حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی پیدائش 20؍اپریل 1893ء کو ہوئی۔ قریباً ساڑھے چار ماہ قبل حضرت مسیح موعودؑ کو الہاماً بتایا گیا:
’’قمرالانبیاء آئے گا اور تیرا کام بن جائے گا۔ اللہ تجھے خوش کرے گا اور تیری برہان کو روشن کرے گا۔ تیرے ہاں ایک لڑکا پیدا کیا جائے گاور فضل تجھ سے نزدیک کیا جائیگا یعنی وہ خدا کے فضل کا موجب ہوگا اور میرا نُور قریب ہے۔‘‘
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 26؍اکتوبر 2002ء میں ذاتی مشاہدات کے حوالہ سے مکرم مرزا عبدالحق صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ بہت متحمل مزاج اور دوسروں کے احساسات کا خیال رکھنے والے تھے۔ مجھے کئی بار دوستوں کے کاموں کے سلسلہ میں آپؓ کی خدمت میں حاضر ہونا پڑا، آپؓ ہمیشہ بشاشت سے توجہ فرماتے اور کبھی انکار نہ کرتے۔ خطوط کا جواب باقاعدہ دیتے۔ فوت ہونے والے دوستوں کی خوبیوں پر مضمون لکھ کر شائع کرواتے۔ ایک بار میری ایک تکلیف کا علم ہوا تو قادیان کی ساری مساجد میں دعا کا اعلان کروادیا۔ وقت کی پابندی فرماتے اور کوشش کرتے کہ دوسروں کا وقت ضائع نہ ہو۔ معاملات کی گہرائی تک پہنچتے اور ایسا راستہ اختیار کرتے کہ دوسرے بھی متفق ہوجائیں۔ کسی معاملہ پر رائے دیتے تو کوئی پہلو تشنہ نہ چھوڑتے۔ ہمیشہ احسان کرتے۔ قرضہ دیتے وقت لکھوالیتے تاکہ شریعت کا منشاء پورا ہو لیکن تقاضا نہ کرتے، مقروض تنگدست ہوتا تو بسااوقات قرضہ چھوڑ دیتے۔ قرض لیتے تو سنّت رسولﷺ کے مطابق زیادہ واپس کرتے۔ بھائیوں کی زمین کا انتظام وانصرام آپؓ کے سپرد ہوتا۔ سب مطمئن ہوتے کہ آپؓ کے ہاتھوں میں حقوق پوری طرح محفوظ ہیں۔