حضرت عامرؓ بن فہیرہ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 23؍اگست 1999ء میں صحابی رسولؐ حضرت عامرؓ بن فہیرہ کے بارہ میں ایک مضمون مکرم غلام مصباح بلوچ صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
آپؓ کا نام عامر اور کنیت ابو عمرو تھی۔ آپؓ سیاہ فام حبشی تھے اور طفیل بن عبداللہ کے غلام تھے۔ آپؓ کو اسلام کے ابتدائی تین چار سالوں میں قبول حق کی سعادت عطا ہوئی تو اس جرم میں دوسرے غلاموں کی طرح آپؓ پر بھی بہت ظلم ڈھایا گیا۔ ایک روز جب آپؓ کو عذاب دیا جا رہا تھا تو حضرت ابو بکر صدیقؓ کا وہاں سے گزر ہوا اور حضرت ابوبکرؓ نے آپؓ کو خرید کر غلامی سے نجات دلائی اور بکریاں چرانے کے لئے اپنے پاس رکھ لیا۔
جب آنحضورﷺ اور حضرت ابوبکر صدیقؓ مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ روانہ ہوئے تو راستہ میں غار ثور میں قیام کے دوران حضرت عامرؓ بن فہیرہ دن بھر اپنی بکریاں چراتے رہتے اور رات کو غار ثور پہنچ جاتے اور بکریوں کا دودھ دوہ کر پیش کرتے۔ جب آنحضورﷺ غار سے نکل کر مدینہ روانہ ہوئے تو آپؓ اپنے آقا حضرت ابوبکرؓ کے اونٹ پر بیٹھے اور آنحضورﷺ کے ساتھ ہجرت کی توفیق پائی اور دوران سفر بھی خدمت کی توفیق پائی۔
مدینہ میں مؤاخات میں آپ کو حضرت حارث بن اوس بن معاذؓ کا بھائی بنایا گیا۔ آپؓ بھی اُن اصحاب میں شامل تھے جنہیں مدینہ کی آب و ہوا راس نہ آئی اور وہ بیمار ہوگئے۔ حضرت بلالؓ اور حضرت ابوبکر صدیقؓ بھی بیمار تھے اور تینوں ایک ہی گھر میں رہائش پذیر تھے۔ تب آنحضورﷺ نے دعا کی کہ ’’اے اللہ! تُو مدینہ کو مکہ کی طرح یا اس سے بھی زیادہ ہمارے لئے پسندیدہ بنا اور اس کو بیماریوں سے پاک کر اور ہمارے لئے کھانے میں برکت ڈال اور اس وبائی بیماری کو دور لے جا‘‘۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے تمام صحابہؓ کو شفا عطا فرمائی۔
حضرت عامرؓ کو غزوہ بدر اور غزوہ احد میں شمولیت کی سعادت عطا ہوئی۔ 4ھ میں قبیلہ بنو عامر کا رئیس ابو براء عامری مدینہ آیا اور اُس نے اگرچہ اسلام قبول نہ کیا لیکن آنحضورﷺ سے درخواست کی کہ چند اصحاب کو اُس کے ساتھ نجد بھجوادیں کیونکہ امید ہے کہ نجد کے لوگ اسلام قبول کرلیں گے۔ آنحضورﷺ نے فرمایا کہ مجھے تو اہل نجد پر اعتماد نہیں ہے۔ جب اُس نے مسلمانوں کی حفاظت کا ذمہ لیا تو آنحضورﷺ نے ستر (70) اصحاب کی ایک جماعت روانہ فرمائی لیکن جب یہ جماعت بئرمعونہ کے مقام پر پہنچی تو ابو براء کے بھتیجے نے لوگوں کو اکسایا اور انہوں نے حملہ کرکے انہتر اصحاب کو شہید کردیا۔ ان شہداء میں عامرؓ بن فہیرہ بھی تھے جنہیں ایک شخص جبار نے شہید کیا۔ جبار بعد میں مسلمان ہوگیا اور وہ اپنے مسلمان ہونے کی وجہ یہ بیان کرتا تھا کہ جب مَیں نے عامر بن فہیرہؓ کو شہید کیا تو اُن کے منہ سے بے اختیار نکلا ’’فُزۡتُ وَاللّٰہ‘‘ یعنی خدا کی قسم مَیں تو اپنی مراد کو پہنچ گیا۔ اس بات کا جبار کی طبیعت پر اتنا اثر ہوا کہ بالآخر اسلام قبول کرلیا۔
عامر بن طفیل کو حضرت عامرؓ بن فہیرہ کے بلند مقام کا نظارہ کروایا گیا۔ اُس نے کہا کہ جب یہ قتل ہوئے تو ان کی لاش آسمان کی طرف اٹھائی گئی اور زمین و آسمان کے درمیان معلّق رہی، پھر زمین پر رکھ دی گئی۔