حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 25؍فروری 1998ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کا ذکر خیر کرتے ہوئے مکرم چودھری شبیر احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت میاں صاحب کو خلافت کا اتنا احترام تھا کہ خلیفہ وقت کے سامنے بڑے مؤدّب اور خاموش رہا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے مجھے یاد فرمایا کہ ایک پروجیکٹر کو ٹھیک کرجائیں۔ جب میں قصر خلافت میں حاضر ہوا تو حضور کی خدمت میں محترم صاحبزادہ صاحب بھی موجود تھے اور حسب عادت باادب اور خاموش بیٹھے تھے۔ دوسرے دن میں نے آپ سے پوچھا کہ آپ نے وہ نقص کیوں نہیں دور کردیا۔ فرمانے لگے کہ میں حضرت صاحب کے سامنے از خود نہیں بولتا۔ اگر مجھے حکم ہوتا تو تعمیل ہوتی۔

محترم چودھری شبیر احمد صاحب

مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ میں کچھ عرصہ قاضی کے فرائض بھی ادا کرتا رہا ہوں۔ ایک مقدمہ میں حضرت صاحبزادہ صاحب بطور گواہ تشریف لائے اور کسی امتیازی سلوک کے مطالبہ کے بغیر عام شہری کی حیثیت سے آپ نے گواہی دی البتہ ایک امر کی طرف خیرخواہی کے جذبہ سے توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ جس دفتر میں آپ نے گواہوں کو بلایا ہو اس کا گیٹ کھلا رکھوانا چاہئے ، گواہ کو ہر ممکن سہولت پہنچانا ضروری ہوتا ہے۔
دعوتوں میں حضرت صاحبزادہ صاحب محض دوستوں کی دلجوئی کے لئے شامل ہوا کرتے تھے۔ ایک دعوت میں جب کھانا تقسیم ہونے میں خاصی تاخیر ہوگئی تو مجھ سے اظہار کئے بغیر نہ رہا گیا۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ میں اکثر گھر سے کھانا کھاکر آتا ہوں۔
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 26؍فروری1998ء میں مکرم نسیم سیفی صاحب حضرت صاحبزادہ صاحب کا ذکر خیر کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ مجلس شوریٰ کے ایک سیشن کے دوران کسی نے محترم میاں صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے حضور کا لفظ استعمال کیا۔ عام حالات میں تو یہ معمولی بات ہے لیکن جس کرسی پر آپ بیٹھے تھے اس کا احترام کرتے ہوئے آپ نے فوراً اس شخص کو ٹوکا اور کہا کہ ’’یہ لفظ صرف اور صرف حضرت صاحب کے لئے استعمال کیا جائے۔ میرے لئے یہ لفظ نہ استعمال کیا جائے‘‘۔

مکرم نسیم سیفی صاحب
50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں