حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ
ماہنامہ ’’انصار اللہ‘‘ ربوہ جنوری2005ء میں مکرم ریاض محمود باجوہ صاحب کے قلم سے حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ کی سیرۃ سے متعلق ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔
حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ کی ولادت بھی اُن نشانوں میں سے ایک تھی جو بارش کی طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت مسیح موعود ؑ کی صداقت و نصرت کے لئے دن رات نازل ہورہے تھے۔ حضورؑ نے مئی 1895ء میں اپنی کتاب’’ضیاء الحق‘‘ میں لکھا کہ ’’ہمیں خدا تعالیٰ نے عبد الحق کی یاوہ گوئی کے جواب میں بشارت دی تھی کہ تجھے ایک لڑکا دیا جائے گا جیسا کہ ہم اسی رسالہ ’’انوارالاسلام‘‘ میں اس بشارت کو شائع بھی کرچکے ہیں۔ سو الحمدللہ والمنۃ کہ اس الہام کے مطابق 27؍ذیقعد1312ھ میں مطابق 24؍مئی 1895ء میرے گھر میں لڑکا پیدا ہوا جس کا نام شریف احمد رکھا گیا‘‘۔
24؍مئی 1895ء کو عالم کشف میں حضرت مسیح موعود ؑ نے یہ نظارہ دیکھا کہ آسمان پر ایک ستارہ ہے جس پر لکھا تھا:
’’مُعَمَّرُ اللہ‘‘ ۔
جنوری 1907ء کی ایک رؤیا کا ذکر کرتے ہوئے حضورؑ فرماتے ہیں: ’’شریف احمد کو خواب میں دیکھا کہ اس نے پگڑی باندھی ہوئی ہے اور دو آدمی پاس کھڑے ہیں۔ ایک نے شریف احمد کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ وہ بادشاہ آیا۔ دوسرے نے کہا ابھی تو اس نے قاضی بننا ہے۔ فرمایا قاضی حَکَم کو بھی کہتے ہیں۔ قاضی وہ ہے جو تائید حق کرے اور باطل کو ردّ کردے‘‘۔
1903ء میں جب طاعون کا زور تھا۔ اُس وقت حضرت صاحبزادہ صاحبؓ شدید بیمار ہوگئے۔ حضورؑ کو فکر لاحق ہوئی کہ اگر خدانخواستہ بچہ فوت ہوگیا تو مخالفوں کو حق پوشی کا موقعہ ملے گا۔ اسی فکر اور حالت میں آپؑ نے وضو کیا اور نماز کے لئے کھڑے ہوگئے۔ آپؑ فرماتے ہیں ’’میں اُس خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ ابھی میں شاید تین رکعت پڑھ چکا تھا کہ میرے پر کشفی حالت طاری ہوگئی اور میں نے کشفی نظر سے دیکھا کہ لڑکا بالکل تندرست ہے، تب وہ کشفی حالت جاتی رہی اور میں نے دیکھا کہ لڑکا ہوش کے ساتھ چارپائی پر بیٹھا ہے اور پانی مانگتا ہے۔ اور میں چار رکعت پوری کر چکا تھا، فی الفور اس کو پانی دیا اور بدن پر ہاتھ لگا کر دیکھا کہ تپ کا نام و نشان اور ہذیان اور بیتابی اور بیہوشی بالکل دور ہو چکی تھی اور لڑکے کی حالت بالکل تندرستی کی تھی‘‘۔
1903ء ہی کے ایک کشفی نظارہ کے ذکر میں حضرت مسیح موعود ؑ نے فرمایا ’’چند سال ہوئے ایک دفعہ ہم نے عالمِ کشف میں اسی لڑکے شریف احمد کے متعلق کہا تھا کہ ’’اب تو ہماری جگہ بیٹھ ہم چلتے ہیں‘‘۔
حضرت مسیح موعود ؑ نے آپ کے قرآن کریم پڑھنے پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ اور حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کے ساتھ آپ کی بھی آمین کہی۔ فرمایا :
شریف احمد کو بھی یہ پھل کھلایا
کہ اس کو تو نے خود فرقان سکھایا
یہ چھوٹی عمر پر جب آزمایا
کلام حق کو ہے فرفر سنایا
برس میں ساتویں جب پیر آیا
تو سر پر تاج قرآں کا سجایا
حضرت میاں صاحبؓ نے قرآن کریم حضرت پیر منظور محمد صاحبؓ موجد قاعدہ یسرنا القرآن سے پڑھا۔ بعض دینی علوم حضرت حکیم مولانا نور الدین صاحبؓ سے حاصل کئے اور بخاری شریف درساً درساً مکمل کی۔ ابتدائی تعلیم مدرسہ احمدیہ قادیان میں حاصل کی۔ اوائل 1911ء میں سیدنا حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحبؓ نے ایک پرائیویٹ کلاس گھر میں شروع فرمائی اس کلاس میں بھی آپ شامل رہے۔ اس کلاس میں خطبہ الہامیہ، دروس النحویہ حصہ دوم، قصیدہ بانت سعاد پڑھایا جاتا تھا۔ قادیان میں جو سب سے پہلے مبلغین کلاس جاری ہوئی آپؓ بھی اس کلاس کے طالب علم تھے۔ قرآن مجید صحاح ستہ مکمل اور اصول فقہ کی بعض بنیادی کتابیں آپ نے اس جماعت کے ساتھ پڑھیں۔ تقریباً چھ ماہ تک جامعہ الازھر میں بھی تعلیم حاصل کی۔
حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کی پہلی بیوی محترمہ امۃ الحمید بیگم صاحبہ 27؍اکتوبر 1906ء کو وفات پاگئیں تھیں۔ اُن کی وفات کے بعد حضرت نواب صاحب کو اپنی صاحبزادی حضرت بو زینب بیگم صاحبہ کی شادی کی فکر لاحق ہوئی۔ حضرت مسیح موعودؑ کو بھی اس بات کا احساس تھا۔ ایک روز آپؑ کو اس طرف توجہ پیدا ہوئی اور آپ ؑ نے حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ کے رشتہ کا پیغام دیا جو حضرت نواب صاحبؓ نے بڑی خوشی سے قبول کر لیا۔ رشتہ طے ہونے کے بعد حضرت مسیح موعود ؑ نے حضرت نواب صاحبؓ کو یہ بھی تحریک فرمائی کہ زندگی کا اعتبار نہیں، نکاح مسنون طور پر کر دیا جائے اور دونوں کے بلوغ کے بعد رخصتانہ ہوجائے گا۔ چنانچہ 15؍ نومبر 1906ء کو قادیان دارالامان میں بعد نماز عصر نئے مہمان خانہ کے صحن میں حضرت حکیم مولانا نور الدین صاحبؓ نے ایک ہزار روپیہ حق مہر پر اس مبارک نکاح کا اعلان فرمایا۔ آپؓ نے اپنے خطبہ نکاح میں
’’بَثَّ مِنْھُمَا رِجَالاً کَثِیْراً‘‘
کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا ’’اس آدم کی اولاد بھی دنیا میں اسی طرح پھیلنے والی ہے، میرا ایمان ہے کہ بڑے خوش قسمت وہ لوگ ہیں جن کے تعلقات اس آدم کے ساتھ پیدا ہوں۔ کیونکہ اس کی اولاد میں اس قسم کے رجال اور نساء پیدا ہونے والے ہیں جو خداتعالیٰ کے حضور میں خاص طور پر منتخب ہو کر اُس کے مکالمات سے مشرف ہوںگے۔ مبارک ہیں وہ لوگ مگر یہ باتیں بھی پھر تقویٰ سے حاصل ہوسکتی ہیں اور تقویٰ کے ذریعہ سے فائدہ پہنچا سکتی ہیں کیونکہ خدا کسی کا رشتہ دار نہیں ہے۔ مجھے سب سے بڑھ کر جوش اس بات کا ہے کہ میں مسیح موعودؑ کی بیوی، بچوں، متعلقین اور قادیان کے رہنے والوں کے واسطے دعائیں کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ان کو رجالاً کثیراً اور تقویٰ اللہ والے کا مصداق بنائے‘‘۔ ایجاب و قبول کے بعد حضرت مسیح موعود ؑ نے دعا کروائی۔ البتہ شادی حضورؑ کی وفات کے بعد 9مئی 1909ء کو ہوئی اور 10مئی 1909ء کو دعوت ولیمہ ہوئی۔
خدا تعالیٰ نے آپؓ کو چھ بچوں سے نوازا یعنی حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب، محترم صاحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب ، محترم صاحبزادہ کرنل مرزا داؤد احمد صاحب ، محترمہ صاحبزادی امۃ الودود صاحبہ، محترمہ صاحبزادی امۃ الباری صاحبہ اہلیہ مکرم نواب عباس احمد خاں صاحب، محترمہ صاحبزادی امۃالوحید بیگم صاحبہ اہلیہ مرزا خورشید احمد صاحب ۔
ایک طرف تو حضرت میاں صاحبؓ کو بیماریوں کے ہجوم میں غیر معمولی عمر بخشی گئی، دوسری طرف قریباً پون صدی تک عملی اور علمی دونوں لحاظ سے آپ کی شخصیت جماعت میں ممتاز رنگ رکھتی تھی۔ سالہا سال تک آپؓ نے سلسلہ کی نمائندگی کرتے ہوئے احمدیہ ٹیریٹوریل فورس کی کمان کے فرائض سرانجام دئے۔ علاوہ ازیں مختلف نظارتوں میں بطور ناظر اہم دینی خدمات بجالاتے رہے۔ آپؓ کی زیر نگرانی قادیان میں موجود صحابہ کے سن بیعت وزیارت کا ریکارڈ محفوظ ہوا۔ عمر کے آخری دَور میں آپؓ اعصابی تکلیف اور نقرس کے عارضے میں مبتلا ہونے کے باوجود ناظر اصلاح و ارشاد کی حیثیت سے سالانہ جلسہ کے انعقاد کا بہت عمدگی اور خوش اسلوبی سے انتظام فرماتے رہے۔
26؍دسمبر 1961ء بوقت آٹھ بجے صبح بعمر ساڑھے 66سال ربوہ میں آپؓ نے وفات پائی۔ بعد دوپہر اڑھائی بجے بہشتی مقبرہ ربوہ کے وسیع میدان میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے آپؓ کی نماز جنازہ پڑھائی جس میں جلسہ سالانہ پر آئے ہوئے ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ بعد ازاں بہشتی مقبرہ کے احاطہ خاص میں تدفین ہوئی۔
آپ کی وفات سے ایک رات قبل مکرم حکیم پیر احمد شاہ صاحب آف سیالکوٹ نے خواب دیکھا کہ آپؓ چارپائی پر لیٹے ہوئے ہیں، چارپائی کے ایک طرف حضرت مسیح موعودؑ اور دوسری طرف حضرت اماں جانؓ ہیں۔ آپؓ کے بازو میں درد ہوتا ہے جس کا اظہار آپؓ حضورؑ سے کرر ہے ہیں۔ حضورؑ بڑی محبت کے ساتھ فرماتے ہیں: ’’بیٹا فکر نہ کرو، تم دس بجے سے پہلے میرے پاس پہنچ جاؤگے‘‘۔ 26دسمبر کی صبح دس بجے سے پہلے آپؓ کی وفات سے یہ خواب پورا ہوگیا۔
آپؓ لمبا عرصہ اعصابی تکالیف اور نقرس وغیرہ سے بیمار رہے مگر آپ نے اس بیماری اور تکلیف کو غیرمعمولی صبر، ہمت اور حوصلہ کے ساتھ برداشت کیا۔ بعض اوقات زندگی کی امید باقی نہ رہتی تھی پھر بھی بمطابق الہام
’’عَمَّرَہٗ اللّہُ عَلیٰ خِلاَفِ التَّوَقُّع‘‘
زندگی کی مہلت بڑھتی چلی گئی۔
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے آپؓ کی وفات پر لکھا کہ اخلاقی اور روحانی لحاظ سے ہمارے بھائی کو بعض لحاظ سے حضرت مسیح موعود ؑ کے ساتھ خاص مشابہت تھی مثلاً اہم امور میں فیصلہ کرتے ہوئے یا مشورہ دیتے ہوئے ان کی رائے بہت متوازن اور صائب ہوتی تھی۔ حضرت مسیح موعودؑ کی طرح ان کے مزاح میں بھی ایک لطیف قسم کا توازن پایا جاتا تھا۔ عفو وشفقت کے موقعہ پر پانی کی طرح نرم ہوتے تھے۔ مگر سزا اور عقوبت کے جائز مواقع میں وہ ایک چٹان کی طرح مستحکم تھے۔
حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ نے تحریر فرمایا: وہ عالی دماغ، وہ جو ہر قابل ، وہ نیر تاباں، افسوس کہ بیماریوں کے بادلوں میں اکثر چھپا رہا اور اس کی پوری روشنی سے اس کی قابلیت خداداد سے دنیا فائدہ نہ اٹھا سکی … وہ ایک نہایت شریف اسم بامسمیٰ، نہایت صاف دل، غریب طبیعت، دل کے بادشاہ، عالی حوصلہ، صابر، متحمل مزاج وجود تھے… کوئی بطور سچی شہادت کے مجھ سے ان کی بابت سوال کرے تو میں یہی کہونگی کہ وہ ایک ہیرا تھا نایاب، وہ سراپا شرافت تھا۔ ایک چاند تھا جو چھپا رہا۔‘‘
حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری لکھتے ہیں: خاکسار کو حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ کے ساتھ نظارت تعلیم و نظارت تبلیغ میں سالہاسال کام کرنے کا موقعہ ملا۔ آپؓ کی زندگی ہمدردی اور سلسلہ کے لئے غیرت کا ایک نمونہ تھی۔ آپ کو اپنے ماتحتوں کی تکلیف کا بہت احساس ہوتا تھا، آپ کو چین نہیں آتا تھا جب تک اس تکلیف کا ازالہ نہ کر لیں۔ آپ بلاشبہ نظام کے بڑے قائل تھے مگر طبیعت میں خدمت دین کرنے والوں کیلئے گہری محبت تھی۔ اپنے اساتذہ بالخصوص حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ کا بہت احترام کرتے تھے۔
مکرم عبدالمنان ناہید صاحب نے اپنے منظوم کلام میں اپنے جذبات کا یوں اظہار کیا:
حد نظر سے دُور اک تارا چلا گیا
لو آج ایک اَور سہارا چلا گیا
اس مملکت کی جس سے مقّدر تھی ابتدا
وہ بادشاہ آیا اور آ کر چلا گیا
یاد آرہی ہے اس کی غریبانہ زندگی
اس دل کے بادشاہ کی فقیرانہ زندگی
وسعت جناں کی اس کی لحد پر نثار ہو
وہ یوں غریقِ رحمتِ پروردگار ہو