حضرت عبدالستار خانصاحبؓ
حضرت عبدالستار خاں صاحبؓ المعروف بزرگ صاحب کا تعلق خوست کے مشہور قبیلہ منگل سے تھا۔ آپؓ کے والدین علاقہ میں بہت معزز اور خداترس شمار ہوتے تھے۔ بچپن سے ہی آپؓ کی روح کی غذا عبادت الٰہی تھی۔ فرض کے علاوہ نوافل بھی کثرت سے پڑھتے تھے۔ ابتدائً آپؓ کا جھکاؤ فرقہ قادریہ کی طرف ہوا۔ جب آپؓ نے اپنے استاد سے حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحبؓ کا خوشکن الفاظ میں تذکرہ سنا تو حضرت صاحبزادہ صاحبؓ کے پاس چلے آئے اور اُن کے اعمال صالحہ اور طریقہ درس و تدریس دیکھ کر اُنہی کے گرویدہ ہوگئے اور وہیں مستقل دھونی رمالی۔ حضرت صاحبزادہ صاحبؓ کثرت سے اپنے درس میں اس بات کا ذکر فرمایا کرتے کہ یہ مسیح موعود کا زمانہ ہے اور ساری علامات پوری ہوچکی ہیں۔
اسی اثناء میں حضرت صاحبزادہ صاحبؓ کے پاس حضرت مسیح موعودؑ کی کتاب ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ پہنچی تو آپؓ نے خود اس کا مطالعہ کرنے کے بعد اپنے قابل اعتماد دوستوں کو جن میں حضرت مولوی عبدالستار خانصاحبؓ بھی شامل تھے، یہ کتاب پڑھ کر سنائی اور پھر آپؓ کو ہی تحقیقِ احوال کیلئے قادیان بھی بھیجا۔
حضرت مولوی صاحبؓ قادیان تشریف لائے اور کچھ مدّت قیام کیا اور پھر بیعت کرکے واپس حضرت صاحبزادہ صاحبؓ کے پاس تشریف لے گئے۔ اس کے بعد حضرت صاحبزادہ صاحبؓ بھی قادیان تشریف لائے اور پھر اپنی جان اسی راہ میں فدا کردی۔ حضرت صاحبزادہ صاحبؓ کی قربانی کے بعد احمدیوں کے لئے کابل کی سرزمین کانٹوں کی آماجگاہ بن گئی۔ چنانچہ حضرت مولوی عبدالستار خانصاحبؓ 1904ء میں قادیان تشریف لے آئے اور یہیں مستقل سکونت اختیار کرلی۔ یہاں آپؓ نے سلسلہ درس و تدریس جاری کیا اور خصوصاً افغانستان سے آنے والے دوست آپؓ کے حجرہ میں ہی تعلیم و تربیت حاصل کیا کرتے تھے۔ جماعت کے کئی جید بزرگ بھی آپؓ کے پاس تشریف لایا کرتے اور آپؓ کے درس کے ساتھ ساتھ اُس قہوہ سے بھی لطف اندوزہوتے جو ہمہ وقت تیار رہتا۔
حضرت مولوی عبدالستار خانصاحبؓ خوش خصال اور خوب رُو تھے، صاحبِ رؤیا و کشوف تھے اور صاحب کرامات بزرگ تھے۔ حضرت مسیح موعودؑ بھی آپؓ کو دعا کے لئے کہتے تھے۔ جب قادیان میں ریلوے لائن بچھانے کا منصوبہ بنایا گیا تو حکومت کا خیال تھا کہ لائن کو بہشتی مقبرہ سے متصل باغ کے ساتھ بچھایا جائے۔ اس سے حضرت مصلح موعودؓ بھی بہت متفکر تھے۔ حضرت بزرگ صاحبؓ نے کشف دیکھا کہ ریل گاڑی بہشتی مقبرہ کے پاس سے گزر رہی ہے۔ آپؓ نے اُسے ٹھوکر ماری تو وہ جس جگہ جاکر گری بعد میں اسی جانب ریلوے لائن بچھائی گئی۔ حضرت مصلح موعودؓ نے آپؓ کی اس خصوصیت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو کچھ اس قسم کا ایمان و اخلاص عطا کیا تھا جو بہت کم لوگوں کو میسر آتا تھا … ایسا مقام عطا فرمایا تھا کہ وہ صحیح الہام پاتے تھے۔
حضرت بزرگ صاحبؓ کے توکل کا مقام نہایت اعلیٰ درجہ کا تھا۔ آپؓ نے اپنی ذاتی ضروریات کے لئے کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ عبدالستار صاحب وہ بزرگ تھے جن کو بزرگ صاحب کہا جاتا تھا، بہت درویش مزاج اور سادہ منش بزرگ تھے۔ لیکن اس کثرت سے وحی اور کشوف ظاہر ہوتے تھے کہ ایسے وجود خود حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت کا ایک زندہ اعلان تھے۔
حضرت اقدس علیہ السلام کی آپؓ سے محبت کا اظہار اس ایک واقعہ سے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ ایک دفعہ کسی نے یورپ سے حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں کوئی تحفہ بھیجا جسے آپؑ نے لوگوں میں تقسیم کیا مگر اس وقت بزرگ صاحبؓ وہاں موجود نہ تھے تو حضورؑ نے باقی لوگوں کی نسبت آپؓ کے لئے دوگنا حصہ رکھا۔
حضرت بزرگ صاحبؓ چارپائی پر بیٹھتے وقت قبلہ رو بیٹھتے۔ تنہائی میں عبادت میں مصروف رہتے اور مجلس میں درس و تدریس کے علاوہ خاموش رہنا پسند فرماتے۔ آپؓ کی رحلت سے قبل حضرت مصلح موعودؓ نے ایک رؤیا دیکھا کہ کوئی شخص نہایت گھبرائے ہوئے الفاظ میں کہتا ہے دوڑو، دوڑو، قادیان میں ایک ایسا شخص فوت ہوا ہے جس کے فوت ہونے سے آسمان و زمین ہل گئے ہیں۔ آپؓ نے نظر اٹھائی تو دیکھا کہ واقعی آسمان ہل رہا ہے اور مکان بھی ہل رہے ہیں۔ گویا ایک زلزلہ آیا ہوا ہے۔ آپؓ کی وفات پر حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ یہ رؤیا انہی کے متعلق تھی جو پوری ہوگئی۔
آپؓ کے بارے میں ایک مضمون روزنامہ ’’الفضل‘‘ 11؍ستمبر 1998ء میں مکرم عبدالقدیر قمر صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔