حضرت عبدالستار خان صاحبؓ افغان
حضرت مولوی عبدالستار خان صاحبؓ افغان المعروف بزرگ صاحب کا شمار حضرت مسیح موعودؑ کے ابتدائی صحابہ اور حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحبؓ شہید کے خاص شاگردوں میں ہوتا تھا۔ آپؓ مکرم دیندار خان صاحب کے فرزند تھے اور علاقہ خوست افغانستان کے رہنے والے تھے۔ آپؓ کی مادری زبان افغانی تھی لیکن عربی اور فارسی میں بھی عمدہ گفتگو کرسکتے تھے۔ اردو بھی پڑھ اور بول سکتے تھے۔ آپؓ بتایا کرتے تھے کہ جب ابھی حضرت اقدس علیہ السلام کا دعویٰ آپ تک نہیں پہنچا تھا تب بھی حضرت صاحبزادہ صاحبؓ درسِ حدیث دیتے ہوئے فرماتے تھے کہ یہی زمانہ موعود مسیح کے آنے کا ہے۔ چنانچہ جب حضرت صاحبزادہ صاحبؓ کو حضورؑ کی کتاب پہنچی اور آپؓ نے حضرت اقدسؑ کی تصدیق کی تو آپؓ کے قریبی دوستوں نے فوراً مان لیا۔ جب بعض فرقوں نے حضرت صاحبزادہ صاحبؓ کی مخالفت شروع کی اور آپؓ کے قتل کے درپے ہوئے تو حضرت مولوی عبدالستار خان صاحبؓ نے اپنا گھر بار چھوڑ کر آپؓ کی صحبت میں رہنا شروع کردیا اور طویل سفروں میں بھی ساتھ رہے۔ آپؓ پہلی بار 1897ء میں قادیان تشریف لائے۔ اس کے بعد بھی دو تین مرتبہ آتے رہے اور پھر 1902ء میں حضرت صاحبزادہ صاحبؓ کے ہمراہ بھی تشریف لائے۔ 1903ء میں حضرت صاحبزادہ صاحبؓ کی شہادت کے بعد 1904ء سے آپؓ نے قادیان میں مستقل سکونت اختیار کرلی جہاں مہمان خانہ کے ایک چھوٹے سے حجرہ میں نہایت صبر و شکر کے ساتھ فقیرانہ رنگ میں مقیم رہے۔ آپؓ بہت منکسرالمزاج، پاک طینت اور صاحبِ مکاشفات تھے۔ 18؍ اکتوبر 1932ء کو آپؓ کی وفات ہوئی اور حضرت مصلح موعودؓ نے نماز جنازہ پڑھائی اور نعش کو کندھا دیا اور آپؓ کا ذکرِ خیر بھی فرمایا۔بہشتی مقبرہ قادیان میں تدفین عمل میں آئی۔
آپؓ کا ذکرِ خیر مکرم عبدالباسط شاہد صاحب کے قلم سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ26؍جون 1997ء کی زینت ہے۔
حضرت مولوی عبدالستار خان صاحبؓ کو حضرت مسیح موعودؓ سے عشق تھا اور حضورؑ کی بھی آپؓ پر نمایاں نظرِ شفقت تھی۔ ایک بار حضورؑ کے لئے یورپ سے کوئی تحفہ آیا جسے حضورؓ نے احباب میں تقسیم کردیا۔ حضرت مولوی صاحبؓ اس وقت موجود نہیں تھے اس لئے حضورؑ نے آپؓ کے لئے دگنا حصہ رکھ دیا اور آپؓ کے آنے پر آپؓ کو عطا فرمایا۔ آپؓ کو حضورؑ کے ہمراہ بعض سفروں پر جانے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ اپنے حجرہ میں قرآن و حدیث کے علاوہ حضرت اقدسؑ کی کتب کا درس بھی جاری کیا ہوا تھا۔ آپؓ کی وفات پر حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ بعض خاص مواقع پر حضورؑ نے آپؓ سے دعا کرنے کے لئے بھی کہا۔… ایک بار میں نے بھی انہیں ایک دینی کام کیلئے استخارہ کرنے کو کہا تھا اور کام کے بارے میں انہیں بالکل نہیں بتایا لیکن دو تین روز بعد انہوں نے مجھے اس دینی کام کی، جو دعوتِ الی اللہ سے متعلق تھا، جزئیات سے بھی آگاہ کردیا جو اب تک پوری ہو رہی ہیں۔… دو اڑھائی مہینے پہلے میں نے ڈلہوزی میں رویاء میں دیکھا کہ کوئی شخص نہایت گھبرائے ہوئے الفاظ میں کہتا ہے دوڑو دوڑو قادیان میں ایک ایسا شخص فوت ہوا ہے جس کے فوت ہونے سے آسمان اور زمین ہل گئے ہیں… میں سمجھتا ہوں کہ یہ رویاء انہی کے متعلق تھی۔
حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت خان صاحبؓ کے بارہ میں مزید فرمایا کہ خدا نے ان کو توکل کا مقام عطا فرمایا تھا اور وہ نہایت سیرچشم واقع ہوئے تھے۔ مجھے یاد نہیں کہ انہوں نے ایک دفعہ بھی اپنی ذاتی ضروریات کے لئے مجھے کسی قسم کی تحریک کی ہو۔… انہیں کثرت سے الہامات ہوتے تھے مگر باوجود اس کے وہ خلافت کا انتہائی ادب کرتے ۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے جن چند لوگوں کو امام الصلوٰۃ مقرر کیا ہوا تھا ان میں آپؓ بھی شامل تھے۔