام کرنے کی توفیق ملی جہاں آپؓ ہیڈکلرک رہے۔ آپؓ تحریک جدید کے دور اوّل کے مجاہدین میں بھی شامل تھے۔