حضرت عبداللہ بن رواحہؓ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 3؍مارچ 2000ء میں حضرت عبداللہ بن رواحہؓ کے بارہ میں ایک مضمون مکرم غلام مصباح بلوچ صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔ آپؓ کا نام عبداللہ ، کنیت ابومحمد ، ابورواحہ یا ابوعمرو تھی۔ 13؍نبوی میں حج کے موقعہ پر اوس اور خزرج کے کئی سو آدمی مکہ میں آئے جن میں سے ستر اشخاص نے قبول اسلام کی توفیق پائی جن میں حضرت عبداللہ بن رواحہؓ بھی شامل تھے۔ یہ بیعت عقبہ ثانیہ کا واقعہ ہے۔ آنحضرتﷺ نے جب بارہ نقیب مقرر فرمائے تو آپؓ کو آپ کے قبیلہ حارث بن خزرج کا نقیب مقرر فرمایا۔ ہجرت کے موقع پر مؤاخات کا آغاز ہوا تو حضرت مقداد بن اسودؓ سے آپؓ کا رشتۂ اخوّت استوار ہوا۔
حضرت عبداللہ بن رواحہؓ نے جنگ بدر، اُحد، خندق، حدیبیہ اور خیبر میں بھی شرکت کی۔ بیعت رضوان میں بھی شامل ہوئے۔ غزوہ خندق میں خندق کی کھدائی کے موقعہ پرآنحضورﷺ اور صحابہؓ عبداللہ بن رواحہؓ کے اشعار پڑھتے تھے۔
خیبر کے یہود میں سے ایک شخص اسیر بن رزام نے آنحضرتﷺ کے خلاف تقاریر کرکے اشتعال پھیلادیا۔ آنحضورﷺ نے حضرت عبداللہ بن رواحہؓ کو پہلے تین دیگر صحابہؓ کے ہمراہ حالات کا جائزہ لینے کے لئے خیبر کی طرف روانہ فرمایا۔ جب یہ خبر سچی نکلی تو پھر آپؓ کی قیادت میں ہی تیس صحابہ کو خیبر کی طرف روانہ فرمایا۔ یہودیوں کے ایک گروہ سے لڑائی ہوئی۔ بعض مسلمان زخمی ہوئے لیکن کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، البتہ سارے یہودی ہلاک ہوگئے۔ اس لڑائی میں آپؓ کے چہرہ پر زخم لگا۔ جب واپس آئے تو آنحضورﷺ نے اپنا لعاب دہن آپؓ کے زخم پر لگایا چنانچہ مرتے دم تک اُس زخم میں نہ پیپ پڑی، نہ درد ہوا۔
خیبر کی فتح کے بعد آنحضورﷺ اہل خیبر کے پاس آپؓ ہی کو بھجوایا کرتے تھے تاکہ نخلستان کی پیداوار کا تخمینہ لگاکر مسلمانوں اور یہودیوں کے اموال کو تقسیم کردیں۔
عمرۃ القضا میں آنحضرتﷺمکہ تشریف لے گئے تو آپؓ اونٹ کی مہار پکڑے ہوئے تھے اور اپنے اشعار پڑھ رہے تھے۔
8ہجری میں آنحضرتﷺ نے تین ہزار صحابہؓ حضرت زید بن حارثہؓ کی قیادت میں موتہ کی طرف روانہ فرمائے اور فرمایا کہ اگر زیدؓ شہید ہوجائیں تو جعفرؓ امیر لشکر ہوں گے اور اُن کے بعد عبداللہ بن رواحہؓ اور اگر وہ بھی شہید ہوجائیں تو مسلمان جس کو چاہیں اپنا امیر مقرر کرلیں۔ یہ لشکر معانؔ کے مقام پر پہنچا تو ہرقل نے دو لاکھ فوج مقابل پر بھیجی۔ بعض صحابہؓ نے آنحضرتﷺ کو ایک مکتوب کے ذریعہ اس کی اطلاع دینے کا مشورہ دیا۔ اس پر عبداللہ بن رواحہؓ نے نہایت دلیری سے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ’’خدا کی قسم وہ چیز جس سے تم ہچکچارہے ہو، یہ تو وہی ہے جس کے طلبگار ہوکر تم نکلے ہو۔ ہم مسلمان دشمن سے تعداد، طاقت اور کثرت کے بل بوتے پر نہیں لڑتے، ہم تو کفار سے اس دین کے تحفظ کے لئے لڑتے ہیں جس سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں سرفراز فرمایا ہے۔ پس اللہ کا نام لے کر چلو اور مقابلہ کرو۔ دو بھلائیوں میں سے ایک کہیں نہیں گئی، فتح یا شہادت‘‘۔ اس پر لشکر آگے روانہ ہوا۔ میدان جنگ میں یکے بعد دیگرے تینوں امیر شہید ہوگئے۔
حضرت عبداللہ بن رواحہؓ کو شہادت کا بہت شوق تھا۔ غزوۂ موتہ کے سفر میں آپؓ نے زید بن ارقم کو اپنی سواری پر بٹھالیا۔ رات کو آپؓ یہ شعر پڑھنے لگے: ’’خدا کرے اب مَیں پیچھے اپنے اہل و عیال میں لَوٹ کر نہ جاؤں اور یہ سب مسلمان جو آئے ہیں اس لئے آئے ہیں کہ مجھے ملک شام میں ایک ایسی شہادت کے ٹھکانے چھوڑ جائیں جس کے لئے مَیں بے چین ہوں …‘‘۔ زید نے یہ سنا تو روپڑے۔ اس پر آپؓ نے کہا: تیرا اس میں کیا حرج ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے شہادت نصیب کرے اور تُو کجاوے پر بیٹھ کر واپس چلا جاوے۔
آنحضورﷺ کے زمانہ میں تین شعراء بہت مشہور تھے: حضرت حسان بن ثابتؓ، حضرت کعب بن مالکؓ، حضرت عبداللہ بن رواحہؓ۔
آپؓ اکثر اپنے اشعار میں کفار کو مطعون کرتے اور انہیں عار دلاتے تھے۔ فی البدیہہ بھی شعر کہتے تھے۔ آپؓ کا شمار کاتبان وحی میں بھی ہوتا ہے۔ آپؓ نہایت زاہد، عابداور حد درجہ متقی تھے۔
ایک بار آنحضرتﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ عبداللہؓ بن رواحہ پر رحم کرے، وہ ایسی مجالس پسند کرتا ہے جس پر فرشتے بھی فخر و مباہات کا اظہار کرتے ہیں‘‘۔ آپؓ اکثر کسی صحابی سے کہتے کہ آؤ ایمان کی باتیں کریں۔ پھر اپنی مجلس میں اللہ کا ذکر کرتے اور اپنے ایمان میں اضافہ کرتے۔
ایک مرتبہ مسجد نبوی کی طرف جاتے ہوئے آپؓ کے کانوں میں آنحضرتﷺ کی آواز آئی کہ بیٹھ جاؤ۔ آپؓ وہیں بیٹھ گئے حالانکہ یہ ارشاد مسجد کے اندر والوں کیلئے تھا۔ بعد میں کسی نے اس کا ذکر آنحضورﷺ سے کیا تو آپؐ نے فرمایا: اللہ اور رسول کی اطاعت میں خدا ان کی حرص و آرزو میں اضافہ کرے۔
آپؓ کی بیوی کا بیان ہے کہ جب گھر سے نکلتے تو دو رکعت نماز پڑھتے اور جب واپس آتے تو بھی ایسا ہی کرتے، اس امر میں کبھی کوتاہی نہیں کی۔
حضرت ابودردائؓ سے مروی ہے کہ ایک دفعہ ہم شدید گرمی کے موسم میں آنحضرتﷺ کے ہمسفر تھے۔ عبداللہ بن رواحہؓ ایسی حالت میں بھی روزہ سے تھے۔
جہاد کا بہت شوق تھا۔ آپؓ کے متعلق آتا ہے کہ ایک بھی جہاد ترک نہ کیا اور سب سے پہلے جہاد کے لئے نکلتے اور سب سے آخر میں لَوٹتے۔
آنحضورﷺ سے آپؓ کو بہت محبت تھی اور بہت غیرت تھی۔ ایک مرتبہ عبداللہ بن ابی بن سلول کی مجلس میں بیٹھے تھے کہ آنحضرتﷺ ادھر سے گزرے اور آپکی سواری کی گرد اہل مجلس پر پڑی۔ عبداللہ بن ابی نے کہا کہ گرد نہ اڑاؤ تو آنحضورﷺ اُترے اور توحید پر ایک مختصر تقریر کی۔ عبداللہ بن ابی جو ابھی تک مشرک تھا، نے کہا کہ یہ بات ٹھیک نہیں ہے جو آپ کہتے ہیں۔ اگر یہ حق ہے تو یہاں آکر ہمیں پریشان کرنے کی ضرورت نہیں البتہ جو آپ کے پاس جائے اُس کو ایمان کی دعوت دے سکتے ہیں۔ اس پر عبداللہ بن رواحہؓ بولے: یا رسول اللہ! آپ ضرور فرمائیں، ہم اس بات کو پسند کرتے ہیں۔
آپؓ نے کئی نعتیں بھی کہیں۔ ایک شعر میں یوں کہا کہ ’’اگر آپؐ میں کھلی کھلی نشانیاں نہ بھی ہوں، تب بھی آپؐ کی کی شکل و صورت خبرِ رسالت دینے کے لئے کافی تھی‘‘۔