حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب
حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کا ذکر خیر کرتے ہوئے ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ مارچ 2000ء میں شامل اشاعت اپنے مضمون میں مکرم رشید احمد صاحب لکھتے ہیں کہ حضرت صاحبزادہ صاحب کے ساتھ تقریباً 35 سال خاکسار کو خدمت کا موقعہ ملا۔ 1984ء میں ضیاء آرڈیننس کے بعد ہزاروں احمدی احباب کے ساتھ ساتھ آپ کے خلاف بھی مقدمات قائم ہوئے۔ یہ پانچ مقدمات تھے جن کی پیروی کیلئے آپ ایک عام فرد جماعت کی طرح عدالتوں میں پیش ہوتے رہے اور کبھی اپنی طبیعت پر بوجھ محسوس نہ کیا۔ ایک مرتبہ جب آپ باری کے انتظار میں کھڑے تھے تو ایک دوست نے آپ کو کرسی پیش کی مگر آپ نے منع کردیا۔
آپ کے ساتھ کام کرنے والوں کو یہ احساس ہوتا جیسے میدان جنگ میں اُنہیں ایک ڈھال میسر ہے۔ کبھی گھبراہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا اور رات دو بجے بھی حاضر ہونے پر بڑی بشاشت سے پوری بات سنی اور ہدایات دیں۔ دوسروں کی خاطر اپنا آرام قربان کردیتے۔
مستحقین کی امداد دل کھول کر کرتے۔ اس میں مذہبی تفریق نہیں تھی۔ ایک غیرازجماعت مولوی صاحب نے درخواست کی تو اُن کی بھی مطلوبہ ضرورت پوری کردی۔
ماتحت عملہ سے نہایت مشفقانہ سلوک ہوتا۔ کارکنان کی تنخواہوں کا معاملہ زیرغور ہوتا تو زیادہ سے زیادہ اضافہ کی کوشش کرتے۔ ایک مرتبہ پانچ کس کی فیملی شمار کرکے حساب بنایا کہ اس فیملی کو ہفتہ میں کتنا گوشت، سبزی اور دودھ وغیرہ کی ضرورت ہے۔ اس طرح گوشوارہ بناکر انجمن میں معاملہ پیش کیا جس کے نتیجہ میں تنخواہوں میں مناسب اضافہ ہوا۔ کئی کارکنان کو کمال شفقت سے آپ نے برخواست ہونے سے بچالیا اور کئی ایک کی ترقی (جو بظاہر ناممکن تھی) دلوادی۔
ایک کارکن جو مجرد ہونے کے دنوں میں کسی دوکان پر پارٹ ٹائم کام کرتے تھے اور اپنی تنخواہ سے پس انداز کرکے رقم دوکاندار کے پاس امانت رکھواتے تھے کہ شادی کے بعد لے لوں گا۔ جب اُن کی شادی ہوئی تو دوکاندار کی مالی حالت بہت خراب تھی چنانچہ وہ رقم ادا نہ کرسکا اور یہ معاملہ حضرت میاں صاحب کے پاس آیا۔ دوکاندار آپ کے سامنے اپنے مالی حالات بیان کرکے روپڑا۔ آپ نے فرمایا کہ کارکن مذکور کو میری ذاتی امانت سے اُس کی رقم ادا کردی جائے اور اس دوکاندار کو چھوڑ دو ۔
ربوہ کے ایک دوکاندار نے، جو 1974ء میں میرے ساتھ اسیر راہ مولیٰ رہے تھے، ایک مکان خریدنے کے لئے اپنی ساری جمع پونجی کا اندازہ لگایا تو اسّی ہزار روپے کم نکلے۔ وہ میرے پاس آئے تو مَیں نے اُن کی طرف سے ایک درخواست میں سارے حالات لکھ کر حضرت میاں صاحب سے پچاس ہزار روپے قرض مانگے اور اپنی ضمانت بھی دی۔ آپ نے فرمایا کہ اگر رقم دینی ہے تو پوری دیں، پچاس ہزار لے کر تیس ہزار کے لئے پھر کسی اَور کا گھر تلاش کرے گا۔ چنانچہ انہیں پوری رقم مل گئی۔
1964ء یا 1965ء میں رات کو چور، چور کی آوازیں سن کر خدام نے دو آدمیوں کا تعاقب کرکے انہیں پکڑ لیا اور اُن کی مرمت کی۔ اتفاق سے حضرت میاں صاحب نے بھی ان خدام کا تعاقب کرکے دو مشتبہ آدمیوں کو چھڑایا اور انہیں پولیس کے حوالہ کردیا۔ تحقیق پر معلوم ہوا کہ یہ دونوں نوجوان عیسیٰ خیل ٹرانسپورٹ فیصل آباد کے ملازم ہیں جو آوارگی کے لئے یہاں آئے تھے۔ یہ کمپنی گورنر پنجاب ملک امیر محمد خان کی ملکیت تھی اس لئے انتظامیہ کو پریشانی ہوئی کہ مبادا گورنر صاحب کے آدمیوں کی وجہ سے پوچھ گچھ نہ ہو۔ جب اس کا علم محترم میاں صاحب کو ہوا تو آپ نے گورنر کو اور کمپنی کے جنرل مینیجر کو خطوط لکھوائے کہ آپ کی ٹرانسپورٹ کمپنی کے فلاں فلاں ملازم آدھی رات کو ربوہ آئے جو پہرہ داروں کے ہاتھوں پکڑے گئے۔ ان کا مقصد سوائے آوارگی کے اَور کچھ نہ تھا، یہ لوگ آپ کی اور کمپنی کی بدنامی کا باعث ہیں اس لئے ان کا محاسبہ کریں ۔ جب یہ خط گورنر صاحب کو ملا تو انہوں نے جنرل مینیجر کو ربوہ بھجوایا اور حکم دیا کہ اگر اہل ربوہ ان دونوں ملازموں کو معاف کردیں تو یہ کمپنی میں رہ سکتے ہیں ورنہ انہیں ملازمت سے فارغ کردیں۔ اس وقت دونوں نوجوان بھی اُن کے ہمراہ تھے۔ انہوں نے جنرل مینیجر کے روبرو اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور معافی مانگی، اس طرح اُن کی جان بخشی ہوئی۔