حضرت صوفی احمد جان صاحب لدھیانوی
حضرت مسیح موعودؑ کی کتاب ’’براہین احمدیہ‘‘ کی اشاعت کے بعد کتاب پر ریویو لکھنے والوں میں سے ایک حضرت صوفی احمد جان صاحب لدھیانوی بھی تھے۔ آپ نے حضورؑ کے بارے میں لکھا کہ ’’اس کے مؤلف جناب مخدومنا مولانا میرزا غلام احمد صاحب دام فیوضہ ہیں… نہایت خلیق، صاحب مروت و حیا، جوان رعنا، چہرہ سے محبت الٰہی ٹپکتی ہے… امتحان کا وقت آگیا ہے ، حجت الٰہی قائم ہوچکی ہے اور آفتاب عالمتاب کی طرح بدلائل قطعیہ ایسا (شخص) بھیج دیا ہے کہ سچوں کو نور بخشے اور ظلمات و ضلالت سے نکالے اور جھوٹوں پر حجت قائم کرے‘‘۔
حضرت صوفی صاحب نے حضورؑ سے بیعت لینے کی درخواست بھی کی لیکن حضورؑ نے فرمایا کہ مجھے ابھی اس کا حکم نہیں ملا البتہ حضورؑ نے حضرت میر عباس علی صاحب، حضرت صوفی صاحب اور بعض دیگر ارادتمندوں کے اصرار پر 1884ء میں لدھیانہ کا سفر اختیار فرمایا۔ یہ حضورؑ کی حضرت صوفی صاحب کے ساتھ پہلی ملاقات تھی لیکن آپ نے اپنی فراست سے حضورؑ کا مقام پہچان لیا اور اپنے سینکڑوں مریدوں سمیت آپکی طرف راغب ہوئے،آپ فرمایا کرتے تھے ’’سورج نکل آیا ہے، اب تاروں کی ضرورت نہیں‘‘۔ 1885ء کے اوائل میں حضرت صوفی صاحب نے حج پر جانے کے لئے حضورؑ سے اجازت لی اور اپنے فرزند اور 22 خدام کے ہمراہ رخت سفر باندھا۔ اس موقعہ پر حضورؑ نے آپ کو ایک دعا لکھ کر دی جو حسب ارشاد آپ نے بآواز بلند وہاں پڑھی۔ وسط دسمبر میں آپ واپس وطن تشریف لائے اور چند ہی روز بعد 27 دسمبر کو آپ کی وفات ہوئی۔ حضورؑ نے قادیان میں ایک جماعت کے ساتھ نماز جنازہ پڑھی اور تعزیت کے لئے لدھیانہ تشریف لے گئے۔
23 مارچ 1889ء کو جماعت احمدیہ کی تاسیس اور پہلی بیعت کے لئے حضورؑ نے حضرت صوفی صاحب سے گہری محبت اور بعض دیگر حکمتوں کے پیش نظر ان کے گھر کو پسند فرمایا اور یہیں حضورؑ نے اپنی کتاب ’’ازالہ اوہام‘‘ تصنیف فرمائی جس میں حضرت صوفی صاحب کا بھی نہایت محبت سے ذکر فرمایا کہ ’اس وقت نہایت غم سے بھرے ہوئے دل کے ساتھ وہ پردرد قصہ مجھے لکھنا پڑا اور اب یہ ہمارا دوست اس عالم میں موجود نہیں… ایک جماعت کثیر کے پیشوا تھے اور ان کے مریدوں میں آثار رشد سعادت و ا تباع سنت نمایاں ہیں… انہوں نے درحقیقت اپنے تئیں اپنے دل میں سلسلہ بیعت میں داخل کرلیا چنانچہ لکھا کہ میں آپ کے للّہی ربط کے زیر سایہ اپنے تئیں سمجھتا ہوں اور پھر لکھا کہ میں آپ کی جماعت میں داخل ہوگیا ہوں‘۔
عورتوں میں سب سے پہلے بیعت کی سعادت حضرت صوفی صاحب کی صاحبزادی حضرت صغریٰ بیگم صاحبہؓ کو حاصل ہوئی تھی جن کی شادی ابتداء 1889ء میں مردوں میں سب سے پہلے بیعت کی سعادت حاصل کرنے والے حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحبؓ سے ہوئی تھی۔
حضرت صوفی احمد جان صاحب کے بارے میں ایک مضمون محترم محمود مجیب اصغر صاحب کے قلم سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 27؍ مارچ 1997ء میں شامل اشاعت ہے۔