حضرت صاحبزادہ پیر افتخار احمد صاحبؓ
حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں ’’حبی فی اللہ صاحبزادہ افتخار احمد ۔ یہ جوان صالح میرے مخلص اور محب صادق حاجی حرمین شریفین منشی احمد جان صاحب مرحوم و مغفور کے خلف رشید ہیں اور بمقتضائے اَلوَلَدُ سِرٌّ لِاَبِیہِ تمام محاسن اپنے والد بزرگوار کے اپنے اندر جمع رکھتے ہیں اور وہ مادہ ان میں پایا جاتا ہے جو ترقی کرتا کرتا فانیوں کی جماعت میں انسان کو داخل کر دیتا ہے۔ خدا تعالیٰ روحانی غذاؤں سے ان کو حصہ وافر بخشے اور اپنے عاشقانہ ذوق و شوق سے سرمست کرے۔ آمین ثم آمین۔‘‘
حضرت صاحبزادہ پیر افتخار احمد صاحبؓ آف لدھیانہ 3؍جنوری 1866ء کو پیدا ہوئے۔ 1884ء میں پہلی بار حضرت اقدسؑ کی زیارت سے مشرف ہوئے اور 9؍جولائی 1891ء کو بیعت کی سعادت پائی۔ آپؓ نے 8؍جنوری 1951ء کو وفات پائی۔ آپ کی سیرۃ کا بیان مکرم ریاض محمود باجوہ صاحب کے قلم سے ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ مئی 1999ء کی زینت ہے۔
حضرت اقدسؑ کی زیارت آپؓ نے پہلی بار اُس وقت کی جب حضورؓ تین روز کے لئے لدھیانہ تشریف لائے اور آپؓ کے والدہ صاحب کے ایک عقیدتمند کے ہاں قیام فرما ہوئے۔ پھر اُس وقت موقع ملا جب حضورؓ شادی کے لئے دلّی تشریف لے جا رہے تھے تو آتے جاتے لدھیانہ کے احباب کو اسٹیشن پر زیارت کا شرف بخشا۔ جب حضرت منشی احمد جان صاحب کی وفات ہوئی تو حضورؓ تعزیت کے لئے لدھیانہ تشریف لے گئے اور قرآن شریف کی آیت
وَ کَانَ اَبُوھُمَا صَالِحًا
پڑھ کر فرمایا کہ ان دونوں بچوں پر مہربانی کرنے کی یہ وجہ تھی کہ ان کا باپ صالح تھا۔ (حضرت منشی صاحبؓ کے بھی دو ہی لڑکے تھے)۔
حضرت صاحبزادہ بشیر احمد اوّلؓ کے عقیقہ کے موقع پر حضورؓ نے لدھیانہ کے احباب کو شمولیت کی دعوت دی۔ یہ حضرت پیر صاحبؓ کا قادیان کا پہلا سفر تھا۔ 1892ء میں آپؓ ہجرت کرکے قادیان آبسے۔ حضورؑ نے اپنے رہائش کے مکانوں میں ہی آپؓ کو جگہ عطا فرمائی۔ ایک روز حضورؑ کے ارشاد پر آپ انسپکٹر مدارس سے ملے جو قادیان آیا ہوا تھا اور اُسے کہا کہ آپؓ کو قادیان کے سکول میں مدرس رکھ لے۔ اُس نے تعلیم وغیرہ کا پوچھ کر تعینات کردیا۔ حضورؑ کے ارشاد کے مطابق آپؓ حضرت مصلح موعودؓ کو بھی اپنے ساتھ سکول لے جایا کرتے تھے۔ پانچ سال قادیان میں رہنے کے بعد آپؓ پھر مع اہل وعیال لدھیانہ چلے گئے اور پھر 1901ء میں واپس قادیان آئے اور پھر یہیں رہے۔ 1902ء میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ نے حضورؑ کی اجازت سے آپؓ کو محرری کے کام پر رکھ لیا اور آپؓ 1927ء میں قواعد کے مطابق ریٹائر ہوئے۔
حضرت صاحبزادہ صاحب کا نام حضرت اقدسؑ نے ضمیمہ انجام آتھم میں 313 ؍اصحاب میں نمبر 26 پر درج فرمایا ہے۔ آپؓ کی وفات پر حضرت مصلح موعودؓ نے علالت طبع کے باوجود آپؓ کی نماز جنازہ پڑھائی اور نعش کو کندھا بھی دیا۔
حضرت پیر صاحبؓ کو حج بیت اللہ کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ 19؍ستمبر 1885ء کو بیت اللہ شریف اور میدانِ عرفات میں آپؓ بھی اپنے والد صاحبؓ کے ساتھ موجود تھے جب حضور علیہ السلام کی طرف سے ایک دعا وہاں پڑھی گئی تو آپؓ کو بھی وہ دعا ساتھ ساتھ پڑھنے کی سعادت نصیب ہوئی۔
حضرت پیر صاحبؓ نہایت سعادتمند اور زاہد اور تہجد گزار تھے۔ چہرہ نورانی تھا۔ رمضان کا مہینہ خصوصیت سے عبادت میں گزارتے اور اعتکاف کرتے تھے۔ نہایت قانع، محنتی اور متوکّل تھے۔ اردو اور فارسی میں بے تکلّف بات کر لیتے تھے۔ آپؓ کے جوان لڑکے بھی فوت ہوئے لیکن آپؓ ہمیشہ راضی بقضا رہے۔ صوفی مزاج تھے اور طبیعت پر غور و فکر کا رنگ غالب تھا۔
حضرت پیر صاحبؓ کی پہلی شادی سولہ برس کی عمر میں ہوئی جس سے آٹھ لڑکے اور پانچ لڑکیاں پیدا ہوئے لیکن چار لڑکے اور چار لڑکیاں فوت ہوگئے۔ بیوی کی وفات پر دوسری شادی کی جس سے دو لڑکے اور دو لڑکیاں ہوئیں جن میں سے ایک لڑکا خوردسالی میں فوت ہوا۔ پھر دوسری بیوی کی وفات ہوگئی تو آپ نے تیسری شادی کرلی۔