حضرت شیخ عطاء اللہ صاحبؓ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 31؍جولائی 2001ء میں مکرمہ نسیم ذکاء اے ملک صاحبہ اپنے دادا حضرت شیخ عطاء اللہ صاحبؓ کا تفصیلی ذکر خیر کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ آپ کا تعلق جہلم کے ایک ہندو گھرانہ سے تھا اور آپ کا نام ہری چند ولد لجپت رائے تھا۔ آپ اکثر کشمیر آیا کرتے تھے جہاں آپ کی ملاقات حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحبؓ سے ہوئی اور حضورؓ کے ذریعہ ہی آپ کو 1894ء میں 16 سال کی عمر میں قبول احمدیت کی سعادت نصیب ہوئی۔ پھر آپ کا اسلامی نام شیخ عطاء اللہ رکھا گیا اور حضورؓ نے آپ کو اپنا بیٹا بنالیا۔ حضرت شیخ صاحب کو قبول احمدیت کی وجہ سے گھر سے نکلنا پڑا اور آپؓ ایک لمبا عرصہ قادیان میں حضورؓ کے ہاں ہی مقیم رہے۔ اس دوران آپؓ کو حضرت مسیح موعودؑ کے قریب رہنے کا موقع بھی خاص طور پر میسر آتا رہا۔
پھر آپؓ محکمہ ٹیلی گراف راولپنڈی میں ملازم ہوگئے۔ کچھ عرصہ بعد آپؓ کو سخت ٹی بی ہوگئی۔ اس پر آپؓ رخصت لے کر قادیان آگئے اور حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کے گھر میں مقیم ہوکر حضورؓ کا ہی علاج شروع کیا۔ رخصت ختم ہونے پر حضرت مسیح موعودؑ سے دعا کے لئے عرض کیا تو حضورعلیہ السلام نے دعا کرنے کا وعدہ فرمایا اور آپؓ واپس راولپنڈی آگئے۔ وہاں پہنچ کر آپؓ کو ایک رؤیا ہوئی جو غیرزبان میں تھی۔ آپؓ نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ خود آپؓ کو اس کا مطلب سمجھادے۔ چنانچہ سوجانے پر آپ ؓ کو آواز آئی: ہیلتھ، ہیلتھ، ہیلتھ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو شفا عطا فرمائی اور بیس پچیس سال تک آپؓ کبھی درد سے بھی بیمار نہیں ہوئے۔ آپؓ کی شادی بھی ایک ایسے خاندان میں ہوئی جو ہندوؤں سے احمدی ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو چار بیٹوں اور چار بیٹیوں سے نوازا۔ اب تیسری نسل تک یہ تعداد 211 ہوچکی ہے۔
حضرت شیخ صاحبؓ نے 1951ء میں 89 سال کی عمر میں لاہور میں وفات پائی۔ 1922ء میں آپؓ نے ایک خواب میں اپنی بقایا عمر 28 سال دیکھی تھی اور اپنی اہلیہ کی مزید 20 سال۔ چنانچہ آپؓ کی اہلیہ بھی آپؓ کے پورے بیس سال بعد وفات پاگئیں۔
حضرت شیخ صاحبؓ نے نہایت خاموش طبع اور خوش مزاج انسان تھے۔ آپؓ نے اپنی ایک بیٹی کو شادی کے موقع پر جو نصائح تحریر کیں، اُن میں لکھا: ہمارے پاس اب تک تم بطور امانت تھیں ، دراصل اب تم اپنے گھر جارہی ہو۔ ہمیشہ بڑوں کا ادب اور چھوٹوں سے پیار و محبت کرنا، ساس نندوں کا ادب ملحوظ خاطر رکھنا۔ اکثر عورتوں میں یہ بڑا عیب پایا جاتا ہے کہ وہ ساس نندوں کی ذرا ذرا سی بات کو اپنے خاوندوں سے کہہ دیا کرتی ہیں، تم ایسی معیوب باتوں سے بچی رہنا۔ ہمیشہ آہستہ اور نرم آواز میں شیریں کلامی کو کام میں لانا کیونکہ بلند اور ترش آواز سے بولنا شریفوں کا طریقہ نہیں ہے۔ اس بات کا ضرور خیال رکھنا کہ جس کے ساتھ تمہارا پلہ باندھ دیا ہے، اس کی خدمت کرنے میں کبھی فروگذاشت نہ کرنا۔ وہ تمہارا مجازی خدا ہے۔ اپنے محبوب حقیقی خدا کو ہرگز نہ بھولنا۔ ہمسایوں سے ہمیشہ خوش اسلوبی اور شیریں کلام سے برتاؤ کرنا۔ بعض دوست نما دشمن بھی ہوتے ہیں، اُن کے پاس نہ بیٹھنا۔مصیبت کے وقت ہرگز نہ گھبرانا بلکہ اپنی حاجتوں کو اپنے حاجت روا خدا کے آگے پیش کرنا اور کوئی ایسی بیہودہ بات نہ کرنا کہ ہماری عزت پر حرف آئے کہ شرمندگی سے سر جھکانا پڑے۔ پھلو پھولو، اپنے شوہر کیلئے فخر کا باعث ہو۔