حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ابھی چھوٹے بچے ہی تھے اور گھر میں کھیل رہے تھے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت اماں جانؓ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اسے ایم۔ اے کروانا۔
19 سالہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب 1912ء میں گورنمنٹ کالج لاہور میں بی۔ اے کے ہونہار طالب علم تھے جب ایک روز آپؓ نے کالج چھوڑنے کی درخواست اپنے پرنسپل کو پیش کی۔ انہوں نے آپؓ کو سمجھایا کہ آپؓ کا یہ عمل نہ صرف کالج بلکہ خود آپؓ کے لئے بھی نقصان دہ ہے۔ آپؓ نے جواب دیا کہ میں نے اپنے باپ کے ہاتھ پر اس امر کے لئے بیعت کی تھی کہ ’’دین کو دنیا پر غالب کروں گا‘‘ میں اس اقرار کو پورا کرنا چاہتا ہوں اور اوّلین فرصت میں قادیان پہنچ کر حضرت مولانا حکیم نور الدین صاحبؓ سے قرآن اور حدیث کا علم حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ چنانچہ پرنسپل نے سرٹیفکیٹ دیا کہ ’’بشیر احمد اس کالج کا بہترین طالب علم تھا اور اس کا کالج چھوڑ کر جانا کالج کے حق میں نقصان کا باعث ہے‘‘۔
بہر حال آپؓ قادیان تشریف لائے تو حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ نے جو پہلے روزانہ دو مرتبہ درس دیا کرتے تھے، آپؓ کا جذبہ دیکھ کر ایک الگ درس بھی شروع کر دیا جس سے کئی دوسرے لوگ بھی استفادہ کرنے لگے۔ 8؍ نومبر 1913ء کو یہ درس مکمل ہوا اور 13؍نومبر کو آپؓ دوبارہ لاہور تشریف لے گئے اور کالج کی پڑھائی ازسرنو شروع کر دی۔ حضرت مسیح موعودؑ کی مبشر اولاد میں سے صرف آپؓ نے ہی ایم۔ اے تک تعلیم حاصل کی۔ حضرت صاحبزادہ صاحبؓ کی سیرت پر محترم شیخ محمد اسماعیل صاحب کی تصنیف پر محترم مولانا عبد الباسط صاحب کے قلم سے تبصرہ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 18؍اگست 1996ء کی زینت ہے۔