حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب
حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کا ذکر خیر کرتے ہوئے ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ مارچ 2000ء میں شامل اشاعت اپنے مضمون میں مکرم ملک منور احمد جاوید صاحب لکھتے ہیں کہ حضرت صاحبزادہ صاحب کو حضرت خلیفۃالمسیح سے بے پناہ محبت تھی۔ جب بھی آپ کو حضور انور کی کسی سفر کے لئے روانگی کا علم ہوتا تو فوری طور پر تین بکرے صدقہ کرنے کا ارشاد فرماتے۔
آپ اپنے ساتھ کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی فرماتے۔ اگرچہ لغزش پر ناراض بھی ہوتے لیکن یہ ناراضگی زیادہ دیر قائم نہ رہتی۔ ایک دفعہ کسی بات پر بہت ناراض ہوئے اور ٹیلیفون بھی بند کردیا۔ دو دن بعد جب میں کسی کام کے سلسلہ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور معذرت کی تو فرمایا کہ بھول جاؤ اُس غصہ کو۔ پھر فرمایا کہ سرزنش اُسی کو کی جاتی ہے جو کام کرتا ہے، بھلا کام نہ کرنے والے کو ڈانٹنے کی ضرورت ہی کیا ہوتی ہے۔
ایک دفعہ ایک شخص میرے پاس آیا جسے پندرہ ہزار روپے کی فوری ضرورت تھی۔ مَیں نے پانچ ہزار کا بندوبست کردیا اور پانچ ہزار کے لئے خود ہی درخواست لکھ کر حضرت میاں صاحب کے سامنے صورتحال رکھی کہ جس کو رقم کی ضرورت ہے وہ نام ظاہر نہیں کرنا چاہتا۔ آپ نے فرمایا کہ پانچ ہزار کا اگر بندوبست کردوں تو مزید پانچ ہزار کی پریشانی موجود رہے گی۔ یہ کہہ کر آپ نے ساری رقم کا بندوبست کردیا۔
ایک دفعہ دارالضیافت کی کسی مد میں اضافہ کا کیس تھا۔ جب مَیں نے اس کا تذکرہ آپ کے سامنے کیا تو فرمایا کہ مہنگائی کا سلسلہ ہمیشہ سے جاری ہے۔ ایک وقت میں جبکہ ایک پیسے کے دو انڈے آتے تھے اور جب ایک پیسہ کا ایک انڈا ہوگیا تو اس وقت بھی یہ کہا گیا کہ مہنگائی ہوگئی ہے۔ آج اس کے مقابل پر بہت مہنگائی ہے اور مہنگائی کے ساتھ اضافہ کی ضرورت کا ہمیشہ کا ساتھ ہے اس لئے مہنگائی پر شور ڈالنا ٹھیک نہیں ہوتا۔