حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ 4؍جولائی 2001ء میں مکرم ماجد احمد خان صاحب اپنے نانا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کا ذکر خیر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ مجھے آج تک کوئی ایسا نہیں ملا جس نے اباجان کی محبت کا کچھ حصہ پایا ہو اور پھر اُن کے ذکر پر اُس کی آنکھوں میں نمی نہ آگئی ہو۔ کچھ یہی حالت میری بھی ہے۔
مَیں چھوٹا سا تھا جب اُن کی وفات ہوئی۔ آپؓ کی وفات کو کئی سال بیت چکے تھے، میری عمر بارہ تیرہ سال تھی کہ ایک دن حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ صبح ہی صبح تشریف لائیں، مجھے بلایا اور کہا کہ رات منجھلے بھائی (حضرت اباجانؓ) خواب میں آئے تھے اور کہنے لگے کہ ماجد کے پاس جاؤ اور اُس کو برفی کے لئے پیسے دو۔ پھر کہا کہ دیکھو اُنہیں اب بھی تمہارا کتنا خیال ہے۔
چند سال پہلے میری والدہ نے مجھے چند خطوط دیئے جو حضرت اباجانؓ نے مجھے لکھے تھے۔ یہی خطوط کبھی کبھی نکال کر پڑھتا ہوں۔ کوئی اندازہ نہیں کرسکتا کہ ایک چھوٹے سے بچے (3 سے 7 سال) کو انہوں نے کس طرح اور کیا کچھ نہیں لکھا ہوگا۔ 20؍جنوری 1959ء کا لکھا ہوا خط میرے سامنے ہے:
’’رات تمہاری امّی اور ابا سے فون پر بات ہوئی تھی مگر افسوس کہ تمہارے سے بات نہیں ہوسکی۔ اس کی تلافی کے لئے بستر پر پڑے پڑے یہ خط لکھ رہا ہوں۔ امید ہے تم بالکل اچھے ہوگے۔ تم مجھے بہت یاد آتے ہو کیونکہ تم شریف بچے ہو اور میرے ساتھ اللہ باللہ (نماز) کے لئے بھی جایا کرتے تھے اور تمہارے ابا کا خط آیا ہے کہ تم ان کے ساتھ کوئٹہ میں اللہ باللہ کرنے گئے تھے، مَیں تمہارے واسطے بہت دعا کرتا ہوں‘‘۔ ایک چار سالہ بچے کو نصیحت اور تلقین کا کتنا دلنشیں انداز ہے۔
حضرت اباجانؓ جب اپنی کوٹھی ’’البشریٰ‘‘ تعمیر کررہے تھے تو تعمیر کے دوران مزدوروں نے زمین کے ایک کنارہ پر پانی جمع کرنے کے لئے ایک حوض بنایا جس میں اکثر مَیں نہایا کرتا تھا۔ جب کوٹھی کی تعمیر مکمل ہوگئی تو آپؓ نے اُس حوض کو بند کروانے کی بجائے پکا بنوادیا کہ جب ماجد آئے گا تو یہاں نہایا کرے گا۔
میرے والد بریگیڈئر وقیع الزمان صاحب فوج میں تھے۔ اُن کی شخصیت کا مجھ پر اتنا اثر تھا کہ مجھے بھی فوج میں جانے کا شوق تھا۔ حضرت اباجانؓ مجھ سے اکثر پوچھتے کہ بڑے ہوکر کیا بنوگے۔ مَیں بڑے فخر سے کہتا: فوجی افسر۔ آپؓ جواب میں ہمیشہ کہتے کہ نہیں، تم زندگی وقف کروگے۔… پھر مَیں بڑا ہوا اور فوج میں کمیشن لیا لیکن آٹھ سال بعد بعض وجوہات کی بنا پر استعفیٰ دیدیا، پھر سترہ سال تک کاروبار کرتا رہا لیکن آخرکار مَیں نے وقف کیا جو حضور ایدہ اللہ نے قبول فرمایا۔ چنانچہ اُس بندہ خدا کی بات اس طرح پوری ہوئی۔