حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب – بچپن کے خودنوشت حالات
حضرت صاحبزادہ مرزامبارک احمد صاحب نے اپنے کچھ ابتدائی حالات رقم فرمائے تھے جو روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 2؍اگست 2004ء میں ایک پرانے شمارہ سے منقول ہیں۔
آپ بیان فرماتے ہیں کہ میری پیدائش 9؍مئی 1914ء کی ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ کا انتخاب برائے خلافت ثانیہ 14؍مارچ 1914ء کوہوا اور خلافت کی مسندپر تشریف رکھنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمت کی وجہ سے آپؓ نے میرا نام مبارک احمد رکھا۔
میری والدہ حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحبؓ کی بڑی بیٹی تھیں جو حضرت مسیح موعود ؑ کے اولین ساتھیوں میں سے تھے اور لاہور کے ایک امیر اور معزز خاندان کے فرد تھے۔ حضرت مسیح موعود ؑ کی بیعت کرنے کے بعد ان کے خاندان نے ان سے قطع تعلق کر لیا تھا مگر آپ نے اس کی ذرہ بھی پرواہ نہ کی۔ اپنی آمد کا بیشتر حصہ حضرت مسیح موعود ؑ کی خدمت میں بھجوا دیتے۔ حضرت مسیح موعود ؑ کے جان نثار خادم اور آپ سے غیر معمولی پیار کا رشتہ تھا۔ جب میرے والد حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ کی شادی کا وقت آیا تو حضرت مسیح موعود ؑ نے میری والدہ کا انتخاب فرمایا۔ حضرت مسیح موعود ؑ کو میری والدہ سے بے حد پیار تھا۔
میرے ناناجان کے وصال پر حضرت اباجان (حضرت مصلح موعودؓ) نے جلسہ سالانہ 1926ء کے دوسرے دن اپنی تقریر میں فرمایا: ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحبؓ نے حضرت مسیح موعود ؑ کو ایسے زمانہ میں اور مولویوں کے گھرانہ میں قبول کیا۔ جب انہوں نے ایک دوست سے حضرت مسیح موعودکے دعویٰ سنا تو آپ نے سنتے ہی فرمایا کہ اتنے بڑے دعویٰ کا شخص جھوٹا نہیں ہو سکتا اور آپ نے بہت جلد حضرت مسیح موعود ؑ کی بیعت کر لی۔ حضرت صاحب نے ان کا نام اپنے بارہ حواریوں میں لکھا ہے۔ اور ان کی مالی قربانیاں اس حد تک بڑھی ہوئی تھیں کہ حضرت صاحب نے ان کو تحریری سند دی کہ آپ نے سلسلہ کے لئے اس قدر مالی قربانی کی ہے کہ آئندہ آپ کو قربانی کی ضرورت نہیں۔ حضرت مسیح موعود ؑ کا وہ زمانہ مجھے یاد ہے جبکہ آپ پر مقدمہ گورداسپور میں ہو رہا تھا اور اس میں روپیہ کی ضرورت تھی۔ حضرت صاحب نے دوستوں میں تحریک بھیجی کہ چونکہ اخراجات بڑھ رہے ہیں۔ لنگرخانہ دوجگہ ہو گیا ہے۔ اس کے علاوہ اور مقدمہ پر خرچ ہورہا ہے۔ جب حضرت صاحب کی تحریک آپؓ کو پہنچی تو اتفاق ایسا ہوا کہ اسی دن ان کو تنخواہ قریباً 450روپے ملی تھی وہ ساری کی ساری تنخواہ اسی وقت حضرت صاحب کی خدمت میں بھیج دی۔ ایک دوست نے سوال کیا کہ آپ کچھ گھر کی ضروریات کے لئے رکھ لیتے تو انہوں نے کہا خدا کا مسیح لکھتا ہے کہ دین کے لئے ضرورت ہے تو پھر اور کس کے لئے رکھ سکتا ہوں۔
یہی حال میری والدہ کا تھا کہ جب حضرت مصلح موعودؓ نے اخبار الفضل جاری کرنے کا فیصلہ فرمایا تو آپؓ کے پاس روپیہ نہیں تھا۔ ایسے میں میری والدہ حضرت محمودہ بیگمؓ نے اپنے دو زیور پیش کئے جنہیں بیچ کر اخبار جاری کیا گیا۔
میرا بچپن یوں ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ کے وصال کے بعد میری دادی حضرت اماں جانؓ بہت اداس رہنے لگی تھیں۔ آپؓ کی اولاد آپؓ کا دل بہلانے کی بہت کوشش کرتی مگر آپؓ پر غم اور اداسی کی شدت کم نہ ہوئی۔ آخر حضرت اباجان نے اس کا علاج یوں فرمایا کہ ایک دن میرے بڑے بھائی مرزا ناصر احمد کا ہاتھ پکڑ کر حضرت اماں جانؓ کے پاس لے گئے اور عرض کیا کہ ناصر احمد آج سے آپؓ کا بیٹا ہے، آپ کے پاس ہی رہے گا، اس کی والدہ کو بھی میں نے کہہ دیا ہے کہ اب تم نے ناصر احمد سے تعلق نہیں رکھنا اب یہ اماں جان کا بیٹا ہے۔ اس کا فوری اثر یہ ہوا کہ حضرت اماں جان کی اداسی دُور ہوگئی۔ اور دوسری طرف اباجان کی ساری توجہ میری طرف ہوئی اور میری زندگی کا ہر لمحہ ان کی زیر سایہ تربیت کا موجب بنا۔ اباجان نے ہر سفر میں بھی مجھے ساتھ رکھا خواہ والدہ ہمراہ نہ ہوں۔
ایک دن میرے ساتھ دو تین لڑکیاں صحن میں ایک گھریلو کھیل کھیل رہی تھیں۔ مجھے کسی بات پر غصہ آیا اور میں نے ان میں سے ایک کے منہ پر طمانچہ مارا۔ عین اسی وقت ابا جان نماز پڑھ کر صحن میں داخل ہورہے تھے۔ آپ نے مجھے طمانچہ مارتے ہوئے دیکھ لیا۔ اس لڑکی کو اپنے پاس بلایا اور کہا کہ مبارک کے منہ پر اسی طرح طمانچہ مارو۔ لڑکی اس کی جرأت نہ کر سکی اور باربار کہنے کے باوجود اس نے طمانچہ نہیں مارا۔ پھر آپؓ نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا: تم کیا سمجھتے ہو کہ اس کا باپ نہیں اس لئے تم جو چاہو کر سکتے ہو۔ یاد رکھو میں اس کا باپ ہوں۔ اگر تم نے آئندہ ایسی حرکت کی تو میں سزا دوں گا۔ (یہ ایک یتیم لڑکی تھی جس کو اباجان نے اپنی کفالت میں لیا ہوا تھا)۔
اباجان دستر خوان پر بیٹھے ہوئے سب بچوں پر نظر رکھتے کہ ڈش سے کھانا اپنے سامنے والے حصہ سے نکالا ہے یا نہیں۔ لقمہ منہ میں ڈال کرمنہ بند کرکے کھانا چبایا ہے یا نہیں، کھاتے وقت منہ سے آواز تو نہیں نکلتی۔ کھانے سے پہلے اور بعد ہاتھ صابن سے دھوئے تھے یا نہیں۔ غرض کوئی پہلو بھی آپؓ کی نظر سے اوجھل نہ تھا۔ بعض دفعہ میں حیران ہوتا تھا کہ خود تو کھاتے ہوئے ڈاک بھی دیکھتے جاتے ہیں۔ خطوط پر نوٹ بھی لکھتے جاتے ہیں۔ کبھی کبھی لقمہ بھی منہ میں ڈالتے ہیں۔ نظر بھی نیچی ہوتی ہے۔ اس کے باوجود ہماری ہر حرکت پر بھی نظر ہے۔ بہت کم خوراک تھی۔ ایک دفعہ مجھے خیال آیا کہ آپ اتنا کم کھاتے ہیں، میں بھی کم کھانا کھایا کروں۔ میں نے آدھا پھلکا کھانا شروع کیا۔ ایک دن فرمایا: میں ایک ماہ سے دیکھ رہا ہوں کہ تم بہت کم کھانا کھاتے ہو، تم ابھی بچے ہو، تمہاری نشو ونما کی عمر ہے اس عمر میں پیٹ بھر کر کھانا چاہئے۔ تمہارے پر بڑی ذمہ داریاں پڑنے والی ہیں۔ ان کو کیسے اٹھا سکو گے؟
میری تعلیم کی ابتدا پرائمری سکول سے ہوئی۔ پہلی کلاس سے ہی سکول گھوڑے پر سوار ہو کر جاتا تھا۔ ایک دن لڑکوں کے شور مچانے پر گھوڑا بدک گیا اور سرپٹ دوڑا۔ ایک جگہ میں کاٹھی سے پھسل کر اینٹوں کے ڈھیر پر جاگرا اور بے ہوش ہوگیا۔ سر پر شدید چوٹیں آئیں، نظر آنا بند ہوگیا۔ ماموں جان حضرت ڈاکٹر میرمحمد اسماعیل صاحبؓ کو قادیان بلوایا گیا۔ اباجان نے ماموں جان سے پوچھا کہ کیا اس کی بینائی واپس آجائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ابھی کچھ کہہ نہیں سکتے۔ یہ سن کر میں نے رونا شروع کر دیا تو اباجان نے میرے سر پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ گھبراؤ نہیں۔ شفا تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ چند دن بعد ہی میں صحت یاب ہو گیا لیکن اس حادثہ کے بعد مجھے گھوڑے پر سوار ہو کر سکول جانے سے منع نہیں کیا تا کہ کسی قسم کی بزدلی پیدا نہ ہو۔
گرتے ہیں شہسوار ہی میدان جنگ میں
وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بل چلے
چار کلاسیں مکمل کرنے کے بعد مجھے مدرسہ احمدیہ میں داخل کروادیا گیا جہاں انگریزی تعلیم نہ ہونے کے برابر تھی۔ ایک دن کھانے پر بیٹھے ہوئے انگریزی اخبار پڑھتے ہوئے مجھے کہا کہ انگریزی زبان پر عبور بھی ضروری ہے۔ تم کو کھیلوں میں دلچسپی ہے تم اخبار کے کھیلوں والے صفحہ کو پڑھنا شروع کردو اور پھر آہستہ آہستہ اخبار کی باقی خبریں بھی پڑھنی شروع کر دینا۔ مجھ سے ہر روز سوال کرتے کہ آج اخبار میں کونسی کھیلوں کا ذکر ہے اور اس کا کیا نتیجہ نکلا۔ چند ماہ میں ہی آپ کو تسلی ہو گئی کہ اخبار اچھی طرح پڑھ لیتا ہوں اور سمجھ لیتا ہوں۔
ایک دن پوچھا کہ تمہیں کونسی ناولیں پڑھنے کا شوق ہے۔ میں نے کہا جاسوسی کی۔ یہ سن کر آپؓ نے اپنے ذاتی لائبریرین سے کہا کہ مَیں اُن سے اپنی پسند کی کتابیں لے آیا کروں گا اور پڑھ کر واپس کردیا کروں گا۔ آپؓ کی لائبریری میں سب علوم کی کتب موجود تھیں۔ جوں جوں انگریزی زبان میں ترقی کرتا گیا، مختلف علوم کی کتب پڑھنی شروع کردی۔ میرے پسندیدہ مضمون تاریخ ، پولیٹیکل سائنس اور فلاسفی تھے۔
ہر سال جلسہ سالانہ کے بعد آپؓ دواڑھائی ہفتہ کے لئے بیاس دریا پر شکار کے لئے تشریف لے جاتے تھے۔ جلسہ کی مصروفیات جوروزانہ 19گھنٹے سے کم نہ ہوتی تھیں کا تقاضہ تھاکہ کچھ آرام اور صحت مند تفریح بھی ہوجائے۔ ایک دن آپؓ کی طبیعت کچھ خراب تھی۔ آپؓ نے ڈاکٹر حشمت اللہ صاحبؓ کے ساتھ مجھے شکار پر بھیج دیا۔ ہم کشتی میں سوار تھے کہ ہمارے اوپر سے دو بڑی مرغابیاں اڑیں۔ میں نے ڈاکٹر صاحبؓ کو کہا کہ اگر آپ دونوں کو گرالیں تو مَیں آپ کو ایک روپیہ انعام دوں گا۔ڈاکٹر صاحب نے دونوں کو گرالیا۔ شام تک مَیں اپنا وعدہ بھول گیا مگر ڈاکٹر صاحب بھولنے والے نہ تھے۔ دو تین دن کے بعد ابا جان سے سارا واقعہ بیان کیا تو آپؓ جب گھر میں تشریف لائے تو مجھے فرمایا کہ تم نے ڈاکٹر صاحب سے جو وعدہ کیا تھا پورا نہیں کیا، یہ جائز نہیں ۔ یا وعدہ نہ کرو یا پھر اس کو پورا کرو۔ اسی وقت اپنی جیب سے ایک روپیہ نکال کر مجھے دیا کہ ابھی جا کر ڈاکٹر صاحب کو یہ دےدو۔
ابّاجان نے ہر سفر میں مجھے اپنے ساتھ رکھا۔ مولوی فاضل کے امتحان مارچ میں ہوتے تھے۔ جب میں نے امتحان دینا تھا تو بھی مجھے وہاں بلالیا لیکن میرے خیمہ میں آرام اور پڑھائی کے لئے سب سامان مہیا فرمادیا۔ اگلے دن جب مَیں کشتی میں لیٹ کر سوگیا تو ڈاکٹر حشمت اللہ صاحبؓ نے مجھے جگانے کی کوشش کی اس پر ابّاجان نے فرمایا کہ ساری رات پڑھتا رہا ہے اس کو نہ جگائیں۔ دراصل اباجان بھی رات گئے تک دفتری کام کرتے تھے، اسی لئے میرے دیر تک پڑھنے کا آپؓ کو علم تھا۔ ڈاک قادیان سے روزانہ آتی تھی۔ دن کو اگر شکار کیلئے تشریف لے جاتے تو رات کا بیشتر حصہ جماعتی کام میں صرف ہوتا۔
احمدیہ سکول کی آخری کلاس مولوی فاضل تھی جو یونیورسٹی کا امتحان ہوتا تھا۔ میں اس امتحان میں اول نمبر پر آیا تھا۔ اباجان پالم پور پہاڑ پر تشریف فرما تھے۔ نتیجہ سن کر آپؓ بہت خوش تھے۔ آپؓ نے اگلے دن چند میل دُور ایک پہاڑ کی چوٹی پر ایک پکنک کا انتظام کیا۔ میں تو عشاء کی نماز کے بعد سو گیا تھا۔ صبح میری امی جان نے مجھے بتایا کہ تمہارے ابّا تقریباً ساری رات ہی پکنک کے لئے کھانے پکوانے اور نگرانی میں لگے رہے ہیں اور ایک میٹھا کھانا خود بھی پکایا ہے۔ مجھے یہ سن کر بے حد خوشی ہوئی اور میں نے عہد کیا کہ ایسے باپ کی مرضی کے خلاف میں کبھی کوئی حرکت نہ کروں گا۔
اس پکنک کے موقع پر اباجان نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اس خوشی میں ایک مشاعرہ بھی منعقد کیا جائے گا جس میں سارا عملہ اور پہریدار وغیرہ بھی اپنی نظمیں سنائیں گے اور جس کی نظم سب سے اچھی ہو گی اس کو میں انعام دوں گا۔ دو جج مقرر ہوگئے۔ قافلہ میں ایک پٹھان عبد الاحد خانصاحب تھے اور اباجان کے فدائی، جان نثار اور بے حد پیار کرنے والے تھے۔ انہوں نے معذرت کی میں تو اردو بھی ٹھیک بول نہیں سکتا۔ اباجان کے اصرار پر انہوں نے یہ شعر کہے:
ڈپٹی کمشنر قد آور چاہئے
اور حضرت کا غلام در چاہئے
کس نے پہنایا اس کو کوٹ پتلون
اس کو تو پالانِ خر چاہئے
اُن دنوں ڈپٹی کمشنر چھوٹے سے قد کا موٹا انگریز تھا۔ ججوں کا فیصلہ خانصاحب کے حق میں تھا چنانچہ اباجان نے نقد انعام انہیں دیا۔
گرمیوں کے موسم میں حضورؓ دو تین ماہ کے لئے پہاڑ پر ضرور جاتے۔ سیروسیاحت کے لئے نہیں بلکہ اس لئے کہ گرمی میں اتنا کام نہیں کیا جاسکتا جتنا ٹھنڈے مقام پر۔ ایک بار ایک مربی جن کو ملک سے باہر بھجوانا تھا، روانگی سے قبل ہدایات لینے ڈلہوزی آئے۔ ان کو رخصت کرنے کے لئے آپؓ بسوں کے اڈہ تک تشریف لائے۔ وہاںاباجان کی نظر اس وقت کے ناظر تعلیم وتربیت کے ایک قریبی عزیز پرپڑی جو شیو کئے ہوئے تھے اور حضورؓ کی موجودگی میں ہنسی مذاق میں مصروف تھے۔ آپؓ نے ناظر صاحب کی طرف منہ کر کے فرمایا کہ تعلیم و تربیت کیا صرف دوسروں کے لئے ہے؟
ابّاجان نے مجھے کسی کھیل سے بھی منع نہیں فرمایا۔ قادیان میں ہاکی، کرکٹ، والی بال کھیلے جاتے تھے۔ کرکٹ عموماً چھٹی کے دن کھیلی جاتی تھی جس کے لئے ہائی سکول اور احمدیہ سکول کی مشترکہ ٹیم تھی اور دوسری ٹیم دونوں سکولوں کے علاوہ اُن کی ہوتی تھی جو کرکٹ کھیلنا جانتے تھے۔ برسات کے موسم اور سردیوں میں بھی عصر کے بعد نوجوانوں کے لئے کھیل کھیلنا لازمی تھا۔ مثلاً کبڈی، میروڈبہ وغیرہ۔ نوجوانوں میں آوارگی کا رجحان بالکل نہ تھا۔
حضرت اباجان نے ایک احمدیہ ٹورنامنٹ کا انعقاد بھی فرمایا تھا جوتین روز کیلئے ہوتا تھا۔ احمدیہ سکول اور ہائی سکول کی ہاکی ٹیم کا میں کپتان تھا۔ ان کھیلوں میں ہاکی، فٹ بال، والی بال، رسہ کشی اور دوڑیں شامل تھیں۔ آپؓ خود بھی میچ دیکھنے تشریف لاتے۔ اس طرح دونوں ٹیموں میں مقابلہ بڑے جوش سے ہوتا۔ ٹورنامنٹ کے اختتام پر انعامات بھی آپؓ خود تقسیم فرماتے۔کھیلوں کے مقابلوں کے علاوہ گرمیوں میں نہر کا ٹرپ بھی ہوتا ۔ مجھے بھی آپؓ نے خود تیرنا سکھایا۔ نہر پر تیراکی کے مقابلے ہوتے جن میں خود بھی شریک ہوتے۔ ایک مرتبہ فرمایا کہ آج مقابلہ ہوگا کہ کون سب سے دُور تک نہر میں بغیر زمین پر پیر لگائے تیرے گا۔ ایک سو کے قریب نوجوان اور بڑے بھی مقابلہ میں نہر میں اُتر ے۔ جو شامل نہ ہوئے تھے وہ کنارے پر ساتھ چلتے جارہے تھے۔ جوتھک جاتے تھے نہر سے باہر آجاتے تھے۔ مگر اباجان لگاتار تیرے جارہے تھے۔ آپ سب سے آخر میں نہر سے باہر نکلے اور تقریباً ایک میل تک زمین پر پاؤں لگائے بغیر تیرتے رہے۔
ایک روزآپؓ نے مجھے بلا کر فرمایا کہ ہاکی کے ایک میچ کا انتظام کرو جس میں ایک ٹیم مدرسہ احمدیہ اور ہائی سکول کے بہترین کھلاڑیوں پر مشتمل ہو اور دوسری طرف مغل کھلاڑی۔ ہاکی کھیل سکنے والے گیارہ مغل نوجوان نظر نہیں آتے تھے۔ ہم چار پانچ ہاکی اچھی کھیل سکتے تھے، باقی صرف خانہ پری تھی۔ میچ دیکھنے کے لئے اباجان خود تشریف لائے۔ میچ شروع ہوا تو پہلے ہاف میں ہم تین گول سے ہاررہے تھے۔ میں مغل ٹیم کا کپتان تھا۔ وقفہ میں مَیں نے اپنے عزیزوں سے کہا کہ مجھے تو بڑی شرم آرہی ہے۔اب فارورڈ اور بیک دونوں پوزیشنیں ہم چار پانچ سنبھال لیتے ہیں۔ چنانچہ ہم نے دوسرے ہاف میں چار گول کردیئے اور اس طرح ہم ایک گول سے جیت گئے۔
قادیان کی ہاکی ٹیم پنجاب کی بہترین ٹیم سمجھی جاتی تھی۔ ایک مرتبہ ملک کے مختلف شہروں میں ہاکی میچ کھیلنے کی تجویز ہوئی۔ میں ہی کیپٹن تھا۔ پہلا میچ خالصہ کالج امرتسر کی ٹیم سے تھا۔ اس کے بعد متعدد شہروں میں کھیلنے کا موقع ملا۔ ہم نے سوائے لدھیانہ کے سب میچ جیتے۔ لدھیانہ میں میچ انگریزی فوج کے ٹریننگ سنٹر میں تھا۔ سارے انسٹرکٹر انگریز تھے۔ افسر اعلیٰ بھی انگریز جنرل تھا۔ ان دنوں اس جگہ ’’دھیان چند‘‘ نامی ایک فوجی ہندوستان کا ہاکی کا بہترین کھلاڑی تھا۔ کہتے ہیں کہ اُس سے بہتر کھلاڑی کبھی پیدا نہیں ہوا۔ یہاں ہم میچ پانچ گول سے ہارے۔ انگریز افسران میچ دیکھنے گراؤنڈ میں موجود تھے۔ ان کے جنرل کمانڈنگ آفیسر نے مجھ سے خواہش کی کہ آپ ایک رات یہاں ٹھہر جائیں، اگلے دن پھر ایک میچ ہوجائے۔ آپ کی ٹیم جیسی اعلیٰ ہاکی میں نے کبھی نہیں دیکھی۔ ہمارا آخری میچ علی گڑھ یونیورسٹی سے تھا۔ ہندوستان کے سب انگریزی اخباروں میں ہماری ٹیم کی تعریف لکھی گئی۔ ہندوستان کے اکثر اخباروں نے جلی سرخیوں میں ٹیم کی تعریف کے ساتھ یہ بھی لکھا کہ یہ عجیب لوگ ہیں دن میں ہاکی کے میچ کھیلتے ہیں اور رات کو جلسے کرکے دعوت الی اللہ کرتے ہیں۔
قادیان کے قریب ایک گاؤں ’’نواں پنڈ‘‘ ہماری جائیداد میں سے تھا۔ اباجان نے وہاں ٹینس کورٹ بنوایا ہوا تھا۔ عصر کے بعد وہاں ٹینس کھیلنے جاتے اور مجھے بھی ساتھ لے جاتے۔ پندرہ بیس منٹ کے لئے مجھے ریکٹ دیدیتے کہ اب تم کھیلو۔ آپؓ انگلستان کے بنے ہوئے ’’ڈوھرٹی ریکٹ‘‘ سے کھیلتے تھے جو اس زمانہ میں سب سے اچھا سمجھا جاتا تھا۔ انہی دنوں آپؓ نے ایک ریکٹ منگوا کر میرے بڑے بھائی مرزا ناصر احمد صاحبؒ کو دیا۔ حالانکہ وہ اباجان کے ساتھ کبھی ٹینس کھیلنے کے لئے نہیں گئے تھے۔ مجھے جب اس کا علم ہواتو میں نے ایک ملازمہ کے ہاتھ اباجان کو خط لکھ کر بھجوایا کہ آپ نے بھائی کو ریکٹ منگوا کر دیا ہے مجھے نہیں۔ مجھے حدیث یاد ہے کہ کسی صحابی ؓ نے حضورﷺ سے عرض کیا کہ میں نے اپنے بڑے بیٹے کو گھوڑا لے کر دیا ہے۔ اس پر رسول کریم ﷺ نے استفسار فرمایا کہ دوسرے بیٹے کو بھی دیا ہے؟ اس جواب پر کہ صرف بڑے کو دیا ہے، آپؐ نے فرمایا کہ یا تو دوسرے بیٹے کو بھی خرید کر دو یا جس کو دیا ہے اس سے بھی واپس لے لو۔
ملازمہ واپس آئی تو کہنے لگی کہ آپؓ نے خط پڑھ کر رکھ لیا ہے، کہا کچھ نہیں۔ اگلے ہی دن آپؓ دفتر سے گھر واپس آئے تو ہاتھ میں ایک ڈوھرٹی ریکٹ پکڑا ہوا تھا جو مجھے دے کر کہا کہ اسے میں نے لاہور آدمی بھجوا کر تمہارے لئے منگوایا ہے۔
گرمیوں کے موسم میں زیادہ تر ڈلہوزی پہاڑ پر جاتے تھے۔ وہاں انگریز فوجیوں کی ایک چھاؤنی بھی تھی۔ ایک مرتبہ ایک انگریز جنرل نے آپؓ سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی تو آپؓ نے اُسے چائے پر مدعو کیا۔ چائے کے لئے کھانے کا سامان ایک یورپین ہوٹل سے منگوایا گیا۔ اس میں سے کافی بچ گیا۔ پرائیویٹ سیکرٹری نے وہ سامان اباجان کو بھجوا دیا جو آپؓ نے اسی کارکن کے ہاتھ واپس بھجوادیا اور پرائیویٹ سیکرٹری کو بلاکر ڈانٹا کہ یہ جماعت کے روپیہ سے منگوایا گیا تھا، آپ کو کیسے جرأت ہوئی مجھے بھجوانے کی۔ جماعت کے روپیہ سے خریدا گیا سامان مَیں اپنے اور اپنے بچوں کے لئے جائز نہیں سمجھتا، یہ کارکنوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ اس واقعہ سے مجھے بھی سمجھا دیا کہ جماعت کے اموال کی حفاظت کرنی ہے اس طرف نظر بھی نہیں کرنی۔
مختلف اوقات میں آپ نے میری تربیت کے لئے جو ارشادات فرمائے۔ ان میں غریبوں کی عزت، ان سے ہمدردی ، حسب توفیق ان کی مدد، یتامیٰ سے برابری کا سلوک ، جھوٹ سے پرہیز نیز یہ بھی فرمایا کہ غریب انسان بھی اگر تمہیں ملنے کے لئے آئے تو اس کو کھڑے ہو کر ملنا ہے۔ ہر ایک کو خواہ اس کو جانتے ہویا نہیں جانتے سلام کہنے میں پہل کرنے کی کوشش کرتے رہنا۔ یہ آپس میں پیار و محبت کا بہت مؤثر ذریعہ ہے۔
ایک مرتبہ آپؓ نے ہم تین چار بھائی بہن جو شعور کی عمر کو پہنچ چکے تھے، کو عشاء کی نماز کے بعد آپ کے پاس آنے کا حکم دیا اور ہمیں ایک کہانی سنانی شروع کی جو کئی ماہ تک جاری رہی۔ کہانی کا لفظ تو دراصل بچوں میں دلچسپی پیدا کرنے کے لئے تھا۔ دراصل یہ کہانی کلیتہً تربیتی پہلو لئے ہوئے تھی۔ جس سے دینی تعلیم کے مختلف پہلو ایسے اجاگر ہوئے جو اس عمر میں کتابیں پڑھنے سے نہ ہوسکتے تھے۔ کچھ عرصہ کے بعد آپ نے ہدایت فرمائی کہ اب میں عشاء کی نماز کے بعد درس دوں گا، تم سب بغیر ناغہ کے شامل ہوگے۔ پھر بہت تفصیل کے ساتھ ہمیں ہر قسم کے آداب اور تربیتی پہلوؤں کی طرف متوجہ کیااور انسانی زندگی اور ہماری ذمہ داریوں کے تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔