حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ
(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن4؍و 11؍ستمبر 2023ء)
لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘برائے2013ء نمبر1 میں مکرمہ سلمیٰ منیر باجوہ صاحبہ اور مکرمہ فوزیہ بشریٰ صاحبہ کے قلم سے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی سیرت کے حوالے سے ایک تفصیلی مضمون شامل اشاعت ہے۔
حضرت مصلح موعودؓ کی پیدائش کے بعد حضرت مسیح موعودؑ کو ایک اَور فرزند کی بشارت دی گئی جسے حضورؑ نے ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ میں شائع فرمایا۔ اس عربی الہام کا ترجمہ یہ ہے: نبیوں کا چاند آئے گا اور تیرا کام تجھے حاصل ہوجائے گا۔ خدا تیرے منہ کو بشاش کرے گا اور تیرے برہان کو روشن کردے گا۔ اور تجھے ایک بیٹا عطا ہوگا اور فضل تجھ سے قریب کیا جائے گا۔ (صفحہ 267ایڈیشن2009ء)
اس پیشگوئی کے مطابق 20؍ اپریل 1893ء کو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی ولادت ہوئی۔ آپؓ کی پیدائش گو بشارات الٰہیہ کے ماتحت ہوئی مگر انکسار کا یہ عالم تھا کہ آپؓ نے ایک دفعہ فرمایا’’میں جب اپنے نفس پر نگاہ کرتا ہوں تو شرم کی وجہ سے پانی پانی ہوجاتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ہمارے جیسے کمزور انسان کی پیدائش کو بھی بشارات کے قابل خیال کرتا ہے۔ پھر اس وقت اس کے سوا سارا فلسفہ بھول جاتا ہوں کہ خدا کے فضل کے ہاتھ کو کون روک سکتا ہے۔ اَللّٰھُمَّ لَامَانِع لَمَا اَعْطَیْتَ وَلَا مُعْطِیْ لَمَا مَنَعْت…۔‘‘
حضرت صاحبزاہ صاحبؓ کو بچپن میں آشوب چشم کا عارضہ لاحق ہوگیا،پلکیں گر گئی تھیں، آنکھوں سے پانی بہتا رہتا تھا۔ کئی سال تک انگریزی اور یونانی علاج کیا گیا مگر کچھ فائدہ نہ ہوا بلکہ حالت اور تشویش ناک ہوگئی۔ آخر حضرت مسیح موعودؑ نے دعا کی تو حضورؑکو الہام ہوا ’’برَّق طفلیِ بشیر‘‘(میرے لڑکے بشیر احمد کی آنکھیں اچھی ہوگئیں) چنانچہ ایک ہفتہ میں اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو کامل شفا بخشی اور نہ صرف بصارت بلکہ بصیرت کی آنکھیں بھی ایسی روشن ہوئیں کہ مادی اور روحانی علوم کے دروازے آپؓ پر کھل گئے۔
جب آپؓ کی عمر قریباً تین سال تھی تو آپؓ کو شکر کھانے کی عادت ہوگئی۔ حضرت اقدسؑ کے پاس آپؓ پہنچتے اور ہاتھ پھیلا کر کہتے’’اباچِٹّی‘‘ (کیونکہ بولنا پورا نہیں آتا تھااور مراد یہ تھی کہ سفید رنگ کی شکر لینی ہے)۔ حضور علیہ السلام تصنیف میں بھی مصروف ہوتے تو کام چھوڑ کر فوراً اٹھتے، کوٹھری میں جاکر شکر نکال کر دیتے اور پھر تصنیف میں مصروف ہوجاتے۔ تھوڑی دیر میں آپؓ پھر دست سوال دراز کرتے ہوئے پہنچ جاتے اوریہ سلسلہ جاری رہتا۔
حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ فرماتی ہیں کہ میری ہوش میں پہلا نظارہ منجھلے بھائی کے بچپن کا مجھے صاف یاد ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کہیں باہر سے تشریف لائے تو گھر میں خوشی کی لہر سی دوڑ گئی۔ آپؑ آکر بیٹھے اور سب مع حضرت امّاں جانؓ بھی بیٹھے تھے کہ ایک فراخ سینہ ،چوڑے منہ والا ہنس مکھ لڑکا سرخ چوگوشہ مخملی ٹوپی پہنے بے حد خوشی کے اظہار کے لیے آپؑ کے سامنے کھڑا ہوکر اچھلنے کودنے لگا۔ یہ میرے پیارے منجھلے بھائی تھے۔ حضرت اقدسؑ مسکرا رہے ہیں، دیکھ کر خوش ہو رہے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ’’جاٹ ہے جاٹ۔‘‘
حضرت امّاں جانؓ آپؓ کو خاص محبت اور پیار کی نگاہ سے دیکھتی تھیں اور بشیر کی بجائے بشریٰ کہہ کر پکارتی تھیں۔ کبھی کبھی ’منجھلے میاں‘بھی کہا کرتی تھیں۔
طبیعت میں سنجیدگی اور حجاب بہت جلدی پیدا ہو گیا تھا۔ بہت کم بولتے اور کم ہی بےتکلّف ہوکر سامنے آتے۔ ویسے طبیعت میں لطیف مزاح بچپن سے تھا۔ ایسی بات کرتے چپکے سے کہ سب ہنس پڑتے اور خود وہی سادہ سا منہ بنائے ہوتے۔ حضرت امّاں جانؓ فرماتی تھیں کہ اوّل تو بچوں کو کبھی میں نے مارا نہیں، ویسے ہی کسی شوخی پر اگر دھمکایا بھی تو میرا بشریٰ ایسی بات کرتا کہ مجھے ہنسی آ جاتی اور غصہ دکھانے کی نوبت نہ آنے پاتی۔ ایک دفعہ شاید کپڑے بھگو لینے پر ہاتھ اٹھا کر دھمکی دی تو بہت گھبرا کر کہنے لگے ’نہ امّاں کہیں چوڑیاں نہ ٹوٹ جائیں۔‘ اور حضرت امّاں جانؓ نے مسکرا کر ہاتھ نیچے کر لیا۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی آنکھیں بچپن میں خراب ہوگئیں اور یہ تکلیف سات سال تک رہی۔ 1901ء میں اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو معجزانہ شفا عطا فرمائی تو آپؓ باقاعدہ طور پر تعلیم الاسلام سکول میں داخل ہوئے۔ 1910ء میں آپؓ میٹرک کے امتحان میں سکول میں اوّل آئے۔ پھر گورنمنٹ کالج لاہور سے 1912ء میں ایف اے کیا۔ آپؓ بی اے میں زیرتعلیم تھے کہ اچانک کالج چھوڑ دیااور قادیان آکر حضرت خلیفۃا لمسیح الاولؓ سے قرآن وحدیث پڑھنے میں مشغول ہوگئے۔ محترم میر محموداحمد صاحب ناصرکی روایت ہے کہ کسی طالب علم نے اسلام یااحمدیت کے متعلق کوئی ایساسوال کیا جس کا آپؓ فوری جواب نہ دے سکے تو اس کا آپؓ کی طبیعت پر ایسا اثر ہوا کہ آپؓ نے یہ فیصلہ کیا کہ جب تک مَیں قرآن پورے طور پرنہ پڑھ لوں گا کالج نہیں جاؤں گا۔ حضرت قاضی محمد اکمل صاحبؓ سے فرمایا: ’کالج تو پھر بھی مل جائے گا مگر زندگی کا کچھ اعتبار نہیں،ممکن ہے کہ قرآن مجید وحدیث پڑھنے کا موقع، وہ بھی نورالدین ایسے پاک انسان سے پھر نہ مل سکے۔‘
1914ء میں آپؓ نے بی اے اور 1916ء میں ایم اے عربی کرلیا۔ اس طرح حضرت مسیح موعودؑکی خواہش اور پیشگوئی پوری ہوگئی۔ آپؓ سے حضرت امّاں جانؓ نے بیان فرمایا تھا کہ جب تم شاید دوسری جماعت میں ہوگے کہ ایک دفعہ چارپائی پر الٹی سیدھی چھلانگیں مارتے دیکھ کر حضرت اقدسؑ نے تبسم فرمایا اور پھر فرمایا: اس کو ایم اے کرانا۔
12؍ستمبر 1902ء کو آپؓ کا نکاح حضرت مولوی غلام حسن خان صاحب پشاوریؓ کی صاحبزادی محترمہ سرور سلطان صاحبہ سے ایک ہزار روپیہ مہر پر پڑھا گیا۔ خطبہ نکاح حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے پڑھا اور ایجاب و قبول کے بعد کھجوریں تقسیم کی گئیں۔ آپؓ کے خسرمولوی غلام حسن صاحبؓ نے 17؍مئی 1890ء میں بیعت کی تھی۔ رجسٹر بیعت میں بیعت کا نمبر192 ہے اور سکونت اصلی میانوالی ضلع بنوں ہے۔
مئی 1906ء میں آپؓ کی شادی کی تقریب عمل میں آئی آپؓ حضرت میرناصر نواب صاحبؓ ،حضرت مصلح موعودؓ اور دیگر احباب کے ساتھ قادیان سے 10؍مئی1906ء کو پشاور روانہ ہوئے اور16؍ مئی کو واپس قادیان پہنچ گئے۔
7؍اگست 1907ء کو آپؓ کی پہلی بیٹی صاحبزادی امۃالسلام صاحبہ پیدا ہوئیں۔ اس طرح حضورؑنے اپنی پہلی پوتی کو بھی دیکھ لیا۔ آپؓ کی عمر اُس وقت تیرہ سال تھی۔ بیٹی کی پیدائش پرآپؓ اس قدر شرمائے کہ چارپائی کے نیچے چھپ گئے۔ آپؓ کو خداتعالیٰ نے کُل گیارہ بچے عطا فرمائے جن میں سے دو صغرسنی میں فوت ہوگئے۔
صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ آپؓ ہم بہن بھائیوں سے بہت شفقت کا سلوک فرماتے۔ جب کبھی ہم جلسہ سالانہ یا دوسرے موقع پر گھر جاتے تو ہر ایک کے لیے بہت اہتمام فرماتے تھے۔ خود تسلی کرتے کہ کمرے اور غسل خانے میں ہر چیز موجود ہے۔ ہمیں شرم آتی تھی لیکن خود ذوقاً یہ اہتمام فرماتے تھے۔ ہم واپس چلے جاتے تو کمرے میں آکر دیکھتے کہ کوئی چیز بھول کر چھوڑ کر تو نہیں گئے۔ اگر کچھ ہوتا تو اطلاع دیتے کہ فلاں چیز تم یہاں چھوڑ گئے ہو، میں نے رکھوا لی ہے پھر آؤ تو یاد سے لے لینا۔ فرمایا کرتے تھے کہ بچوں کی تربیت کے معاملہ میں میرا وہی طریق ہے جو حضرت مسیح موعودؑ کا تھا۔ میں انہیں نصیحت کرتا رہتا ہوں لیکن دراصل سہارا خدا کی ذات ہے جس کے آگے دعا گو رہتا ہوںکہ انہیں اپنی رضا پر چلنے کی توفیق دے اور دین کا خادم بنا دے۔
٭…آپؓ حضرت مصلح موعودؓ سے بے حد محبت کرتے تھے اور حضورؓ کے خلافت پر فائز ہونے کے بعد دینی معاملات کا تو خیر سوال ہی کیا تھا دنیاوی معاملات میں بھی یہی کوشش فرماتے تھے کہ حضور کی مرضی کے خلاف کوئی بات نہ ہو۔ حضور کی تکریم کے علاوہ کمال درجہ کی اطاعت کا اعلیٰ نمونہ پیش کرتے۔
محترم ملک حبیب الرحمٰن صاحب لکھتے ہیں کہ ایک بار میرے ایک عزیز کو سلسلہ کی طرف سے کچھ سزا ملی۔ عزیز کو یہ گلہ تھا کہ سزا کی سفارش کرنے والے افسر نے معاملات کی پوری تفتیش نہیں کی اور جانبداری سے کام لیاہے۔ وہ چاہتے تھے کہ حضرت میاں صاحبؓ بحیثیت صدر نگران بورڈ تحقیقات کریں۔ اُن کی خواہش پر مَیں نے حضرت میاں صاحبؓ سے اس بارہ میں تذکرہ کیا تو آپؓ نے فرمایا کہ مَیں تسلیم کرتا ہوں کہ اس دوست کی اکثرباتیں درست ہیں اور تحقیقات پوری طرح ہونی چاہیے تھی لیکن چونکہ سزا امام وقت کی طرف سے ہے لہٰذا وہ دوست پہلے بلاشرط معافی مانگیں اس کے بعد ان کے عذرات کی طرف توجہ دی جائے گی۔ چنانچہ جب انہوں نے معافی نامہ لکھ دیا تو آپؓ نے نہایت پیار بھرے دل کے ساتھ حضرت کے حضور سفارش کر کے انہیں معافی دلا دی۔
حضرت مرزا طاہر احمد صاحبؒ بیان فرماتے ہیں کہ ایک طرف آپؓ کی اطاعت کا یہ حال تھا کہ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے ہر حکم پر سمعنا و اطعنا کی تصویر بنے رہتے تھے تو دوسری طرف صداقت کا یہ عالم تھا کہ ایک ایسی جرأت کے ساتھ جو صرف توحید پرستوں کو حاصل ہوتی ہے اپنی سچی رائے دینے سے قطعاً نہیں ہچکچاتے تھے۔ خواہ وہ حضورؓ کی رائے اور مزاج کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ محض حضور ؓکی خوشنودی کے حصول کے لیے اپنی دلی رائے کو بدلنا آپؓ کا شیوہ نہیں تھا۔ کئی مرتبہ آپؓ کو مسائل میں اختلاف ہوتا تھا کئی مرتبہ دوسرے امور میں۔ فرماتے تھے کہ رائے کے اختلاف میں انسان بےاختیار ہے البتہ جب حضرت صاحب میری رائے کے خلاف فیصلہ فرمادیتے ہیں تو بے چوں وچراں اس پر عمل کرتا ہوں۔ دیانت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان بے کم و کاست اپنی صحیح رائے بیان کرے اور اطاعت کا تقاضا یہ ہے کہ جب صاحب امر فیصلہ کر دے تو پھرتسلیم و رضا کے ساتھ اس پر عمل کرے۔
مکرم سید مختار احمد ہاشمی صاحب رقمطراز ہیں کہ ایک دن آپؓ نے فرمایا کہ جو شخص امام وقت کے ایسے حکم کی اطاعت کرتا ہے جس کو اس کا اپنا دل اور دماغ بھی تسلیم کرتا ہے تو یہ اطاعت درحقیقت امام وقت کی اطاعت نہیں کہلاسکتی بلکہ یہ تو اس کے اپنے دل و دماغ کی اطاعت ہے۔ دراصل امام وقت کی اطاعت یہ ہے کہ وہ ایسے حکم کو انشراح صدر سے تسلیم کرے جس کو بظاہر اس کا دل و دماغ ماننے کو تیار نہ ہو۔
مکرم چودھری عبدالعزیز ڈوگر صاحب بیان کرتے ہیں کہ آپؓ نماز عید کے لیے تشریف لائے تو مسجد کے اس حصہ میں تشریف فرما ہوگئے جہاں لوگوں کی جوتیاں رکھی تھیں۔ آپؓ بیمار تھے اور ان دنوں نگران بورڈ کے صدر بھی تھے۔ خاکسار نے عرض کیا کہ آپ کے لیے پہلی صف میں محراب کے پاس جگہ رکھی ہے۔ فرمایا’نہیں نہیں میری جگہ ان جوتیوں میں ہی ہے۔‘ خاکسار نے عرض کیا کہ کیا مَیں اعلان کروا دوں کہ چونکہ آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں اس لیے عید کے بعد ملتے ہوئے دوست احتیاط سے کام لیں۔ فرمایا: ’’ہر گز نہیں یہ مقام صرف اور صرف حضرت خلیفۃالمسیح کا ہے۔ جو دوست ملنے آجائیں گے ان سے مصافحہ کروں گا۔‘‘
اسی طرح مجلس شوریٰ کے دوران ایک دوست نے تعریفی کلمات سے آپؓ کو مخاطب کیا تو آپؓ نے فوراً ہاتھ اٹھا کر منع فرمایا کہ مَیں ہر گز ہر گز ایسے کلمات کا مستحق نہیں ہوں۔ یہ صرف حضرت خلیفۃ ا لمسیح کے لیے جائز ہے۔ میری تو کوئی حیثیت نہیں۔ مَیں ایک ادنیٰ خادم سلسلہ ہوں۔
٭… آپؓ نے جماعت کے ہر طبقے کو نہایت عمدہ قابل عمل نصائح فرمائیں۔ تربیت اولاد کے سنہری گُربیان کرتے ہوئے فرمایا۔ اوّل: مرد دیندار اور با اخلاق بیویوں کے ساتھ شادیاں کریں تاکہ نہ صرف ان کا گھر ان کی اپنی زندگی میں جنت کا نمونہ بنے بلکہ اولاد کے لیے بھی نیک تربیت اور نیک نمونہ میسر آئے۔ دوم: ہر عورت خود بھی دیندار بنے، دین کا علم سیکھے اورپھر دین کے احکام کے مطابق اپنا عمل بنائے۔ سوم:بچوں کی تر بیت کا آغازان کی ولادت کے ساتھ ہی ہو جانا چاہیے اور ماں باپ کو یہی سمجھنا چاہیے کہ وہ ہمارے ہر فعل کو دیکھ رہے ہیں اور ہمارے ہر قول کو سن رہے ہیں۔ چہارم: بچپن میں ہی اپنے بچوں کے دلوں میں ایمان بالغیب کا تصور راسخ کر دیں جس کا مرکزی نقطہ خدا ہے اور باقی ارکان فرشتے اور کتابیں اور رسول اور یوم آخر اور تقدیر خیر و شر ہیں۔پنجم: اپنے بچوں کو بچپن سے ہی نماز کا پابند بنائیں۔ ششم :بچوں میں بچپن سے ہی انفاق فی سبیل اللہ کی عادت ڈالیں اور یہ احساس پیدا کریں کہ ہر چیز جو اُنہیں خدا کی طرف سے ملی ہے خواہ وہ مال ہے یا دل و دماغ کی طاقتیں ہیں ،علم ہے یا اوقات زندگی ہیں، ان سب میں سے خدا اور جماعت کا حصہ نکالیں۔ ہفتم:اپنے بچوں کو ہمیشہ شرک خفی کے گڑھے میں گرنے سے ہوشیار رکھیں۔ دنیا کی ظاہری تدبیروں کو اختیارکرنے کے باوجود ان کا دل اس زندہ ایمان سے معمور رہنا چاہیے کہ ساری تدبیروں کے پیچھے خدا کا ہاتھ کام کرتا ہے اور وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے۔ ہشتم:بچوں کو ماں باپ اور دوسرے بزرگوں کا ادب سکھایا جائے۔ نہم:بچوں میں سچ بولنے کی عادت پیدا کریں۔ دہم: ماں باپ کا فرض ہے کہ ہمیشہ اپنی اولاد کی تربیت کے لیے خدا کے حضور دعا کرتے رہیں کہ وہ انہیں نیکی کے رستہ پر قائم رکھے اور دین اور دنیا کی ترقی عطا کرے اوران کا حافظ و ناصر ہو۔
آپؓ میں نمایاں وصف یہ بھی تھا کہ سارے کام اِبْتِغَاءً لِوَجْہِ اللّٰہ کیا کرتے تھے۔ آپؓ کی کتب مولوی فخرالدین صاحب ملتانی شائع کرتے تھے۔ آپؓ نے کبھی کسی تصنیف کے بدلہ میں ان سے کسی رنگ میں کچھ نہیں لیا۔ حتیٰ کہ اپنی تصنیف کردہ کتاب کا نسخہ بھی قیمتاً خریدتے۔ وہ اصرار کرتے کہ اپنی تصنیف کا کم از کم ایک نسخہ تو ہدیۃًلے لیا کریں۔ مگر آپؓ ہمیشہ یہ کہہ کر انکارکر دیتے کہ یہ بھی ایک گونہ معاوضہ ہے اور مَیں اس معاملہ میں اپنے ثواب کو مکدّر نہیں کرنا چاہتا۔
آپؓ ہر حالت عُسر ویُسر میں تقدیر الٰہی پر راضی رہتے اور شکوہ و شکایت کو کبھی بھی زبان پر نہیں لاتے تھے۔ آنحضرت ﷺ کے ذکر سے ایسا حظ اٹھاتے تھے کہ پاس بیٹھا انسان بھی فوراًمحسوس کرلیتا تھا کہ آپؓ کو دنیا میں اگر کوئی ہستی سب سے زیادہ محبوب ہے تووہ آنحضرت ﷺ ہی ہیں۔ آپؓ اپنی کتاب ’’چالیس جواہرپارے‘‘ کے ’’عرض حال‘‘ میں لکھتے ہیں کہ حدیث ’’اَلْمَرْءُ مَعَ مَنْ اَحَبَّ‘‘یعنی خدائے ودود کسی محبت کرنے والے شخص کو اس کی محبوب ہستی سے جدا نہیں کرے گا۔ یہ حدیث میں نے بچپن میں پڑھی تھی لیکن آج تک جو مَیں بڑھاپے کی عمر کو پہنچ گیا ہوں میرے آقاؐ کے یہ مبارک الفاظ میری آنکھوں کے سامنے رہے ہیں اور مَیں اس نکتہ کو کبھی نہیں بھولاکہ نماز اور روزہ اور حج اور زکوٰۃ سب برحق ہے مگر دل کی روشنی اور روحانیت کی چمک خدا اور اس کے رسولؐ کی سچی محبت کے بغیرحاصل نہیں ہوسکتی۔
مکرم مختار احمد صاحب ہاشمی کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ حضرت میاں صاحبؓ نے مجھے ایک مسودہ املاء کرایا تو اس میں مَیں نے جلدی میں ﷺ کی بجائے ’صلعم‘ لکھ دیا۔ آپؓ نے فرمایا کہ ’صلعم‘ لکھنا ناپسندیدہ ہے، جب اتنی طویل و عریض عبارتیں لکھی جا سکتی ہیں تو صرف رسول کریم ﷺ کے نام کے ساتھ ہی تخفیف کا خیال کیوں آجاتا ہے۔ پھر اپنی قلم سے ’’صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ لکھ دیا اور مزید فرمایا کہ مجھے انگریزی میں محمدؐ کا مخفف MOHD لکھا ہوا دیکھ کر ہمیشہ ہی رنج پہنچا ہے، نامعلوم کس نے یہ مکروہ ایجاد کی ہے۔
محترم ہاشمی صاحب لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ کسی کے نام خط کی ابتدا میں مَیں نے بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمَ۔ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْم ۔ وَالصَّلوٰۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ عَبْدِہِ الْمَسِیْحِ الْمَوْعُوْد لکھ دیا۔ آپؓ فرمانے لگے کہ آپ نے حضرت مسیح موعودؑکے ساتھ صلوٰۃ اور سلام دو چیزیں لکھی ہیں اور حضرت ﷺ کے ساتھ صرف صلوٰۃ۔ یہ طریق درست نہیں۔ یہ آقا ہیں اور وہ غلام اس مقام پر وَعَلیٰ عَبْدِہِ الْمَسِیْحِ الْمَوْعُوْد لکھنا کافی ہے۔ البتہ اگر کہیں الگ لکھنا ہو تو الصلوٰۃ والسلام لکھنے میں حرج نہیں۔
محترم مرزا مظفر احمد صاحب فرماتے ہیں آپؓ گھر کی مجالس میں احادیث ، نبی کریم ﷺ کی زندگی کے واقعات اور حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی کے حالات اکثر بیان فرماتے رہتے تھے۔ میرے اپنے تجربے میں یہ ذکر سینکڑوں مرتبہ کیا ہوگا۔ لیکن مجھے یاد نہیں کہ کبھی ایک مرتبہ بھی حضرت نبی کریم ﷺ یا حضرت مسیح موعودؑ کے ذکر پر آپؓ کی آنکھیں آبدیدہ نہ ہوئی ہوں۔ بڑی محبت اور سوز سے یہ باتیں بیان فرماتے تھے اور پھر ان کی روشنی میں کوئی نصیحت کرتے تھے۔
٭…حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ بیان فرماتی ہیں آپؓ کو حضرت امّاں جانؓ سے بےحد محبت تھی۔ روز آکر بیٹھنے کے علاوہ مسجد میں جاتے آتے بھی خیریت پوچھ کر جاتے۔ اپنے دل کا ہر درد دکھ امّاں جانؓ سے بیان کرتے اور اُن کی دعا، پیار ومحبت کی تسلی سے تسکین پاتے۔ جب آمدنی کم اورگزارہ اپنا بھی مشکل ہوتا تھا تو بھی ہر ماہ کچھ رقم حضرت امّاں جانؓ کے ہاتھ میں ادب اور خاموشی سے دے دیتے۔ انہیں ضرورت تو نہیں تھی لیکن آپؓ کی محبت میں رکھ لیتیں۔
محترم مرزا مظفر احمد صاحب لکھتے ہیں کہ حضرت امّاں جانؓ کو اباجانؓ سے بہت پیار تھا۔ میری نظروں کے سامنے امّاں جانؓ قادیان میں اُن سیڑھیوں کے اوپر جو ہمارے مکان اور حضرت صاحبؓ کے مکان کو ملاتی ہیں کھڑی دکھائی دیتی ہیں، ہاتھ میں پلیٹ ہوتی جس میں کوئی کھا نے کی چیز جو انہوں نے پکائی ہوتی تھی پکڑی ہوتی اور آواز دے کر کہتیں کہ ’میاں تمہارے لیے لائی ہوں ،لے لو۔‘ کبھی صرف ’میاں‘کہتی تھیں کبھی ’میاں بشیر‘ اور کبھی صرف ’’بشریٰ‘‘۔
حضرت امّاں جانؓ کے اباجان کے ساتھ تعلق کا حضرت مصلح موعودؓ کو بھی احساس تھا۔ قادیان سے یہ خبریں آنے پر کہ مقامی حکام کسی بہانے سے اباجانؓ کو قید کرنا چاہتے ہیں حضورؓ کے ارشاد پر اباجا نؓ بڑے مخدوش حالات میں قادیان سے روانہ ہوکر جب لاہور پہنچے تو حضورؓ نے پہلے سجدۂ شکر ادا کیا اور پھر آپؓ کا ہاتھ پکڑ کر حضرت امّاں جانؓ کے پاس لائے اور فرمایا: ’لیں امّاں جان! آپ کا بیٹا آگیا ہے۔‘
٭…22؍ستمبر 1947ء کو حضرت مرزا بشیراحمد صاحبؓ قادیان سے لاہور پہنچے توحضورؓ نے ’حفاظتِ مرکز‘ کے نام سے درویشانِ قادیان کے لیے ایک صیغہ قائم فرمایاجس کا ناظر آپؓ کو مقرر فرمایا۔ 1948ء میں جلسہ سالانہ قادیان کے لیے آپؓ نے اپنے پیغام میں تحریر فرمایا کہ قادیان کے دوست تین طریق پر اپنے فریضہ سے عہدہ برآہوسکتے ہیں:
اول :شریف مزاج سنجیدہ غیر مسلموں کو تبلیغ کرکے۔
دوم: دینی اور اخلاقی لحاظ سے اپنا عملی نمونہ قائم کرکے۔
سوم:اسلام واحمدیت کی اشاعت کے لیے دعائیں کر کے۔
درویشان قادیان اور ان کے متعلقین کے لیے اس قدر شفقت آپؓ کے دل میں تھی کہ سخت تکلیف اور شدید مصروفیت میں بھی اگر کوئی درویش ملنا چاہتاتو فوراًباہر تشریف لے آتے اور اگر اٹھ کر باہر جانے کی طاقت نہ ہوتی تو اسے اندر بلا لیتے اور ہرممکن اعزاز فرماتے۔ اس کی باتوں کو غور سے سنتے، حالات دریافت فرماتے اور اصرار کرتے کہ کوئی کام ہو یا ضرورت ہوتوبےتکلّف کہیں۔ آپؓ چونکہ درویشان کی عظیم قربانی سے باخبر تھے اس لیے اُن کے بچوں کے حالات سے بھی باخبر رہتے اور ان سے اپنے بچوں کی طرح پیار کرتے۔
مکرم مولوی برکات احمد صاحب راجیکی مارچ 1954ء میں بیماری کی حالت میں پاکستان پہنچے تو آپؓ نے بارڈر پر کار بھجوانے نیز میوہسپتال لاہور میں ماہر ڈاکٹر سے معائنہ کروانے کا انتظام فرمایا۔ مولوی صاحب بیان کرتے ہیں کہ علاج کے دوران میرے ربوہ پہنچنے کی اطلاع آپؓ کو ملی تو فرمایا کہ وہ بیمار ہیں مَیں آٹھ بجے گھر پر آکر اُن سے ملوں گا۔ اس پر خاکسار آپؓ کی تکلیف کے خیال سے ساڑھے سات بجے ہی آپؓ کے دفتر میں حاضر ہوگیا۔ جب السلام علیکم عرض کیا تو آپؓ وفورِ محبت سے فوراً کرسی سے اُٹھے (جوتا آپؓ نے گرمی کی وجہ سے اُتار کر پاؤں کے نیچے رکھا ہوا تھا)اور ننگے پاؤں آگے بڑھ کر نہایت مہربانی اور شفقت سے مجھے گلے لگاکر فرمایا کہ بیماری کی حالت میں یہاں آنے کی کیوں تکلیف کی ۔ پھر علاج کے متعلق پوری دلچسپی سے تفصیل دریافت فرمائی۔ غرض درویشانِ قادیان میں اگر کوئی بیمار ہوتا تو آپؓ اس کے علاج کے لیے ہر ممکن تدابیراختیار فرماتے۔ اگر کوئی فوت ہوجاتا تو آپؓ یوں محسوس کرتے جیسے کوئی عزیز فوت ہوگیا ہے۔ اپنی بیماری کی حالت میں تکلیف اُٹھا کر بھی اس کا جنازہ پڑھاتے اور کندھا دیتے۔ متوفی کے نیک اوصاف کا ذکر اور دعا کی تحریک الفضل میں کرتے اور اس کے متعلقین کا بعد میں بھی خیال رکھتے۔
مبلغین کے ساتھ آپؓ کی محبت کا ذکر کرتے ہوئے مکرم بشارت احمد صاحب امروہی لکھتے ہیں کہ محترم مولوی عبدالحق صاحب ننگلی مغربی افریقہ سے واپس تشریف لائے تو اُن کی خواہش پر مَیں اُنہیں حضرت صاحبزادہ صاحبؓ سے ملانے دفتر لے گیا۔ آپؓ اس وقت نہایت ہی ضروری تصنیف میں مصروف تھے، مجھے دیکھ کرکچھ کبیدہ خاطرہوئے۔ لیکن جونہی میں نے یہ عرض کی کہ یہ مغربی افریقہ میں تبلیغی خدمات سرانجام دے کر واپس تشریف لائے ہیں تو آپؓ کے چہرہ پر بشاشت کی ایک لہر دوڑ گئی۔ اسی وقت قلم ہاتھ سے چھوڑ دیا۔ اُٹھے اور مولوی صاحب سے بغل گیر ہوگئے اور کافی دیر تک ان سے تبلیغی تربیتی اور دیگر امور پر گفتگو فرمائی۔
مکرم مولانا محمد صدیق امرتسری صاحب تحریر کرتے ہیں کہ سنگاپور روانہ ہونے سے چند گھنٹے قبل خاکسار آپؓ کی خدمت میںالوداعی ملاقات کے لیے حاضرہوا تو باوجود نقاہت کے اُٹھ کر دروازے تک تشریف لائے اور مصافحہ کے بعد بڑی شفقت سے مجھے اندر لے گئے اور پاس بٹھا کر گفتگو فرماتے رہے۔ قیمتی نصائح میں آپؓ نے یہ بھی فرمایا: آپ ایسی جگہ جارہے ہیں جو آپ کے لیے نئی ہے۔ آپ کومعمول سے زیادہ دعائیں اور جدوجہد کرنی پڑے گی۔ سب سے بڑی تبلیغ ایک مبلغ کا اپنا نمونہ ہے اس کے بعد دعا اور علم وحکمت اور تجربہ وغیرہ کام کرتے ہیں۔ اپنے نفس کا متواتر محاسبہ کرتے رہنا چاہیے اور اپنے تبلیغی و تربیتی کام اور اس کے نتائج کا جائزہ لیتے رہنا چاہیے۔ ہر ایک سے ایسا سلوک کرنا چاہیے کہ ہر فردِ جماعت اللہ تعالیٰ کی ہستی کے بعد مبلغ کو اپنا مددگار ومعاون اور ہمدرد وشفیق باپ اور بھائی یقین کرے۔ پہلے مبلغ کے طریق کار کو حتی الامکان اسی طرح جاری رکھنا چاہیے اور اگر کوئی تبدیلی کرنی بھی پڑے تو سابقہ طریقِ کار کے نقائص سامنے نہ لائے جائیں بلکہ پہلوں کے کاموں اور کوششوں کی تعریف ہواور ان کے لیے دعائیں جاری رہیں۔
پھر آپؓ نے ہاتھ اٹھاکر دعا کروائی اور آبدیدہ آنکھوں سے معانقہ کرکے رخصت فرمایا۔
٭…آپؓ کی علمی خدمات مثالی ہیں۔ آپؓ کو علم حدیث اور تاریخ اسلام سے فطری تعلق تھا۔ کتاب ’’سیرۃخاتم النبیین ﷺ‘‘ میں آپؓ نے آنحضورﷺ سے عشق کا غیرمعمولی اظہار کیا ہے۔ غیروں کی طرف سے آنحضورﷺ کی کردارکشی کی ہر کوشش کا ردّ فرمانے کے علاوہ کئی علمی مسائل مثلاً جمع وترتیب قرآن کریم، معجزہ کی حقیقت، جہاد بالسیف، غیرمسلموں سے رواداری، جزیہ، غلامی، عورتوں کے حقوق، تعدّدِازواج، شادی اور طلاق کے متعلق اسلامی قوانین اور اسلام کی عادلانہ جمہوری طرز حکومت پر سیرحاصل بحث فرمائی ہے۔
کتاب ’’سیرت المہدیؑ‘‘کے تین حصے آپؓ کی زندگی میں شائع ہوئے۔ آپؓ کا ارادہ تھا کہ حضرت مسیح موعودؑ کی ایک مفصل سوانح عمری لکھیں گے۔ آپؓ نے اسی ارادہ کے ماتحت ذکر حبیب پر متعدد تقاریر فرمائیں جو سیرت طیبہ، درّمنثور، دُرّمکنون اور آئینہ جمال کے نام سے شائع ہوئیں۔
’’سلسلہ احمدیہ‘‘ بھی آپؓ کی یادگار تالیف ہے۔ دیگر کتب میں کلمۃالفصل، تصدیق المسیح، الحجۃ البالغ، ہمارا خدا، تبلیغ ہدایت،ختم نبوت کی حقیقت، چالیس جواہر پارے وغیرہ شامل ہیں۔ آپؓ کی ہر تالیف یا مضمون کو اپنے موضوع کے اعتبار سے مشعل راہ کی حیثیت حاصل ہے۔
آپؓ نے ہوش سنبھالتے ہی خدمت دین کے لیے اپنے آپ کو وقف کردیا تھا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ نے آپؓ کو صدر انجمن احمدیہ کی مجلس معتمدین کا ممبر نامزد فرمایا۔ خلافت ثانیہ کے ابتدا میں آپؓ ’الفضل‘ کے مدیر رہے۔ رسالہ ’ریویوآف ریلیجنز‘ کی خدمت بھی ایک عرصہ تک آپؓ کے سپرد رہی۔ مدرسہ احمدیہ کے ہیڈماسٹر، کئی صیغوں کے سالہاسال تک نگران نیز ناظراعلیٰ بھی رہے۔ انگریزی ترجمۃالقرآن کے کام میں بھی نمایاں حصہ لیا۔ قیام پاکستان کے سلسلہ میں حضورؓکی ہدایات کے تحت شاندار خدمات انجام دیں۔ حضورؓ نے 31؍اگست 1947ء کو قادیان سے ہجرت کرتے وقت آپؓ کو امیر مقامی مقرر فرمایا۔ پاکستان آنے کے بعد حفاظتِ مرکز کا اہم شعبہ آپؓ کے سپرد ہوا۔ حضورؓ کی بیماری کے ایّام میں آپؓ نگران بورڈ کے صدر بھی رہے۔
آپؓ کی شکل نورانی،قد لانبا، وجیہ چہرہ، موٹی موٹی مگر نیم وا آنکھیں، ابھری ہوئی ناک،بھرے بھرے ہاتھ پاؤں اور جسیم و پُروقاروجود تھا۔ لباس نہایت سادہ ہوتا۔ سفید قمیض، سفید شلوار، لمبا کھلا کوٹ اور پگڑی پہنتے تھے۔ خوراک بھی بہت سادہ ہوا کرتی۔ پُرتکلّف اور مرغن کھانوں کے دلدادہ نہیں تھے۔ کھمبی اور پالک گوشت شوق سے کھایا کرتے تھے۔ ہجرت کے بعد مشکلات کا زمانہ آیا تو صبح چائے کے ساتھ بھنے ہوئے چنے کھاکر گزارا کر لیتے۔ پھل بھی پسند فرماتے۔ خصوصاً عمدہ قسم کے آم اور کیلے آپؓ کو بہت پسند تھے۔
محترم مرزا مظفر احمد صاحب لکھتے ہیں کہ ذاتی دعاؤں میں اباجان دوباتوں کے لیے بہت دعا کیاکرتے تھے۔ اول یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنی رضا کے راستہ پر چلنے کی توفیق بخشے اور دوم انجام بخیر ہو۔ اس آخری امر کے لیے بہت تڑپ رکھتے تھے۔ مجھے کئی بارفرمایا کہ ایک انسان ساری عمر نیکی کے کام کرتا ہے لیکن آخر میں کوئی ایسی بات کر بیٹھتا ہے جوخدا کی ناراضگی کا مورد ہوجاتی ہے اور جہنم کے گڑھے کے سامنے آکھڑا ہوتا ہے۔ ایک دوسرا انسان ساری عمر بداعمال میں گزارتا ہے لیکن آخر میں ایسا کام کرجاتا ہے جو خدا کی خوشنودی کا باعث ہوجاتا ہے۔ سو اصل چیز انجام بخیر ہے۔
ایک بار آپؓ نے بڑے اضطرار سے دعا کی کہ خدا سے انجام بخیر کے بارے میں کوئی تسلی مل جائے۔ تو قرآن کریم کی تلاوت کے دوران یکدم دائیں ورق پرموٹے الفاظ میں صرف یہ دو الفاظ لکھے نظر آئے ’’بغیر حساب۔‘‘
طبیعت کے لحاظ سے آپؓ بہت حساس تھے اور لوگوں کے جذبات کا خاص خیال رکھتے تھے۔ طبیعت میں نفاست اور باریک بینی تھی۔ ہر چیز اپنی جگہ پر سلیقہ سے رکھتے تھے۔ اس میلانِ طبیعت کے لحاظ سے ہر چیز کو تحریر میں لے آتے تھے۔ ہر معاملہ کی علیحدہ فائل کھول کر اس میں تمام متعلقہ کاغذات اہتمام سے رکھتے تھے۔ معاملہ میں بہت صاف گو تھے۔ ہر چیز کا حساب رکھتے اور اس میں کسی قسم کی کو تاہی نہ خود کرتے اور نہ دوسرے کی طرف سے پسند فرماتے۔ چند ماہ سے آپؓ کو متعدد منذر خوابیں اپنی وفات کے متعلق آرہی تھیں۔ اس کا پہلا اشارہ مجھے مئی میں کیا جب مَیں عید کے بعد واپس راولپنڈی کے لیے رخصت ہورہا تھا۔ پھر 24؍اگست کے قریب لاہور گیا تو فرمانے لگے: ’’اب تو چل چلاؤ ہی ہے۔‘‘ خوابوں کی تفصیل نہیں بتاتے تھے۔ البتہ ایک بزرگ کے نام خط میں آپؓ نے تحریر فرمایا کہ ’’میر ی زبان پر حضرت مسیح موعودؑ کا شعر جاری ہوا ؎
بھر گیا باغ اب تو پھولوں سے
آؤ بلبل چلیں کہ وقت آیا‘‘
بہرحال آپؓ کی طبیعت پر یہ گمان غالب تھاکہ آپؓ کی وفات کا وقت قریب ہے۔ چنانچہ جون میں ربوہ سے لاہور روانگی کے وقت اپنی تجہیزوتکفین کے لیے علیحدہ رقم گھر میں دے دی۔ پھر لاہور سے مزید رقم یہ کہہ کر ارسال کی کہ میری وفات پر دوست آئیں گے، گھر کے عام خرچ سے زیادہ اخراجات ان دنوں ہوں گے اس لیے بھجوا رہا ہوں۔
مجھ سے آخری ملاقات غنودگی سے پہلے 30/31اگست کو ہوئی۔ میں بیماری کی شدّت کا سن کر لاہور پہنچا تو مجھے دیکھ کر فرمایا ’’مظفر تم آگئے‘‘ یہ فقرہ ایسے رنگ میں کہا جیسے کسی کا انتظار تھا۔ اس فقرہ میں ایک عجیب اطمینان اور سکون تھا جس سے مجھے کچھ گھبراہٹ ہوئی۔ میں اباجان کا ہاتھ پکڑ کر سرہانے کی طرف بیٹھ گیا۔ پھر فرمانے لگے’’کراچی کب جارہے ہو؟‘‘ میرا کراچی جانے کا پروگرام تھا۔ میں نے کہا’’ابھی تو مَیں نہیں جا رہا‘‘ فرمانے لگے ’’یہ اچھا فیصلہ ہے۔ ‘‘
2؍ ستمبر1963ءکو چھاتی کے ایکسرے اور خون کے ٹیسٹ سے نمونیہ اور پھیپھڑوں کی انفیکشن کی تصدیق ہوئی۔ باوجود تمام کوششوں کے سانس کی تکلیف اور غنودگی بڑھتی گئی۔ اوراُسی روز جبکہ بہت سے احباب کوٹھی 23ریس کورس کے احاطہ میں نمازمغرب ادا کررہے تھے کہ آپؓ کی طبیعت زیادہ خراب ہوگئی اور چند منٹ میں وفات ہوگئی۔ آپؓ کا جسد خاکی اسی رات ربوہ لایا گیا۔ ریڈیو پر آپؓ کی وفات کی خبرنشر ہوتے ہی احباب جماعت بڑی تعداد میں ربوہ پہنچنا شروع ہوگئے۔ ساڑھے پانچ بجے جنازہ آپؓ کی کوٹھی ’’البشریٰ‘‘ سے اُٹھایا گیا اوربہشتی مقبرہ کے احاطے میں حضورؓ کے ارشاد کے ماتحت حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحبؒ نے نماز جنازہ پڑھائی اور قبر تیار ہونے پر پُرسوز دعا کرائی۔