حضرت شیخ غلام نبی صاحبؓ
حضرت شیخ غلام نبی صاحبؓ چکوال ضلع جہلم کے رہنے والے تھے اور راولپنڈی میں دکان کرتے تھے۔ آپ کے خودنوشت حالات جو مکرم ملک محمد اکرم صاحب نے مرتّب کئے ہیں، روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 20؍مارچ 1999ء میں شامل اشاعت ہیں۔
حضرت شیخ صاحبؓ لکھتے ہیں کہ 1892ء میں مَیں راولپنڈی میں تھا جب حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ کے چچا چودھری محمد بخش صاحب سیالکوٹی میرے پاس تشریف لائے اور حضرت مسیح موعودؑـ کے دعویٰ کا ذکر کیا اور میرے دریافت کرنے پر یہ بھی بتایا کہ میرے دو پرانے جاننے والے یعنی حضرت مولانا نورالدین صاحب ؓ اور حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ بھی بیعت کرچکے ہیں۔ مجھے اس وقت بخار تھا، چنانچہ مَیں نے اُن سے درخواست کی تو وہ ایک کارڈ لے آئے اور میری طرف سے بیعت کا خط لکھ دیا، مَیں نے صرف دستخط کئے۔ اس کے بعد گھر میں اور باہر بھی شدید مخالفت شروع ہوگئی۔
جب پہلی دفعہ قادیان گیا اور حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضور نے فرمایا چارپائی پر بیٹھو۔ مَیں نے عرض کی آپ چارپائی پر تشریف رکھیں اور مَیں چٹائی پر بیٹھوں گا۔ اس پر ایک شخص نے کہا تابعداری کرو۔ پس میں چارپائی پر بیٹھ گیا۔ حضور نے ٹین کھول کر مصری نکالی اور گلاس میں ڈال کر خود ہی گھڑے سے پانی ڈال کر شربت بناکر مجھ کو دیا کہ پیئو۔ پھر روٹی کے متعلق پوچھا اور فرمایا کہ آپ نیچے گول کمرے میں آرام کریں۔حضرت جی کے مکان میں ایک کرسی، ایک میز، ایک چارپائی، ایک چٹائی اور ایک پرانا سا بکس تھا۔ اُس وقت چند یوم وہاں ٹھہرا رہا، ہم صرف تین چار آدمی تھے۔ حضرت جی سے ’’براہین احمدیہ‘‘ مانگی۔ فرمایا کہ ختم ہوچکی ہے مگر ایک جلد ہے جس پر میں تصحیح کرتا ہوں، اس میں بھی پہلا حصہ نہیں ہے مگر پہلا حصہ تو فقط اشتہار ہے، آپ یہی تین حصے لے جائیں۔… پھر مَیں وہاں سے روانہ ہوکر بھیرہ میں حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ سے ملتا ہوا واپس چلا آیا۔ اس کے بعد دھڑادھڑ کفر کے فتوے لگنے شروع ہوگئے۔
میرے گھر میں اٹھرا کی بیماری تھی چنانچہ میں مع بال بچے قادیان آیا کہ وہاں جاکر حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ سے علاج کراؤں۔ ایک روز حضور علیہ السلام کچھ احمدیوں کے ہمراہ باغ میں تشریف لے گئے اور مالی سے فرمایا کہ شہتوت توڑ کر لاؤ کہ یہ سب کھاویں۔ اتنے میں میری اہلیہ خود اپنے ہاتھ سے تھوڑے سے شہتوت توڑ کر لے آئی اور حضور کی خدمت میں پیش کئے۔ حضرت اماں جانؓ نے آپؑ کو بتایا کہ یہ غلام نبی کی بی بی ہاتھ سے توڑ کے آپؑ کے لئے لائی ہے۔ حضور نے اوپر دیکھا اور فرمایا ’’خدا اس کو بیٹا دے‘‘۔ مَیں شہر میں مولوی صاحبؓ کے مطب میں بیٹھا تھا کہ مولوی صاحبؓ روٹی کھاکر گھر سے آئے اور مجھے مبارکباد دی کہ اب دوائی کی ضرورت نہیں کیونکہ حضورؑ نے یہ لفظ فرمائے ہیں جو پورے ہوں گے۔ دو چار یوم کے بعد مَیں نے رخصت لی اور روانہ ہونے کیلئے حضورؑ سے مصافحہ کیا تو حضورؑ وداع کرنے کیلئے ہمراہ آئے اور جب یکہ پر سوار ہونے لگا تو فرمایا چند یوم اَور ٹھہر جاؤ۔ مَیں نے یکہ والے کے متعلق کہا تو فرمایا دو چار آنے اس کو دیدیں گے، راضی ہو جائے گا۔ چنانچہ پھر چند یوم وہاں رہے۔ پھر رخصت طلب کی کہ حضور جانے کو دل نہیں چاہتا مگر شراکت کی تجارت ہے۔… تھوڑی مدت کے بعد لڑکا پیدا ہوا جو ڈیڑھ سال کا ہوکر فوت ہوگیا۔ مَیں نے حضورؑ کی خدمت میں لکھا کہ یہ لڑکا تو آپ کا معجزہ تھا۔ امید تھی کہ بڑی عمر والا اور سعادتمند ہوگا۔ تو حضورؑ نے لکھا کہ خدا نعم البدل عطا کرے، دوسرے معجزے کے منتظر رہو۔ پھر مَیں نے ساری برادری کو برملا سنا دیا۔ چنانچہ پھر لڑکا کرم الٰہی پیدا ہوا۔
ایک دفعہ جب مَیں بال بچوں سمیت قادیان میں رہ رہا تھا تو آدھی رات کو دروازہ کھٹکا۔ دیکھا تو حضرت اقدسؑ ایک ہاتھ میں لیمپ اور دوسرے میں لوٹا اور گلاس پکڑے ہیں۔ فرمایا کہ ’’بھائی صاحب! دودھ آگیا تھا اور مَیں آپ کیلئے لے آیا ہوں‘‘۔
جب ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ چھپی تو حضورؑ نے ایک دن فرمایا کہ ان مخالفین کو تبلیغ کی جاوے مگر یہ لوگ عربی خواں ہیں اور میں اردو۔ ہاں مَیں مضمون بنا لاتا ہوں، مولوی نورالدین صاحب اور مولوی عبدالکریم صاحب وغیرہ مل کر عربی کریں۔ جب صبح حضورؑ تشریف لائے تو فرمایا کہ مجھ کو آج چالیس ہزار عربی مادہ کا علم دیا گیا ہے۔ تھوڑی سی عبارت لکھ کر لائے تو مولوی صاحبان یہ دیکھ کر حیران ہوگئے کہ ہم نے عمر عربی میں گزار دی مگر ایسی عبارت ہمارے خیال میں بھی نہیں آئی۔
جب ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ چھپ رہی تھی تو اُن دنوں مَیں قادیان گیا۔ جب واپس آنے لگا تو اسّی صفحـہ تک چھپ چکی تھی۔ مَیں نے اس حصہ کتاب کو لے جانے کے لئے عرض کیا تو مولوی عبدالکریم صاحبؓ نے فرمایا کہ جب تک کتاب مکمل نہ ہو، دی نہیں جاسکتی۔ تب حضور نے فرمایا جتنی چھپ چکی ہے میاں غلام نبی کو دے دو اور لکھ لو کہ پھر اَور بھیج دی جائے گی اور مجھے فرمایا کہ اس کو مشتہر نہ کرنا، جب تک مکمل نہ ہوجائے۔
ایک دفعہ مَیں نے حضور کی خدمت میں عرض کیا کہ نماز میں آنکھیں کھول کر توجہ قائم نہیں رہتی تو فرمایا کہ آنکھوں کو خوابیدہ رکھا کرو۔
ایک مرتبہ مولوی عبدالکریم صاحبؓ نے فرمایا کہ لوگ حضرت صاحب کو بار بار دعا کیلئے رقعہ لکھ کر اوقات گرامی میں حارج ہوتے ہیں۔ مَیں نے خیال کیا کہ مَیں ہی حضورؑ کو بہت تنگ کرتا ہوں۔ سو مَیں اسی وقت حضورؑ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ حضورؑ ہماری ان باتوں سے تنگ آتے ہوں تو ہم انہیں چھوڑ دیں۔ حضورؑ نے فرمایا ’’نہیں، بار بار لکھو، جتنا زیادہ یاد دہانی کراؤ گے، اتنا ہی بہتر ہوگا۔‘‘
جب حضرت جی کو یہ الہام ہوا کہ ’’بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے‘‘ تو مَیں نے عرض کی حضور! وہ بادشاہ تو آئیں گے جب آئیں گے، آپؑ مجھ کو تو ایک کپڑا عنایت فرمائیں۔ اس پر حضرت صاحبؓ نے اپنا کرتہ مرحمت فرمایا۔
حضرت شیخ غلام نبی صاحبؓ نے 1898ء کے جلسہ طاعون میں بھی شرکت کی۔ نیز مالی تحریکات پر بھی لبیک کہا جس کی تفصیل مذکورہ مضمون میں پیش کی گئی ہے۔ آپؓ موصی بھی تھے اور ساری وصیت اپنی زندگی میں ادا کردی۔1924ء میں ہجرت کرکے قادیان آبسے اور آخری عمر تک یہیں رہے۔