حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب
حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کا ذکر خیر کرتے ہوئے ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ مارچ 2000ء میں شامل اشاعت اپنے مضمون میں مکرم مولانا سلطان محمود انور صاحب لکھتے ہیں کہ تکلّف اور نمائش سے آپ کی طبیعت کوسوں دور تھی لیکن اس میں ہرگز کوئی مبالغہ نہیں کہ ذکرالٰہی آپ کی روح کی غذا تھی۔ دفتر میں اگر کام سے وقفہ یا فرصت ہوتی تو بعض اوقات ہاتھ میں تسبیح ہوتی جس کا کبھی عام اظہار نہ ہونے دیا۔
وفات سے دو تین سال قبل جب ہسپتال میں زیرعلاج رہے تو صحت یاب ہونے پر دفتر آنا شروع کیا۔ ایک دن فرمایا کہ اب مجھے موت کا خوف نہیں رہا، اس علالت کے دوران ایک مرحلہ ایسا آیا کہ اگلے جہان کا سارا نظارہ دیکھا کہ مرنے کے بعد انسان کو بالکل تنہا ایک طویل اور تاریک غار سے گزرنا پڑتا ہے جہاں نیک اعمال کی روشنی ساتھ دیتی ہے اور بداعمال والے اُسی تاریکی میں اذیّت اٹھاتے ہیں۔ تاریک غار کا سفر مکمل ہونے پر آگے روشنی اور جنت کی فضائیں ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ مجھے غار کے سفر میں کوئی دقّت یا گھبراہٹ نہ ہوئی اور جنت کے نظارے دیکھ کر پلٹا ہوں۔
آپ کی طبیعت میں قناعت کا رنگ غالب تھا اور نظام خلافت سے انتہا درجہ کی عقیدت، وفا اور اطاعت کا تعلق تھا۔ سوائے خاص تعلق کے عام لوگوں سے تحائف قبول کرنے میں سخت انقباض تھا اور بعض کو یہ نصیحت بھی کرتے کہ میرا یہ مقام نہیں کہ تحفے وصول کروں، اپنا تحفہ حضور کی خدمت میں بھجواؤ۔
کبھی کسی مستحق کی امداد کا مطالبہ ردّ نہیں کیا البتہ کبھی مطالبہ پر اطمینان محسوس نہ کرتے تو تحقیق ضرور کرواتے تاکہ سلسلہ کا مال ضائع نہ ہو۔ بعض دفعہ حالات کا احساس کرکے مطالبہ سے بڑھ کر عطا فرماتے۔ بجٹ کی کمی کی فکر کبھی لاحق نہ ہوتی۔ اگر کوئی مطالبہ پورا کردینے پر شکریہ ادا کرتا تو فرماتے کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو یا سلسلہ کا، میری ذات کا اس میں کیا حق ہے؟۔ خوش آمد سے آپ کو سخت نفرت تھی اس لئے سائل سے ملاقات کرنے سے گریز کرتے لیکن اُسے محروم کبھی نہیں چھوڑا۔
کارکنان کے بچوں کی تعلیم، علاج، شادی بیاہ وغیرہ پر بھی اعانت اپنا فرض سمجھتے لیکن کبھی اس کا تذکرہ نہ فرماتے۔ کسی کارکن کے خلاف شکایت آتی تو بالعموم فرماتے کہ جو کارکن کام پر پورا نہیں اترتا، اُس کا میرے دفتر میں تبادلہ کردیں، مَیں کام لے لوں گا۔ سلسلہ کا مفاد ہمیشہ آپ کے مدنظر رہتا۔
آپ کا ذہن اعداد و شمار یاد رکھنے میں کمپیوٹر کی طرح کام کرتا تھا۔ اکثر صحیح اعداد و شمار زبانی بتادیتے جو ریکارڈ چیک کرنے پر درست ثابت ہوتے۔
دفتری کام میں تاخیر پر سخت کوفت محسوس کرتے۔ حضور کی خدمت میں رپورٹ پیش ہونی ہوتی تو بہت محتاط انداز تھا کہ حقائق لازماً سامنے آئیں لیکن غیرضروری طوالت نہ ہو۔