حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب
حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کا ذکر خیر کرتے ہوئے ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ مارچ 2000ء میں شامل اشاعت اپنے مضمون میں مکرم ناصر احمد ظفر بلوچ صاحب لکھتے ہیں کہ
حضرت صاحبزادہ صاحب کے ساتھ میرا تعلق 1970ء میں شروع ہوا۔ آپ نے ذاتی آرام کو ہمیشہ جماعتی مفاد پر قربان کئے رکھا۔ پیرانہ سالی کے باوجود بھی، دن ہو یا رات، ایک دفعہ بھی ایسا نہیں ہوا کہ میں ملنے گیا ہوںاور ملاقات سے محروم رہا ہوں، مشکل سے مشکل مسئلہ لے کر حاضر ہوتا تو آپ مختصر الفاظ میں فوری صائب اور جامع مشورہ سے نوازتے۔
آپ کے زرعی فارم کے تمام ملازمین تقریباً غیرازجماعت ہیں۔ آپ نے ہمیشہ اُن سے عزیزوں جیسا سلوک کیا۔ یہی وجہ تھی کہ آپ کی وفات پر وہ لوگ دھاڑیں مار مار کر روئے۔ جو کوئی ایک دفعہ آپ سے ملاقات کر جاتا، وہ آپ کا گرویدہ ہوجاتا۔
ایک دوست نے جو 9 بچوں کے واحد کفیل تھے، آپ سے عرض کیا کہ بڑی بیٹی کے رخصتانہ میں دو یوم باقی ہیں۔ باقی تیاری تو ہوچکی ہے لیکن بارات کی مہمان نوازی کے لئے گنجائش نہیں ہے۔ حضرت میاں صاحب نے اُن دوست کے اندازے سے قریباً دوگنے افراد کیلئے کھانے کا انتظام کرادیا۔
ایک مخلص احمدی خاتون کی عدم موجودگی میں چور اُن کے گھر کا صفایا کرگئے اور عام استعمال کی چیزیں بھی لے گئے۔ اُن کی آمدنی انتہائی قلیل تھی۔ حضرت میاں صاحب کو اطلاع ہوئی تو صدر عمومی صاحب کو چوری کا سراغ لگوانے کا ارشاد فرمایا اور خاتون کی اس قدر نقد امداد فرمائی جس سے وہ گھر کی بنیادی اشیاء خرید سکے۔
حضرت میاں صاحب بڑے بااصول انسان تھے۔ لین دین کے معاملات میں کبھی کوئی بات اخفا میں نہ رکھتے۔ آپکے ایک قابل اعتماد آدمی مکرم محمد یوسف صاحب پنجوآنہ کا بیان ہے کہ آپ نے جب کوئی پرانی مشینری فروخت کرنی ہوتی تو اس کی قیمت کا اندازہ اس طرح لگاتے کہ مَیں نے فلاں سال میں خریدی تھی اور اتنے سال کام لیا۔ آپ نے ایک بار مجھ سے بیان کیا کہ ایک ٹریکٹر فروخت کرنا ہے۔ مَیں نے وہ سوا لاکھ روپے میں فروخت کردیا۔ مَیں خریدار کو دفتر لایا اور خود اندر جاکر آپکے سامنے سوا لاکھ روپے رکھے کہ اتنے میں ٹریکٹر فروخت ہوگیا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ آپ نے مہنگا فروخت کیا ہے، اس وقت اس کی قیمت تو ایک لاکھ ہے۔ مَیں نے عرض کیا کہ خریدار اس سودے پر خوش ہے۔ فرمایا: اُس کو بلاؤ۔ وہ آیا تو آپ نے پوچھا کہ کیا تسلّی کرلی ہے؟ اُس نے کہا بالکل مطمئن ہوں۔ پھر مجھ سے دریافت فرمایا کہ اس ٹریکٹر میں فلاں فلاں خرابی ہے، اُس کے بارہ میں تم نے آگاہ کردیا ہے۔ عرض کیا نہیں۔ فرمایا: یہ دیانت کے خلاف ہے۔ عرض کیا کہ یہ نقص تو بالکل معمولی ہے۔ آپ نے میز پر پڑی ہوئی رقم میں سے دس ہزار روپے اٹھاکر خریدار کو واپس کردیئے۔ اُس وقت اُس کے چہرہ کی کیفیت دیدنی تھی۔ حضرت میاں صاحب کی صاف گوئی اور بے نیازی کا اُس پر گہرا اثر ہوا۔ وہ نہایت ادب سے آپ کو اپنے گھر آنے کی دعوت دے کر رخصت ہوا اور باہر آکر کہا کہ مَیں نے زندگی بھر ایسا عظیم المرتبت انسان نہیں دیکھا۔ مَیں اُسے الوداع کہہ کر واپس حضرت میاں صاحب کے پاس پہنچا تو رقم جوں کی توں میز پر پڑی تھی۔ آپ نے اُس میں سے پندرہ ہزار روپے مجھے دیئے اور فرمایا کہ اپنے ٹریکٹر کی قیمت مَیں نے وصول کرلی ہے۔