حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 2؍نومبر 2001ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کا ذکر خیر کرتے ہوئے آپؓ کے بیٹے مکرم صاحبزادہ مرزا مجید احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ مَیں نے اباجان سے پوچھا کہ حضرت مسیح موعودؑ کو جو الہامات آپؓ کے متعلق ہوئے ہیں، اُن میں آپؓ کو مختلف القابات سے نوازا گیا ہے، ان القابات میں سے آپؓ کو کون سا زیادہ اچھا لگتا ہے۔ آپؓ نے بلاتوقف جواب دیا: ’’طِفلی‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ خاکساری و انکساری ہی آپؓ کا اوڑھنابچھونا رہا۔
مجھے بےشمار مواقع یاد ہیں جب کوئی دردمند آپؓ سے مشورہ کے لئے حاضر ہوتا۔ آپؓ اُس سسکیاں لیتے وجود کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر تسلّی دیتے اور ہر طرح سے اُس کی دلجوئی کرتے کہ وہ پُرسکون کیفیت میں سلام کرکے یوں رخصت ہوتا جیسے آپ نے اُس کے درد کو جذب کرلیا ہو۔
ایک بار مَیں نے پوچھا کہ حضرت مصلح موعودؓ اور آپؓ کی عمروں میں زیادہ فرق نہیں ہے مگر اُن کا آپؓ پر رعب بہت ہے۔ یہ کیفیت خلافت کے بعد ہوئی یا بچپن سے ہی اسی طرح ہے؟ فرمایا:
Some children are born to rule
یعنی بعض بچے پیدائشی قائدانہ صلاحیت رکھتے ہیں اور حضورؓ میں یہ صلاحیت بدرجہ اتم موجود تھی۔ خلافت کا اپنا رعب اور دبدبہ ہوتا ہے اور پیدائشی صلاحیت اس کے علاوہ رہتی ہے۔
ایک بار مَیں نے اباجان سے پوچھا کہ حضرت مسیح موعودؑ نے اپنی نظم میں سب بچوں کیلئے دعا کی ہے ’’دے ان کو دین و دولت‘‘۔ لیکن سوائے چچا ابا کے اَور کسی کے پاس دولت نہیں ہے، خاص طور پر آپؓ کے پاس نہیں ہے۔ اس پر آپؓ نے فرمایا کہ غریب وہ ہوتا ہے جس کی ضرورتیں پوری نہ ہوتی ہوں۔ اوّل تو میری ضرورتیں ہی محدود ہیں جو تمام اللہ تعالیٰ پوری کردیتا ہے۔ اگر تمہارا اشارہ اس طرف ہے کہ حضرت صاحب کے پاس کار ہے اور میرے پاس نہیں ہے تو کار حضرت صاحب کی ضرورت ہے۔ خلیفہ وقت کو اللہ تعالیٰ دین کے علاوہ ایک دنیاوی حیثیت سے بھی مقام دیتا ہے۔ دوسرے حضرت صاحب اپنی فیملی کے ساتھ ہر سال گرمیوں میں پہاڑ پر چلے جاتے ہیں اور مَیں نہیں جاتا۔ اس کی دو وجوہ ہیں۔ حضرت صاحب کو گرمی زیادہ لگتی ہے اور اُن کی صحت یہ تقاضا کرتی ہے کہ وہ ہر سال پہاڑ پر جائیں۔ یہ صرف اُن کی صحت کا ہی سوال نہیں، قوم کو ضرورت ہوتی ہے کہ اُس کا لیڈر صحتمند ہو۔ جہاں تک میرا سوال ہے تو میرا دل ہی نہیں چاہتا کہ مَیں قادیان چھوڑ کر باہر جاؤں۔ اس طرح مجھے تو نہیں لگتا کہ مَیں غریب ہوں۔